• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہمارا ملی فریضہ ہے کہ ہوشمندی اور سمجھداری کے ساتھ ووٹ دیں

Updated: November 16, 2024, 3:52 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

جمہوری نظام میں ووٹ ایک اہم طاقت اور مؤثر ہتھیار ہے اور بعض اہل علم نے اسے گو اہی کے حکم میں رکھا ہے جس سے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔

The need of the hour is that we should save our vote from being dispersed and unite and vote for one party with full consciousness. Photo: INN
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے ووٹ کو منتشر ہونے سے بچائیں اور پورے شعور کے ساتھ متحد ہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں۔ تصویر : آئی این این

جہاد ایک ایسا لفظ ہے جس کو مغربی اہل قلم اور حکومتوں نے بدنام کرکے رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی نئی نسل بھی جہاد کے تذکرہ پر شرمندگی و احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتی ہے؛ حالانکہ یہ محض پروپیگنڈہ یا غلط فہمی ہے۔ امن اور انصاف قائم کرنے کی کوشش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں، جہاد کا تعلق صرف میدان کارزار اور فولادی وآتشیں ہتھیاروں سے نہیں ہے؛ بلکہ انسان کی ان تمام صلاحیتوں سے ہے، جو امن و انصاف قائم کرنے کے مقصد کو پورا کرسکتی ہیں۔ جہاد زبان سے بھی ہے چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا کہنا جہاد کی سب سے افضل صورت ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم باب الأمر والنہی، حدیث نمبر: ۴۳۴۴) اور جو کام زبان کرتی ہے، وہی کام بعض اوقات زیادہ بہتر طور پر قلم کے ذریعہ انجام دیا جاتا ہے؛ اسی لئے قلم بھی جہاد کا ایک ذریعہ ہے۔ جہاد مال کے ذریعہ بھی ہے۔ خود قرآن مجید (التوبہ: ۴۱)میں اس کا ذکر موجود ہے۔ جہاد کا تعلق انسان کے نفس اور جسمانی مشقتوں سے بھی ہے؛ چنانچہ رسول پاکؐ نے حج کو بھی جہاد قرار دیا: ’’الحج جہاد‘‘ (سنن ابن ماجۃ، کتاب المناسک، باب العمرۃ، حدیث: ۲۹۸۹) کیونکہ حج میں انسان نفس کے خلاف مجاہدہ کرتا ہے۔ نہ اپنی مرضی کا لباس پہن سکتا ہے، نہ خوشبوکا استعمال کرسکتا ہے اور اسے بعض جائز خواہشات کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ جہاد کی آخری شکل وہ ہے، جس کو ’’جنگ‘‘کہا جاتا ہے جس کا مقصد عدل و انصاف قائم کرنے اور شر و فساد کو دورکرنے میں آخری درجہ کی قوت کا استعمال کرنا ہے۔ غرض کہ جہاد کا مقصد متعین ہے لیکن آلات و وسائل متعین نہیں ہیں، ہر زمانہ میں جو طاقت اور جو صلاحیت انصاف کوقائم کرنے میں ممد و معاون ہوسکتی ہے، ظالموں کو زیر کر سکتی ہے اور سماج پر اثر انداز ہوسکتی ہے ان وسائل کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ 
اللہ کا شکر ہے کہ ہم لوگ جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں، یہ جمہوری تصورات کے غلبہ کا عہد ہے، جس میں رائے عامہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے، جس میں پُر امن طریقہ پر انقلاب لانا ممکن ہے، جس میں اکثریت کی رائے کا خاص وزن ہوتا ہے، جمہوری نظام حکومت کا ایک اہم اور بنیادی عمل الیکشن ہے، الیکشن میں زیادہ ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کیا جاسکتا ہے اور ووٹ کی طاقت استعمال کرکے حکومتیں بدلی جاسکتی ہیں۔ اس لئے حکومتوں کو بدلنے اور حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لحاظ سے الیکشن بھی اس قوت میں شامل ہے، جس کے جمع کرنے کا قرآن مجید نے حکم دیا ہے، خصوصاً ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، الیکشن کی سیاست میں مسلمانوں کے حصہ لینے کی بے حد اہمیت ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے:معاشرہ کی اصلاح بھی آپ کی ذمہ داری ہے!

الیکشن میں حصہ لینے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی کوشش کریں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بعض اہل علم نے ووٹ کو گواہی کے حکم میں رکھا ہے، گواہی دینا بوقت ضرورت واجب ہے اور اس سے بڑی ضرورت کیا ہوگی کہ فرقہ پرست پارٹیوں کو بام اقتدار تک پہنچنے سے روکا جائے۔ عملی طور پر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں نے ووٹ ڈالنے کا اہتمام کیا، وہاں سیکولر طاقتوں کو آگے بڑھانے اور فسطائی قوتوں کو پیچھے ہٹانے میں مدد ملی ہے۔ 
 اس طاقت کو استعمال کرنے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مسلمان اپنے ووٹ کو منتشر ہونے سے بچائیں اور پورے شعور کے ساتھ متحد ہوکر کسی ایک پارٹی کو ووٹ دیں۔ اکثریت تو ووٹ تقسیم ہونے کے باوجود اپنی سیاسی قوت برقرار رکھ سکتی ہے؛ لیکن اس اقلیت کا کوئی وزن باقی نہیں رہ سکتا جس کی صفیں شکستہ ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اجتماعیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے: ’’یداللہ علی الجماعۃ‘‘ (نسائی، کتاب تحریم الدم، باب قتل من فارق الجماعۃ الخ، حدیث نمبر: ۴۰۲۰) قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ ‘‘(آل عمران:۱۰۳)انتشار اور بکھراؤ، ہوا خیزی، شکست و ریخت اور قومی کمزوری کا سبب ہوتا ہے۔ (الانفال: ۴۶)
الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ کو بے اثر کرنے کیلئے دور رس اور بظاہر دلفریب سازشیں بھی کی جاتی ہیں اورمضبوط مسلمان امیدوار کے مقابلہ مسلمان امیدوار ہی کھڑے کئے جاتے ہیں، ایسے موقع پر ضروری ہے کہ صورت حال کو دیکھتے ہوے فیصلہ کیا جائے اور جیسے اسلام دشمن طاقتیں عہد نبویؐ میں منافقین کو اپنا آلہ کار بناتی تھیں ؛ لیکن مسلمان اس سے متاثر نہیں ہوتے تھے، اس اسوہ کو سامنے رکھا جائے۔ اگر کچھ مسلمان امیدوار پیسے لے کر مسلمان یا سیکولر امیدوارکو نقصان پہنچانے کے لئے کھڑے ہوں تو یہ یقیناً رشوت ہے اور بمقابلہ عام رشوتوں کے زیادہ گناہ کا باعث ہے؛ کیوں کہ اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ 
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی الگ سیاسی جماعت قائم کرنی چاہئے، جس کا رجحان بڑھ رہا ہے، یا دوسری سیاسی جماعتوں میں شرکت کو ترجیح دینی چاہئے ؟ --- میں سمجھتاہوں کہ اس سلسلہ میں ہر جگہ ایک ہی طریقہ کار کو اختیار نہیں کیا جاسکتا بلکہ مختلف علاقوں کے حالات کے اعتبار سے الگ الگ طریقے مفید ہوسکتے ہیں۔ مسلم جماعتوں کے قیام میں یہ فائدہ ضرور ہے کہ وہ قانون ساز اداروں میں کسی تحفظ کے بغیر مسلمانوں کی بات پہنچاسکتے ہیں۔ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں اس کا بڑا فائدہ محسوس کیا گیا ہے، خاص کر جنوبی ہند اور مشرقی ہند کے بعض علاقوں میں مسلمانوں کی ایسی سیاسی تنظیمیں فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں لیکن یہ ایسی جگہ پر ہی ممکن ہے جہاں مسلم آبادی مرتکز ہو۔ جہاں مسلم آبادی مرتکز نہ ہو وہاں مسلمانوں کی اپنی پارٹیوں کا قیام فائدہ مند کے بجائے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے؛ کیوں کہ اگر آپ کے ایک دو ممبر منتخب بھی ہوگئے؛ لیکن دوسری پارٹیوں نے یہ محسوس کرلیا کہ مسلمانوں کا ووٹ انہیں نہیں ملا تو آپ ان پر کوئی پریشر قائم نہیں کرسکتے اور صرف ایک دو ممبر کے ذریعہ آپ کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ ایسی جگہوں میں یہ بات زیادہ مفید ہوتی ہے کہ اپنی علاحدہ پارٹی قائم نہ کی جائے لیکن اپنے مطالبات کا ایجنڈہ مرتب کیا جائے اور اس کو ان پارٹیوں کے سامنے پیش کیا جائے جو اپنے آپ کو کم سے کم زبان سے سیکولر کہتی ہیں۔ پھر ایسی پارٹی کے حق میں متحد ہوکر کوشش کی جائے، جو مسلم ایجنڈہ کو قبول کرے۔ 
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے کام غیر مسلم بھائیوں کے اشتراک کے ساتھ کئے ہیں۔ آپؐ نے ظلم و نا انصافی اورلا قانونیت کو دور کرنے کے لئے ’حلف الفضول ‘میں شرکت فرمائی ہے۔ اگرچہ یہ واقعہ، نبوت سے پہلے کا ہے لیکن نبی بنائے جانے کے بعد بھی آپؐ نے فرمایا کہ اگر مجھے اب بھی اس کی طرف دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا۔ (مسند البزار، حدیث نمبر: ۱۰۲۴، ۱؍۱۸۵) اسی طرح ہجرت کے بعد آپؐ نے مدینہ منورہ میں ایک ایسی مملکت کی داغ بیل ڈالی، جس میں مسلمانوں اور یہودیوں کو یکساں طور پر مذہبی آزادی حاصل ہو اور دونوں یکساں طور پر دفاع کی ذمہ داریاں ادا کریں۔ جب تک خود یہودیوں کی طرف سے بد عہدی کے واقعات پیش نہیں آئے، یہ معاہدہ باقی رہا۔ یہ ایک مثال ہے کہ رسولؐ اللہ ضرورت و مصلحت کے مطابق غیر مسلم قوموں کے ساتھ اشتراک اختیار فرمایا کرتے تھے، اس لئے جن سیاسی پارٹیوں کا ایجنڈہ کھلے طور پر اسلام اور مسلمانوں سے عداوت پر مبنی نہ ہو ان پارٹیوں میں شرکت اور ایک باعزت معاہدہ کے تحت ان کے حق میں ووٹ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ جہاں مسلم پارٹیوں کا قیام اور ان کے امیدواروں کا کھڑا ہونا مسلمانوں کے لئے نقصان کا باعث ہو اور اس سے فرقہ پرست پارٹیوں کو تقویت پہنچتی ہو، وہاں مسلم پارٹیوں کا امیدوار کھڑا کرنا یقیناً ایک نادرست عمل ہی کہلائے گا۔ اس کے نتیجہ میں بعض اوقات مسلم اکثریتی حلقوں سے فرقہ پرست ممبران منتخب ہوجاتے ہیں، یہ ایمانی فراست، سیاسی شعور اور ملی حمیت کے مغائر ہے !
 غرض یہ کہ جمہوری نظام میں ووٹ ایک اہم طاقت اور مؤثر ہتھیار ہے اور ہمارا ملی فریضہ ہے کہ نہایت شعور، ہوشمندی اور سمجھداری کے ساتھ اس ہتھیار کا استعمال کریں۔ اپنے دشمنوں کے آلۂ کار نہ بن جائیں اور نہ جذبات کی رو میں بہہ کر ایسا قدم اٹھائیں جو نقصاندہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK