آسمانی تعلیمات انسان کو سکھاتی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے بلکہ روحانی بلندی کے لیے بھی کوشش کرے
EPAPER
Updated: January 25, 2025, 11:09 PM IST | Mohammed Tauqeer Rehmani | Mumbai
آسمانی تعلیمات انسان کو سکھاتی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے بلکہ روحانی بلندی کے لیے بھی کوشش کرے
اللہ رب العزت نے انسان کو اس دنیا میں تخلیق فرما کر نہ صرف اس کے وجود کا مقصد واضح کیا بلکہ اسے زندگی گزارنے کے وہ سنہرے اصول بھی عطا کیے جن پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کی تقسیم فرمائی اور ان کی تخلیق کے مقاصد کو قرآن کریم میں نہایت جامعیت اور حکمت کے ساتھ بیان فرمایا: ’’اور ہم نے رات کو (اس کی تاریکی کے باعث) پردہ پوش بنایا (ہے)، اور ہم نے دن کو (کسبِ) معاش (کا وقت) بنایا (ہے)۔ ‘‘ (النبا: ۱۰۔ ۱۱)
رات کو لباس سے تشبیہ دے کر اللہ نے انسان کو سکون اور آرام کا پیغام دیا، کہ رات کی تاریکی میں وہ اپنے مشقت بھرے دن کی تھکن کو مٹا سکے، اپنی روح و جسم کو تازگی بخشے اور نئے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرے۔ اسی طرح دن کو معاش کیلئے مخصوص کر کے یہ واضح کر دیا کہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے رزقِ حلال کی جستجو کرنا اور محنت و مشقت سے کام لینا انسانی فطرت اور شرعی ذمہ داری کا حصہ ہے۔
یہ نظام انسانی زندگی میں حکمت اور ترتیب کا عکاس ہے۔ رات کی تاریکی انسانی زندگی کے اندر تدبر، تفکر اور عبادت کے لمحات فراہم کرتی ہے، جبکہ دن کی روشنی حرکت، ترقی اور کامیابی کے دروازے کھولتی ہے۔ یہ آسمانی تعلیمات انسان کو سکھاتی ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے بلکہ روحانی بلندی کیلئے بھی کوشش کرے، تاکہ اس کا وجود متوازن اور مہذب ہو۔
زندگی ایک نعمت ہے، اور وقت اس نعمت کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے۔ ایک انسان اپنے وقت کا بہترین استعمال کر کے اپنی زندگی کو نہ صرف کامیابی کی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے بلکہ ایسی تاریخ رقم کر سکتا ہے جو آنے والوں کیلئے مشعلِ راہ بنے۔ نظام الاوقات انسانی زندگی کو نظم و ضبط کا زیور پہنانے والا وہ راز ہے جو کامیاب افراد اور عام انسانوں میں فرق پیدا کرتا ہے۔ ایک مہذب انسان کی پہچان اس کے وقت کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جو لوگ اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں ، وہ نہ صرف عظیم کام سرانجام دیتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کو مقصدیت اور ترتیب کی بلندیوں پر پہنچاتے ہیں۔ شیر شاہ سوری کی زندگی اس کی شاندار مثال ہے۔ ان کی مصروفیت کا عالم یہ تھا کہ حکومتی اور فوجی امور میں مشغول ہونے کے باوجود وہ نوافل، اذکار، وظائف اور تلاوتِ قرآن کیلئے وقت نکال لیتے تھے۔ ان کے نظام ِاوقات کی مضبوطی نے ان کی زندگی کو ایک ایسا آئینہ بنا دیا جس میں کامیابی کی ہر جھلک نظر آتی ہے۔ آج کے دور میں ، جہاں عام انسان دن کے کاموں کی تکمیل کو بھی ایک چیلنج سمجھتا ہے، ان کی زندگی ایک یاد دہانی ہے کہ وقت کو قابو میں لانے والا شخص ہی زندگی کا حقیقی فاتح ہے۔
افسوس کہ آج کا انسان، مشغولیت اور وقت کی قلت کا بہانہ بناتے ہوئے فرائض میں کوتاہی کرتا ہے اور فرائض و نوافل تو درکنار، مہینوں مسجد کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ پاتا۔ یہ طرزِ عمل دراصل وقت کے ضیاع اور زندگی کے مقصد سے غفلت کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں قسم کھا کر فرمایا: ’’قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے۔ ‘‘ (العصر) یہ آیت اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ وقت کی بربادی انسان کو نقصان کی گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔
وقت ایک ایسی تلوار ہے، جو اگر قابو میں ہو تو کامیابی کے دروازے کھول دیتی ہے، اور اگر اسے نظرانداز کیا جائے تو ناکامی کی تاریکیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ نظام الاوقات کا اصول ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی کے ہر لمحے کو ترتیب اور حکمت کے ساتھ برتنا چاہئے۔ ایک کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے دن کے معمولات کو اس طرح ترتیب دے کہ اس میں فرائض کی تکمیل بھی ہو، عبادت کے لمحات بھی ہوں اور جسمانی و ذہنی سکون کے مواقع بھی۔
انسانی زندگی میں وقت ایک ایسی متاعِ گراں مایہ ہے، جو کسی کے لئے تھمتی نہیں۔ یہ بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے، جو ہمیشہ رواں دواں رہتا ہے، اور اگر اس سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو یہ بربادی کے گڑھے میں دھکیل دیتا ہے۔ آج کی دنیا کا المیہ یہ ہے کہ انسان کے پاس گھنٹوں کا وقت تو ہوتا ہے کہ چائے خانوں میں بیٹھ کر لاحاصل اور غیر فائدہ مند گفتگو کرے، گپ شپ میں وقت برباد کرے، لیکن جب بات فرائض کی انجام دہی کی ہو یا عبادات کی، تو وقت کا بہانہ بنا کر خود کو بری الذمہ کر لیتا ہے۔ یہ رویہ وقت کی بے قدری اور زندگی کے حقیقی مقصد سےچشم پوشی کی عکاسی کرتا ہے۔
کامیابی ان ہی کا مقدر بنتی ہے جو وقت کو کارِ خیر میں صرف کرتے ہیں۔ جو اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات کو ذکرِ الٰہی اور مفید مشاغل سے معمور کرتے ہیں ، وہی لوگ دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی سرخرو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے رطب اللسان رہنے والے وہ خوش نصیب ہیں جن کی ہر سانس ایک نیکی میں شمار ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت کبھی کسی کیلئے نہیں رکتا؛ یہ گزر جائے تو واپس نہیں آتا، اور جو وقت ضائع ہو جائے، وہ کفِ افسوس کے سوا کچھ نہیں چھوڑتا۔ اس لئے آج ہی سے روزمرہ کے معمولات کے حساب سے وقت کو ترتیب دیں اور زندگی کو مہذب و منظم بنانے کا عہد کریں اور پھر اس عہد پر کاربند رہیں۔
زندگی کی حقیقت یہی ہے کہ یہ ایک محدود مدت ہے، جو لمحہ بہ لمحہ کم ہو رہی ہے۔ انسان ہر گزرتے لمحے کو غنیمت سمجھے، اپنے وقت کو حکمت، نظم اور مقصد کے ساتھ عبادت، ذکر اور علم کے حصول میں صرف کرے جو اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی کے ضامن ہیں۔ ورنہ وقت تو گزر جائے گا، لیکن انسان ہاتھ ملتا رہ جائے گا، اور یہی اس کی دنیا و آخرت کا بہت بڑا نقصان ہے۔