تحائف کا تبادلہ انسانی معاشرت کا ایک خوبصورت پہلو ہے جو دلوں کو جوڑنے اور محبتیں بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے، بالخصوص تہواروں کے مواقع پر یہ روایت اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: January 31, 2025, 4:32 PM IST | Mohammad Tauqeer Rahmani | Mumbai
تحائف کا تبادلہ انسانی معاشرت کا ایک خوبصورت پہلو ہے جو دلوں کو جوڑنے اور محبتیں بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے، بالخصوص تہواروں کے مواقع پر یہ روایت اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتی ہے۔
تحائف کا تبادلہ انسانی معاشرت کا ایک خوبصورت پہلو ہے جو دلوں کو جوڑنے اور محبتیں بڑھانے کا ذریعہ بنتا ہے، بالخصوص تہواروں کے مواقع پر یہ روایت اپنی انتہاؤں کو پہنچ جاتی ہے۔ مگر انسانی نفسیات اور بچپن کی خام فکریاں کبھی کبھار ایسے مظاہر دکھاتی ہیں جو زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔
یہ اس دور کی بات ہے جب عمر کے ابتدائی ایام میں جذبات کی روانی عقل کے اصولوں پر غالب تھی۔ ایک تہوار کے موقع پر، ہمارے پڑوسی نے محبت سے کھانے کی کوئی چیز تحفے میں دی۔ وہ چیز میری طبیعت سے میل نہ کھاتی تھی، اس لئے میں نے ناپسندیدگی کے جوش میں اسی وقت اسے زمین پر پٹخ دیا اور ناپسندیدگی کے الفاظ زبان سے نکلنے لگے۔ گویا اس لمحے میں اخلاقیات اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
اسی اثنا میں والد محترم کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کی شفقت اور محبت ہمیشہ دل میں سکون کا باعث رہی تھی، اس لئے مجھے یقین تھا کہ وہ میری حرکت کو نظر انداز کریں گے۔ مگر جو ہوا، وہ میری توقعات کے برعکس تھا۔ ان کے چہرے پر جلال کے آثار نمایاں ہوئے اور ایک زناٹے دار طمانچہ میرے رخسار پر پڑا، جس کی شدت نے مجھے زمین پر گرا دیا۔ ابھی میں حیرت اور تکلیف کے عالم میں تھا کہ ان کے غصے سے بھرے الفاظ میرے کانوں میں گونجے:’’اگر آئندہ تم نے کسی کے ساتھ ایسی بدتمیزی کی تو تمہیں گھر سے ہمیشہ کے لئے بے دخل کردوں گا!‘‘
اس وقت یہ الفاظ میرے لئے زخم کی مانند تھے۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہی لمحہ میری شخصیت کی تعمیر کا سنگِ بنیاد تھا۔ اس ایک طمانچے نے میری ذات کے تاریک گوشے روشن کر دیئے اور میرے کردار کو ایک نئی سمت دی۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے نہ صرف بدکلامی کو چھوڑا بلکہ آواز بلند کرنے کی جسارت بھی کبھی نہیں کی۔
والدین کی تربیت میں سختی کبھی کبھار وہ کام کر جاتی ہے جو نرمی کے ذریعے ممکن نہیں۔ محبت اور شفقت کے ساتھ بعض اوقات برہمی اور سختی بھی ضروری ہے۔ تربیت کا یہ انداز درحقیقت انسان کی شخصیت میں توازن پیدا کرتا ہے، جہاں محبت اور احترام کے ساتھ نظم و ضبط کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ یہی زندگی کا کمال ہے کہ جو لمحے اُس وقت اذیت ناک محسوس ہوتے ہیں، وہی ہماری تعمیر کا سب سے مضبوط ستون بن جاتے ہیں۔ والدین کی تربیت میں سختی کا ایک مناسب پہلو ضرور ہونا چاہئے۔ محبت اور شفقت کے ساتھ ساتھ بعض اوقات برہمی اور نظم و ضبط کے اصول بھی ضروری ہیں تاکہ بچوں کو ان کی غلطیوں کا احساس دلایا جا سکے اور ان کی شخصیت کو بہتر سمت دی جا سکے۔ سختی کا مقصد کبھی نقصان پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ اصلاح اور کردار سازی ہوتا ہے۔ والدین کی تربیت میں محبت اور سختی کا متوازن امتزاج ضروری ہے۔ محبت بچوں کی جذباتی نشوونما اور والدین سے قربت کا ذریعہ بنتی ہے، جبکہ سختی اخلاقیات اور معاشرتی اصولوں کی پابندی سکھاتی ہے۔ سختی اُس وقت فائدہ مند ہوتی ہے جب وہ محبت کے دائرے میں ہو اور بچے کو اس کی اہمیت سمجھائی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ والدین اپنی سختی کے بعد محبت کا اظہار کریں تاکہ بچے کو احساس ہو کہ ان کے والدین اس کی بھلائی چاہتے ہیں۔
یہ تربیت اس وقت بچے کو ناگوار لگ سکتی ہے لیکن وہی لمحے مستقبل میں اس کی زندگی کے اہم سبق بن جاتے ہیں۔ ان تجربات سے بچہ یہ سیکھتا ہے کہ دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا، اخلاق کے دائرے میں رہ کر بات کرنا اور زندگی کے اصولوں کی پاسداری کرنا کس قدر ضروری ہے۔ تربیت کا اصل ہدف بچے کی شخصیت میں توازن اور مضبوطی پیدا کرنا ہے، تاکہ وہ ایک اچھا انسان اور ذمہ دار فرد بن سکے۔ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ تربیت کے ہر پہلو میں حکمت، دور اندیشی اور اعتدال کو پیش نظر رکھیں۔ ان کا رویہ ایسا ہو جو نہ صرف بچوں کو اخلاق اور تہذیب کا درس دے بلکہ ان کے دلوں میں والدین کے لئے عزت اور اعتماد بھی پیدا کرے۔ تربیت میں توازن وہ بنیاد ہے جو بچوں کو ایک مہذب، ذمہ دار اور خوداعتماد انسان بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔