انبیاء ؑ کی دعوت ان تمام حالات کو ٹھیک ٹھیک بیان کرکے انسانوں کو انسانوں کے رب کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے، بھولے بھٹکے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کوراہِ مستقیم دکھاتی ہے۔
EPAPER
Updated: February 02, 2025, 4:25 PM IST | Syed Munawar Hasan | Mumbai
انبیاء ؑ کی دعوت ان تمام حالات کو ٹھیک ٹھیک بیان کرکے انسانوں کو انسانوں کے رب کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے، بھولے بھٹکے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کوراہِ مستقیم دکھاتی ہے۔
روزِ اوّل سے انسان پریشانیوں اور اَن گنت طوفانوں میں گھرا ہوا ہے۔ انسانیت کا یہ قافلہ وقت کے کسی خاص لمحے سے گزر کر وقت کے کسی خاص لمحے تک پہنچتا ہے۔ اہلِ دانش اس کو رنگوں سے بھر کر نت نئے عنوانات سے پیش کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے تو اس کی گواہی دی ہے کہ انسان بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ خود اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے، اپنے پیر پر کلہاڑی مارتا ہے، خود ہی محرومی کا شکار ہوتا ہے اور خود ہی اس محرومی کا رونا روتا ہے۔ پھر جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکی میں خود ہی ٹامک ٹوئیاں مارتا ہے اور منزل سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اپنے آپ سے بے خبر یہ ایک ایسی منزل کی طرف مسلسل گامزن رہتا ہے جو کبھی ہاتھ نہیں آتی، بلکہ بیک وقت کئی کئی منزلوں، کئی کئی کشتیوں کا سوار یہ مسافر متضاد سمتوں کے اندر رواں دواں نظر آتا ہے۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں دعوتِ انبیاء ؑکی گونج سنائی دیتی ہے۔ اپنے رب کی طرف بلانے، اس کی پہچان اور شناخت قائم کرنے اور چاروں طرف سے اپنے رُخ کو اپنے رب کی طرف موڑ لینے کے لئے یہ دعوت انبیاء ؑکی دعوت ہے، جو ہر دور کے اندر سنی گئی۔ اس پکار کو لوگوں نے قریب اور دُور سے سنا، بہ زبان حال اور بہ زبان قال سنا، بہ اندازِ سرگوشی سنا اور بہ آواز بلند بھی سنا۔ انبیاء ؑکی یہ دعوت ان تمام حالات کو ٹھیک ٹھیک بیان کرکے انسانوں کو انسانوں کے رب کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ بھولے بھٹکے اور خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو راہِ مستقیم دکھاتی ہے۔ پورا قرآنِ پاک اس بات کا گواہ ہے، جابجا اس کی نشانیاں بکھری ہوئی نظر آتی ہیں چنانچہ قرآن ہمیں اس جانب متوجہ کرتا اور تسلسل کے ساتھ یہ بتاتا ہے کہ تمام انبیاء ؑ اسی ایک دعوت کو پیش کرتے ہیں کہ طاغوت کو ٹھکرایا جائے۔ ہر چھوٹے بڑے جھوٹے خدا سے لاتعلقی کا اعلان کیا جائے۔ دل ودماغ کی دنیا کے اندر جو بت سجے ہوئے ہیں، جن بتوں سے اُمیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں، ان سے برأت کا اعلان کیا جائے۔ قرآن کریم نام لے لے کر بتاتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی دعوت بھی یہی تھی۔ حضرت ابراہیم ؑبھی یہی کہتے رہے۔ حضرت ہود ؑبھی یہی دعوت لوگوں میں پہنچاتے رہے، تاآنکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی دعوت اور اسی پیغام کو لے کر خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے انسانوں کو بیدار کرنے اور منزل کی طرف لے جانے کے لیے دُنیا میں تشریف لائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنے پانچ نام گنوائے ہیں۔ آپ ؐنے فرمایا کہ میرا نام محمدؐ ہے، یعنی وہ جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی، خود اللہ تعالیٰ نے تعریف کی، اس کے فرشتوں اور اس کے بندوں نے تعریف کی۔
میرا دوسرا نام احمدؐ ہے، یعنی وہ نبیؐ جو سب سے زیادہ اپنے رب کی تعریف کرنے والا ہے۔ کسی نے اپنے رب کی اتنی تعریف نہیں کی، اتنی حمدوثنا بیان نہیں کی، اس کی اتنی صفات اور خصوصیات کا تذکرہ نہیں کیا جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔
اسی طرح آپؐ نے فرمایا کہ میرا تیسرا نام اَلماحی ہے جس کا سیدھا سادا مفہوم اور ترجمہ آج کے بیان کے مطابق انقلابی ہوگا، یعنی مٹانے والا، شرک کو مٹانے والا، حرفِ غلط کی طرح ہر غلط چیز کو مٹانے والا، باطل کو مٹانے اور اس کی جگہ حق کو قائم کرنے والا، اللہ تبارک و تعالیٰ کی کبریائی کو بیان کرنے والا۔
آپؐ نے چوتھا نام الحاشِر بتایا، یعنی جمع کرنے والا کہ روزِ محشر سب سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدانِ حشر میں داخل ہوں گے۔ اپنی اُمت کو اور سارے لوگوں کو اکٹھا کریں گے اور آپؐ کے بعد دیگر انبیا ؑکرام وہاں تشریف لے جائیں گے۔
آپؐ نے اپنا پانچواں نام اَلعاقب فرمایا، یعنی وہ نبیؐ جو آخر میں آنے والا ہے، آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
فی الحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری جدوجہد، پوری زندگی اور حیاتِ طیبہ، کش مکش کا ہرہرلمحہ اور مرحلہ کہ جس سے آپ ؐ گزرے، لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ، (الاحزاب:۲۱) (فی الحقیقت تمہارے لئے رسولؐ اﷲکی ذاتِ مبارکہ میں نہایت ہی حسین نمونۂ حیات ہے) کی صورت میں ہمارے لئے مثال اور نمونہ قرار پایا۔ یہ ان سب لوگوں کے لئے دعوتِ عمل اور پیغام غوروفکر ہے جو لذت آشنائی کے مفہوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے لئے ناگزیر ہے کہ اس پوری جدوجہد اور کشمکش کو، آپؐ کے شب و روز اور زندگی کے تمام معمولات، اور ساری ترجیحات کو مسلسل دیکھیں، بار بار مطالعہ کریں، بہت قریب سے اس کو پڑھیں، آپس میں موضوعِ گفتگو بنائیں اور جتنی کہکشاں اس کے عنوانات میں سجی ہیں، سب کو سمیٹنے کے لئے اپنے دامن کو زیادہ سے زیادہ وسیع کریں، بصیرت اور بصارت اور عمل کی نگاہوں سے اس پورے دور کا مطالعہ کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی، مثال اور اتباع و پیروی کا دور ہے۔
ایمان اور انقلاب
آیئے ہم جس چیز کو ایمان کہتے ہیں، اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ راہِ حق میں ایمان اور انقلاب ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ ایک ہی حلاوت، مزہ اور شیرینی لئے ہوئے اور اپنے مفہوم و معانی کے اعتبار سے ایک ہی سمت پہ لوگوں کو لے جانے والے الفاظ ہیں۔ ہم جس چیز کو چھوٹا سا کلمہ (کلمۂ ؎یبہ) کہتے ہیں، یا کلمہ ٔ شہادت کہتے ہیں، اور اس موقع پر ہم اکثر سنی اَن سنی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور انقلاب سبھی کچھ اس میں پنہاں ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ عرض ہے۔
حضرت ابوذر غفاریؓ پانچویں صحابی ہیں کہ جو ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد ان سے یہ بات کہی گئی کہ ابھی اہلِ ایمان کی قوت بہت تھوڑی ہے، اہلِ ایمان کی کُل جمع پونجی بس یہی دوچار افراد ہیں، اس لئے ذرا احتیاط سے اور ذرا سنبھل کر چلنا ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کے دل کے اندر ایمان کی جو چنگاری پہنچی تھی، وہ شعلہ جوالہ بن کر لپکی، ضبط کا یارا نہ رہا۔ سیدھے حرمِ کعبہ میں پہنچتے ہیں جہاں کفار ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے، ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور بہ آوازِ بلند کلمہ ٔ شہادت پڑھا۔ کفارِ مکہ حیران رہ جاتے ہیں کہ ان کی یہ مجال اور یہ جرأت کہ ہماری ہی مجلس میں کھڑے ہوکر یہ نعرۂ دیوانہ و مستانہ بلند کرتے ہیں۔ پھر سب کے سب ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، انہیں زد و کوب کرتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں تاآنکہ حضرت ابوذر غفاریؓ بے ہوش ہوکر گر پڑتے ہیں۔ جب ہوش میں آتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں ؟ کس حال میں ہوں ؟ بتایا جاتا ہے کہ تم اس حال میں یوں پہنچے ہو کہ تم نے وہ نعرۂ مستانہ کفار کے بیچ جاکر بلند کیا تھا، تو زیر لب مسکرائے اور کہا کہ اچھا! اس جرم کی پاداش میں یہاں تک پہنچا ہوں۔ یہ جرم تو کل پھر سرزد ہوگا۔ تم کہتے ہو کہ مارا پیٹا گیا ہوں، حال سے بے حال ہوا ہوں، مجھ سے پوچھو، ایمان کی جو حلاوت اور اس کی شیرینی مجھے ملی ہے، کل پھر اپنے کیف و سُرور کو دوبالا کروں گا… یہ جذبۂ لذت آشنائی ہے۔
ہم نے بھی یہ کلمہ سیکڑوں ہزاروں دفعہ پڑھا ہوگا، مگر کب یہ عشق کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب یہ جنوں کا سودا ذہنوں کے اندر سماتا ہے، کب اس کے نتیجے میں نکلنے اور ہلکے اور بوجھل ہرحال میں نکلنے کے لئے انسان آمادہ ہوجاتا ہے… کیا اس پہلو پر بھی کبھی آپ نے غور کیا!اس نعرے کے اندر انقلاب اور ایمان دو مختلف چیزوں کے نام نہیں بلکہ ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ اس کلمے نے تاریخ کی عظیم ترین حقیقت کی حیثیت سے اپنے آپ کو ایک مکمل اور اعلیٰ ترین انقلاب کی حیثیت سے منوایا ہے، ایسا انقلاب کہ جو انسان کے تمام باطنی اور ظاہری رویوں کو بدل دیتا ہے۔