وراثت کے مسائل اور اصولوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں بمقابلہ مرد کے عورت کا حصہ برابر یا زیادہ ہوتا ہے یا عورت حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے۔
EPAPER
Updated: February 23, 2024, 4:01 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
وراثت کے مسائل اور اصولوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں بمقابلہ مرد کے عورت کا حصہ برابر یا زیادہ ہوتا ہے یا عورت حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے۔
شریعت ِاسلامی کے تمام احکام کی بنیاد عدل پر ہے، عدل سے مراد ہے صلاحیت کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے حقوق کی تعیین۔ عدل کا تقاضہ کبھی مساوات اور برابری کا ہوتا ہے اور کبھی کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کا، اسلام کا قانون میراث بھی اسی اُصول پر مبنی ہے۔ اسلام سے پہلے مختلف مذاہب اور قوانین میں الگ الگ قانونِ میراث رہا ہے، عربوں کا فلسفہ یہ تھا کہ جو لوگ مقابلہ اور مدافعت کی طاقت رکھتے ہوں، صرف وہی میراث کے مستحق ہیں، اسی لئے وہ عورتوں اور بعض اوقات نابالغ بچوں کو بھی میراث سے محروم کردیتے تھے۔ یہودیوں کے یہاں پوری میراث پر پہلوٹھے لڑکے کا قبضہ ہو جاتا تھا، ہندوؤں کے یہاں عورتیں میراث کی حقدار نہیں ہوتی تھیں، خود یورپ میں عورتوں کو انیسویں صدی میں حق میراث ملا ہے، اس سے پہلے وہ اس حق سے محروم تھیں۔
قرآن میں بہ سلسلۂ میراث تین باتیں خصوصاً ملحوظ رکھی گئی ہیں :
٭ پہلی بات یہ کہ کچھ قریبی رشتہ دار لازمی طور پر میراث کے حقدار ہوں گے، ان رشتہ داروں کو’’ ذوی الفروض ‘‘ کہا جاتا ہے، ان میں مرد بھی ہیں اور اسی درجہ کی رشتہ دار عورتیں بھی، جیسے باپ اور ماں، بیٹا اور بیٹی، شوہر اور بیوی، یہ بات بھی اہم ہے کہ اصحابِ فروض میں عورتیں بہ مقابلہ مردوں کے زیادہ ہیں اور ۱۷؍ حالتوں میں اصحابِ فروض کی حیثیت سے وارث بنتی ہیں اور مرد صرف چھ حالتوں میں۔
٭ دوسرے: جس شخص سے ذمہ داریاں کم یا ختم ہو گئی ہوں، اس کا حصہ بہ مقابلہ اس رشتہ دار کے کم رکھا گیا ہے، جو ابھی ذمہ داریوں کے میدان میں قدم رکھ رہا ہے، اور جس پر مستقبل میں اپنے متعلقین کے تئیں زیادہ ذمہ داریاں آنے والی ہوں، ان کا حصہ زیادہ رکھا گیا ہے، جیسے باپ کے مقابلے بیٹے کا حق زیادہ رکھا گیا؛ کیوں کہ جب باپ بیٹے سے وارث ہوتا ہے تو عام طور پر وہ زندگی سے متعلق ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکا ہوتا ہے، یا سبکدوش ہونے کے قریب ہوتا ہے اور بیٹا جب اپنے باپ سے وارث ہوتا ہے تو عام طور پر وہ اس کی ذمہ داریوں کے شباب کا وقت ہوتا ہے اور اسے بہت سے مالی حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں۔
٭ تیسری بات یہ ہے کہ جس سے ذمہ داریاں کم متعلق ہوتی ہیں، ان کا حصہ کم ہے اور جن سے زیادہ ذمہ داریاں متعلق ہوں، ان کا حصہ بھی زیادہ ہوتا ہے، باپ کے ذمہ بال بچوں کی کفالت ہے، ماں کے ذمہ خود اپنی کفالت بھی نہیں ہے، بیٹے پر اپنی بیوی، اولاد اور والدین کی ذمہ داری ہے، بیٹی پر یہ ذمہ داریاں نہیں ہیں، اسی لئے باپ کا حصہ بمقابلہ ماں کے اور بیٹے کا حصہ بمقابلہ بیٹی کے د ہرا رکھا گیا ہے۔ یہ نہ جنس کی بناپر تفریق ہے اور نہ نا انصافی ہے بلکہ یہ ذمہ داریوں کے لحاظ سے حقوق کی تعیین ہے، یہ وہ اُصول ہیں جن کی اساس پر شریعت نے قانونِ میراث مقرر کیا ہے۔
چونکہ مردوں اور عورتوں کے تمام رشتوں میں ذمہ داریوں کا تناسب یکساں نہیں ہوتا، اس لئے بہت سی صورتوں میں ایک ہی درجہ کے رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے درمیان حصہ ٔمیراث میں ایک اور دو کا تناسب ملحوظ نہیں ہے۔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ شریعت میں ہمیشہ بمقابلہ مرد کے عورت کا حصہ نصف رکھا گیا ہے۔ یہ محض غلط فہمی اور نا آگہی ہے۔ اگر گہرائی سے اس مسئلہ پر غور کیا جائے تو بہ آسانی تقسیم میراث کے سلسلے میں عورت کے حصہ کو لے کر جو آواز اُٹھائی جاتی ہے اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے، اس کی تردید اور نفی ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قرض کے مسائل اور احکام سے واقف ہونا ضروری ہے
حقیقت یہ ہے کہ میراث کے اعتبار سے ہم درجہ مرد و عورت اور رشتہ داروں کے سلسلہ میں چار صورتیں پائی جاتی ہیں :
( ۱) وہ صورت جس میں عورت کا حق میراث بمقابلہ مرد کے نصف ہے۔ (۲) وہ صورت جس میں مرد اور عورت کا حصہ برابر ہے۔
(۳) وہ صورت جس میں مرد کا حصہ کم اور اسی درجہ کی رشتہ دار عورت کا حصہ زیادہ ہے۔ اور (۴) وہ صورتیں جن میں صرف عورت وارث ہوتی ہے، اسی درجہ کا مرد رشتہ دار وارث نہیں ہوتا۔
عورت کا حصہ نصف: ان صورتوں میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلہ آدھا ہوتا ہے :
٭ باپ کے مقابلہ ماں کا، بشرطیکہ متوفی نے کوئی اولاد یا شوہر و بیوی کو نہ چھوڑا ہو۔ ٭ حقیقی بھائی کے ساتھ حقیقی بہن یا علاتی بھائی کے ساتھ علاتی بہن کا۔ ٭ زوجین میں سے ایک مرجائے اور دوسرے کو چھوڑ جائے، اس صورت میں بھی بیوی کے ترکہ میں سے جو شوہر کو ملے گا اس کے مقابلہ میں شوہر کے ترکہ میں بیوی کا حصہ نصف ہوگا، جیسے لا ولد بیوی کے مرنے پر شوہر کو نصف ملے گا اور لاولد شوہر کے مرنے پر شوہر کے ترکہ سے بیوی کو چوتھائی، اسی طرح صاحب ِاولاد شوہر کے مال میں سے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا، اور صاحب ِاولاد بیوی کے مال میں شوہر کو چوتھائی ملے گا۔
دونوں کا حصہ برابر : کچھ صورتوں میں ایک ہی درجہ کے مرد و عورت رشتہ دار کے حصے برابر ہوتے ہیں :
٭ میت کا ایک لڑکا ہو اور ماں باپ ہوں تو باپ کو بھی چھٹا حصہ ملے گا اور ماں کو بھی۔
٭ میت کی صرف دو بیٹیاں ہوں، اس صورت میں بھی بیٹیوں کو دو تہائی حصہ ملے گا، ماں اور باپ کو چھٹا ملے گا۔
٭ مرنے والی نے باپ، بیٹا او رنانی کو چھوڑا ہو تو باپ اور نانی دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا ؛ حالانکہ نانی کا رشتہ بمقابلہ باپ کے دور کاہے۔
٭ اخیافی یعنی ماں شریک بھائی اور بہنوں کا حصہ ہمیشہ برابر ہوتا ہے۔
٭ بعض صورتوں میں تنہا مرد رشتہ دار ہو یا عورت، پورے ترکہ کی حقدار ہوگی، جیسے کسی نے صرف باپ کو چھوڑا ہوتو عصبہ ہونے کی بناپر باپ پورے ترکہ کا حقدار ہوگا، یا صرف ماں کو چھوڑا ہو تو ایک تہائی اس کا اصلی حصہ ہو گا اور دو تہائی بطور ’’ رد ‘‘ اسے ملے گا، یا صرف ایک بیٹا چھوڑا ہو تو وہ عصبہ ہونے کی بناپر پورے ترکہ کا حقدار ہوگا، اور اگر صرف ایک بیٹی چھوڑی ہو تو نصف اس کا اصل حصہ ہوگا اور باقی بطور ’’ رد ‘‘ اسے مل جائیگا۔
اس طرح کی متعدد صورتیں ہیں جن میں حقیقی بہن کا حقیقی بھائی کے ساتھ یا اخیافی بہن کا حقیقی بھائی کے ساتھ برابر کاحصہ ہوتا ہے۔
عورت کا حصہ زیادہ: بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ بیٹی کا حصہ ذوی الفروض میں ہونے کی حیثیت سے بعض دفعہ نصف یا تہائی بھی ہو جاتا ہے، بیٹے کا حصہ اصحاب الفروض میں ہونے کی حیثیت سے نصف یا تہائی نہیں ہے؛ البتہ اصطلاحِ میراث کے اعتبار سے ’’ عصبہ ‘‘ میں ہونے کی حیثیت سے تقسیم حصص کے بعد بچاہوا حصہ اسے مل جاتا ہے، یہ حصہ بعض اوقات عورت کے اس حصے سے کم ہوجاتا ہے، جو اسے ’ اصحابِ فروض ‘ میں ہونے کی حیثیت سے ملتا ہے، جیسے فرض کیجئے کہ ایک عورت نے اپنی وفات کے وقت ساٹھ ایکڑ زمین چھوڑی اور شوہر، والد، ماں اور دو بیٹیوں کو چھوڑا تو ہر بیٹی کو ۱۶؍ ایکڑ زمین ملے گی، اوراگر اسی صورت میں دو بیٹیوں کے بجائے دو بیٹوں کو چھوڑا تو ہر بیٹے کا حصہ ساڑھے بارہ ایکڑ ہوگا، اسی طرح ایک عورت نے ترکہ میں ۱۵۶؍ایکڑ اراضی چھوڑی اور اس کے ورثہ میں شوہر، والد، ماں اور بیٹی ہیں، تو بیٹی کا حصہ۷۲؍ ایکڑ ہوگا اور اسی صورت میں اگر بیٹی کے بجائے بیٹا ہے تو اس کا حصہ ۶۵؍ایکڑ ہوگا ؛ چنانچہ اس طرح کی متعدد صورتیں ہیں جن میں مرد کے مقابلہ عورت کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔
صرف عورت وارث: بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں مرد کو حصہ نہیں ملتا؛ لیکن اگر اسی کی ہم درجہ عورت رشتہ دار ہو تو وہ میراث میں حصہ پاتی ہے، جیسے کسی عورت نے پسماندگان میں شوہر، باپ، ماں، بیٹی اور پوتی کو چھوڑا ہو، تو پوتی چھٹے حصے کی مستحق ہوتی ہے اور پوتی کے بجائے پوتا ہو تو اسے کوئی حصہ نہیں ملتا، اسی طرح مرنے والی عورت نے شوہر، حقیقی بہن اور علاتی بہن کو چھوڑا ہے تو علاتی بہن چھٹے حصے کی حقدار ہوتی ہے، علاتی بہن کے بجائے علاتی بھائی ہو تو اسے کوئی حصہ نہیں ملتا، اسی طرح بعض اوقات دادی وارث ہوتی ہے اور اجداد میں سے جو اس کے مقابل ہو، وہ وارث نہیں ہوتا۔
غرض کہ شریعت میں بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں بمقابلہ مرد کے عورت کا حصہ برابر یا زیادہ ہوتا ہے یا عورت حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صلاح الدین سلطان مصری نژاد فاضل ہیں جو جامعہ اسلامیہ امریکہ میں استاذ ہیں، انھوں نے اس موضوع پر ’’میراث المرأۃ و قضیۃ المساواۃ‘‘ کے عنوان سے قلم اُٹھا یا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تیس سے زیادہ حالتیں ایسی ہیں جن میں عورت مرد کے برابر یا اس سے زیادہ حصہ پاتی ہے یا وہ تنہا حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے، جبکہ چار متعینہ حالتیں ہیں، جن میں عورت کا حصہ بہ مقابلہ مرد کے آدھا ہوتا ہے۔ اگر اس پس منظر میں عورت کی میراث کے مسئلہ پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمجھنا کہ عورت کو مرد کے مقابلہ کم حصہ دیا جاتا ہے محض غلط فہمی ہے، اور جن صورتوں میں عورت کا حصہ کم ہے، ان میں فرق محض فرائض اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے رکھا گیا ہے بلکہ اس میں بھی عورتوں ہی کی رعایت ملحوظ ہے کیونکہ مرد پر سارے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ہے، عورت پر خود اپنی کفالت کی ذمہ داری بھی نہیں، اس لحاظ سے بظاہر عورت کا حصہ نصف سے بھی کم ہونا چاہئے؛ لیکن عورت کی فطری کمزوری کی رعایت کرتے ہوئے اسے نصف کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔