• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اخلاقی تعاون کے بغیر مضبوط ملت کا تصور ناممکن !

Updated: April 19, 2024, 4:22 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

ہم جس جگہ اور جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں آسان اور پر سکون زندگی گزار نے کے لئے انتہائی ضروری عمل یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو متعلقہ کاموں میں تعاون دیں۔

Moral cooperation has an important role to play in making human life on the path of development, therefore Islam has given special guidance to this aspect. Photo: INN
انسانی زندگی کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میںاخلاقی تعاون کا ایک اہم کردار ہے، اس وجہ سے اسلام نے اس پہلو کی طرف خصوصی رہنمائی کی ہے۔ تصویر : آئی این این

ہم جس جگہ اور جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں آسان اور پر سکون زندگی گزار نے کے لئے انتہائی ضروری عمل یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو متعلقہ کاموں میں تعاون دیں۔ اس تعاون کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں؛ جیسے مالی،جسمانی،وقتی اور اخلاقی۔ یاد رکھیں! اگر ہمارے اندر تعاون پیش کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو ہماری زندگی اس اعتبار سے مشکل ہو جائے گی کہ ہمیں بھی دوسروں کا تعاون نہیں ملے گا۔زیر نظر مضمون میں ہم تعاون کے ایک اہم پہلو کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔ 
 تعاون کے اس پہلو کو عرف عام میں ’’اخلاقی تعاون‘‘ کہا جاتا ہے۔تعاون کا یہ پہلو نسبتاً آسان مگر اہمیت کے اعتبار سے بہت اعلیٰ ہے۔آسان اس اعتبار سے ہے کہ اس میں انسان کو نہ مال و دولت اور نہ قوت و طاقت خرچ کر نے کی ضرورت پڑتی ہے بلکہ صرف حوصلہ افزاء کلمات سے دوسروں کے کاموں کی تائید و تصدیق کرنی ہوتی ہے اور اہمیت کے حساب سے بہت اعلیٰ اس وجہ سے ہے کہ کام کرنے والوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پشت پر مخلصین کھڑے ہیں اس وجہ سے ان کا کام مضبوطی سے آگے بڑھے گا اور انہیں کامیابی ملے گی۔ 

یہ بھی پڑھئے:نیکیاں ضائع کرنے والے کام

چونکہ انسانی زندگی کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں اخلاقی تعاون کا ایک اہم کردار ہے،اس وجہ سے اسلام نے اس پہلو کی طرف خصوصی رہنمائی کی ہے اور صاحب شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً اسے کر دکھا یا ہے۔اس سلسلے میں ماخذ کی حیثیت رکھنے والی قرآن مجید کی اس آیت پر ہمیں ضروری توجہ دینی چاہئے: ’’اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے۔ ‘‘ (المائدہ:۲) یہ آیت تعاون اور عدم تعاون کے سلسلے میں بہت ہی جامع ہے۔جہاں شرعی حدود میں رہتے ہوئے جانی، مالی، علمی، دینی، دعوتی اور وقتی تعاون اس میں شامل ہے وہیں تمام جائز معاملات میں اخلاقی تعاون بھی اس میں آتے ہیں۔اسی کے ساتھ تمام غیر شرعی معاملات میں عدم تعاون کا اصول بھی ہمیں اس آیت سے ملتا ہے۔ 
آئیے! اب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی سے اخلاقی تعاون کا سبق سیکھتے ہیں۔`ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی حجرے سے باہر آئے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے۔وہاں دو حلقے لگے تھے۔ان میں سے ایک حلقہ قرآن کریم کی تلاوت اور دعا میں مشغول تھا؛ جب کہ دوسرا حلقہ سیکھنے سکھانے میں مصروف تھا۔اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر حلقہ اچھے کام میں مشغول ہے۔وہ سب قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور دعا میں مشغول ہیں ؛ لہٰذا اللہ چاہیں،تو انہیں عطا کریں گے اور اگر نہ چاہیں تو عطا نہیں کریں گے۔اور وہ سب (دوسرا حلقہ) سیکھنے سکھانے میں مشغول ہیں اور میں بحیثیت معلم بھیجا گیا ہوں۔پھر آپ ان (سیکھنے سکھانے والوں ) کے ساتھ بیٹھ گئے۔(سنن ابن ماجہ:۲۲۹) 
 اس حدیث پاک سے صاف طور پر ہمیں اخلاقی تعاون کی دلیل ملتی ہے اور وہ اس طور پر کہ آپؐ نے مسجد میں بیٹھی دونوں جماعتوں کی حوصلہ افزائی فرمائی،جس سے ان دونوں جماعتوں کو یہ ترغیب ملی کہ وہ اپنے کاموں میں آگے بڑھیں اور بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کریں۔فرض کریں کہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں جماعتوں کو اپنے کاموں میں مشغول چھوڑ کر،عبادت میں مشغول ہو جاتے تو ان لوگوں کے سامنے مذکورہ خیر کی باتیں نہیں آتیں اور وہ لوگ اس طرح اپنے کاموں کے حوالے سے اخلاقی تعاون سے محروم رہ جاتے۔اس نظیر سے ایک اہم نکتہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر انسان تن تنہا ذاتی طور پر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مشغول ہو اور آس پاس کے لوگوں کے کاموں سے کوئی واسطہ نہ رکھے تو اس کی افادیت محدود ہو جاتی ہے اور خیر کا وہ پہلو سامنے نہیں آتا جو بصورت دیگر آنا چاہئے۔ 
 اب تک کی بحث سے اخلاقی تعاون کی اہمیت صاف طور پر سمجھ میں آگئی۔اس تعلق سے ہمارے معاشرے کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ دوسروں کو اخلاقی تعاون دینا تو کجا،ان کے کاموں میں ٹانگ اڑانے اور خلل ڈالنے میں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے کاموں میں مخلص ہیں اور قوم و ملت کے لئے کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اور کبھی تو ہمت بھی ہار جاتے ہیں۔یاد رکھیں ! جب تک اس روش میں تبدیلی نہیں آئے گی تب تک اجتماعی کامیابی اور ترقی کا خواب ادھورا رہے گا اور ہم ایک مضبوط ملت کی حیثیت سے ابھر نہیں پائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK