کیا جہنم کی آگ سے بچنے کی بھی فکر ہے؟۔
EPAPER
Updated: May 03, 2024, 1:28 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai
کیا جہنم کی آگ سے بچنے کی بھی فکر ہے؟۔
درجہ ٔحرارت میں ساری دنیا کا پارہ ہر سال چڑھتا ہی جارہا ہے۔ جنگلوں میں لگتی آگ، میٹھے پانی کی زمین میں کم ہوتی ہوئی سطح، یہ دہکتی ہوئی فضائیں، برفیلے علاقوں کی پگھلاہٹ اور اس طرح کی دیگر بیشمار ماحولیاتی تبدیلیوں نے دھیرے دھیرے اس کرۂ ارضی کو گرمانا شروع کردیا ہے۔ یہ بڑھتاہوا درجۂ حرارت جو کسی طرح کم ہونے کا نام نہیں لیتا، اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ وہ مرحلہ اب بہت قریب آچکا ہے جس کے متعلق اللہ عزوجل نے سورہ الرحمٰن (آیت :۳۵) میں اشارہ فرمایا ہے: ’’تم پر آگ کا شعلہ اور تانبے کے رنگ کا دھواں چھوڑا جائے گا، پھر تم اپنا بچاؤ نہیں کرسکوگے۔ ‘‘
دنیا کے اکثر ممالک کے متعلق یہ خبر یں آتی ہی رہتی ہیں کہ وہاں کے موسم گرما کے گزشتہ سو سالوں کا یا پچاس برسوں کا سب سے زیادہ گرم پچھلا سال رہا، یا فلاں مہینہ رہا۔ اس گرمی کی وجہ سے ساری دنیا میں ہاہاکار مچ گئی ہے اور ماحولیات کے متعلق بیشمار اقدامات کے باوجود یہ درجۂ حرارت ہے کہ بلا کسی روک ٹوک کے رفتہ رفتہ بڑھتا ہی چلاجارہا ہے۔ ساری دنیا گویا کہ ایک بھٹی بن رہی ہے جس کی تمازت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
لیکن ایک مومن کے لئے اس میں بھی عبرت کا ایک نہایت اہم درس موجود ہے۔ اس لئے کہ مومن ہر شئی میں اللہ عزوجل کی نشانی ڈھونڈتا ہے جس کے متعلق اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ ‘‘ (سورہ فصلت: ۵۳) اسی لئے ہمارے لئے یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ دنیا کی اس گرمی سے ہانپنے اور کانپنے والا انسان بھلا اجہنم کی اس گرمی کا مقابلہ کیسا کرے گا جو یہاں کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہوگی؟
یہ بھی پڑھئے: معاونین اور محسنین کو فراموش کرنا غیر اخلاقی وغیر اسلامی عمل ہے!
اس دنیا کی گرمی سے سبق حاصل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ اس دنیا کی گرمی دراصل جہنم سے آنے والی گرمی کا ایک حصہ ہی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی کہ میرا بعض حصہ بعض حصے کو کھائے جا رہا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دو سانسیں مقرر کر دیں : ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس جاڑے میں، جہنم کے جاڑے کی سانس سے سخت سردی پڑتی ہے۔ اور اس کی گرمی کی سانس سے لو چلتی ہے۔ “ اس حدیث سے معلوم ہو اکہ اللہ عزوجل نے اس دنیا میں جو گرمی رکھی ہے وہ جہنم کی ہی ایک سانس ہے، اب انسان کو سوچنا چاہئے کہ جب وہ صرف جہنم کی سانس سے اس قدر پریشان ہورہا ہے تو اس نے اس منبع سے بچنے کے لئے کیا تیاری کررکھی ہے جہاں سے یہ قیامت خیز گرمی پید ا ہورہی ہے؟ اور منبع بھی ایسا ہولناک اور دہشت ناک ہے کہ وہاں کی آگ اور گرمی کو سمجھنا ہوتو ایک حدیث کی جانب نگاہ ڈالنا کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری یہ آگ جو بنی آدم جلاتے ہیں (حرارت میں ) جہنم کی آگ سے ۷۰؍ حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ “
قرآن مجید وحدیث رسولؐ میں کئی مقامات پر جہنم کے حال احوال بیان ہوئے ہیں۔ سورۃالحج میں اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے:’’اب جن لوگوں نے کفر اپنایا ہے، ان کے لیے آگ کے لباس تراشے جائیں گے۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ جس سے کی پیٹ کی اندر کی چیزیں اور ان کی کھالیں گل جائیں گی۔ ‘‘(سورہ الحج : ۱۹۔ ۲۰) اسی طرح ایک اور مقام پر آیا ہے کہ ’’جہنمیوں کے لئے آگ کا ہی اوڑھنا اور بچھونا ہوگا۔ ‘‘ (سورہ الاعراف:۴۱) یہی نہیں بلکہ اگر شدت پیاس سے تڑپ کر جب جہنمی پانی مانگیں گے تو قرآن مجید کہتا ہے ان کو ایسا کھولتا ہو اپانی دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو بھون کر رکھ دے گا۔ اور جہنم کی گرمی اس قدر کیوں نہ ہو جبکہ وہ اتنی گہری ہے کہ (ایک حدیث کے مطابق)اس میں گرنے والی شئی ستر برس کے بعد اس کی تہہ تک جاکر پہنچتی ہے۔ جس کو سورۃ الھمزہ میں اس طرح بیان کیا گیا کہ جہنم کی آگ لمبے لمبے ستونوں والی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایک طویل فہرست ہے ان باتوں کی جو جہنم کی گرمی، وہاں کی ہولناکی کے متعلق قرآن و حدیث میں آئی ہیں۔
اب ہمارے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اس دنیا کی معمولی سی گرمی سے بچنے کے لئے ہم کیا کیا جتن کرر ہے ہیں۔ نرم اور ہوادار کپڑے پہن رہے ہیں، دھوپ کے وقت گھر سے باہر نکلنے سے بچ رہے ہیں، چھاؤں تلاش کررہے ہیں، پنکھے، کولر اور اے سی لگوارہے ہیں، غرضیکہ ہماری مکمل کوشش ہے کہ خود کو کسی طرح گرمی سے بچایا جائے اور راحت پہنچائی جائے۔ لیکن اس کے برخلاف جہنم کی اس آگ اور گرمی سے بچنے کی ہماری تیاری، اگر یہ کہا جائے کہ بالکل صفر ہے تو غلط نہ ہوگا۔ اس لئے کہ ان باتوں کا ہمیں کبھی کوئی بھولا بھٹکا خیال آبھی جاتا ہے تو ہم یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ’ہنوز دلی دور است‘۔ یہ انسانی نفسیات انسان کی آخرت کے لئے نہایت نقصاندہ ہے۔ ہر وقت موت، آخرت، اور جنت و جہنم کا استحضار انسان کے لئے بہت ضروری ہے اور اس کے لئے اللہ عزوجل نے انسان کے دل میں ایک خاصہ رکھا ہے کہ وہ کبھی کسی چیز سے تحریک حاصل کرتا ہے تو کبھی کسی چیز سے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جھلسا کے رکھ دینے والے اس دنیا کے موسم گرما، چلچلاتی دھوپ اور بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت سے ہم سبق سیکھیں، اس کے ذریعہ جہنم کی آگ کا خیال ہمارے ذہن میں آئے اور ہم خود کو اور اپنے گھر والوں کو اور ساری امت کو اس جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش میں جٹ جائیں جس کے متعلق قرآن مجید نے کہا کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔
اوریہی وہ استحضار ہے جس کا تقاضہ اسلام ہم سے کرتا ہے۔ سیرۃ النبیﷺ میں غزوۂ تبوک کے تذکرے میں اس جانب لطیف اشارہ ملتا ہے۔ دراصل غزوۂ تبوک نہایت ہولناک گرمی کے موسم میں ہوا تھا۔ تقریباً چھ سو کلومیٹر کا سفر طے کرنا تھا اور سخت گرمی کا موسم تھا۔ منافقین جو جھوٹے بہانے کرکے اس جنگ میں نہیں گئے تھے اپنے اس فیصلے پر بڑے خوش تھے اور بغلیں بجارہے تھے۔ قرآن مجید کہتا ہے:
’’رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے باعث (جہاد سے) پیچھے رہ جانے والے (یہ منافق) اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہو رہے ہیں وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کہتے تھے کہ اس گرمی میں نہ نکلو، فرما دیجئے: دوزخ کی آگ سب سے زیادہ گرم ہے، اگر وہ سمجھتے ہوتے (تو کیا ہی اچھا ہوتا)۔ ‘‘ (سورہ التوبہ:۸۱)
اے کاش کہ قرآن مجید یہاں جو لطیف نکتہ سمجھانا چاہ رہا ہے وہ ہم کو بھی سمجھ میں آجائے۔ کہ اس دنیا کی گرمی سے ڈرنے والے اور اس سے بچاؤ کا انتظام کرنے والے ہم لوگ، جہنم کی گرمی کی شدت کو سمجھیں اور اس سےبچنے کے لئے تدابیر اختیار کرنا شروع کردیں، اس لئے کہ اسی میں ہمارے لئے کامیابی ہے۔