• Fri, 07 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایسا نہ ہو کہ ہم اجتماعیت بھول کر اختلافات میں ہی کھو جائیں!

Updated: February 07, 2025, 4:43 PM IST | Hina Faraheen Momin | Mumbai

اختلافات کسی بھی زندہ اور نمو پذیر معاشرے کا جز ولا ینفک ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ ہم اجتماعیت بھول کر اختلافات میں ہی کھو جائیں!

The current situation and the requirement of the time is that scholars and peace scholars of all disciplines should come on one platform and take concrete steps to remedy the calamities. Photo: INN
موجودہ حالات اور وقت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام مسالک کے علماء و صلحاء ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور فتنوں کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کریں۔ تصویر: آئی این این

رب العالمین نے تمام عالم انسانیت کے لئے اس عالم آب و گل میں زندگی بسر کرنے کے لئے جو لائحہ عمل بھیجا وہ دین اسلام ہے۔ اسلام وہ دین حنیف ہے جسے دیگر تمام ادیان میں جامع، کامل واکمل ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسلام کو دین فطرت کے طور پر اپنی زندگی کا حصہ بنا لینے والے مسلمان کہلاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج نسلی اور اعتقادی اختلافات میں تنگ نظری اور تعصب نے مسلمانوں کو تباہ کر رکھا ہے۔ زیرنظر مضمون میں ان اسباب کا مختصراً جائزہ لیا گیا ہے کہ امت مسلمہ میں فرقہ واریت آخر کیوں در آئی ہے؟
قرآن سے دوری : انسان کے تمام عقائد و نظریات کا مکمل اور جامع دستور العمل قرآن کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے، جس کی یہ ہدایت ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو‘‘ (آل عمران:۱۰۳) افتراق سے بچنے کا تیر بہدف نسخہ ہے۔ اور اسی نے ترک قرآن کے انجام سے ’’ تفرقہ مت ڈالو‘‘ (آل عمران:۱۰۳) کہہ کر خبردار بھی کیا ہے۔ افسوس ہم نے قرآن کو طاقوں کی زینت بنا دیا اور پیغام ربانی سے چشم پوشی کی، نتیجتاً فرقوں میں بٹ کر رہ گئے۔ 
غلو: حد سے زیادہ بڑھی ہوئی عقیدت چاہے وہ کسی شخصیت کے لئے ہویا کسی زبان یا نسل کیلئے، معاشرے کے لئے کسی صورت مفید نہیں۔ اپنے فہم دین کو ’’الفرقان‘‘ اور ’’المیزان‘‘ کی حیثیت دے کر ہر دوسرے فہم کو گمراہ، ضلالت اور باطل قرار دینا یہ وہ غلو ہے کہ اسلام اس کی تعلیم دینا تو درکنار رسمی طور پر بھی ساتھ کھڑا رہنے سے انکاری ہے۔ اس کے باوجود ہماری قائدانہ صفوں میں یہ غلو صاف طور پر نظر آتا ہے۔ 
دعوتی طریقہ کار سے انحراف :تمام پیغمبروں کا دعوتی مشن توحید الی الله، مشرکا نہ عقائد کی بیخ کنی اور اخلاقی قدروں کی اشاعت و ترویج رہا ہے جس کے لئے سچی تڑپ، اخلاص، للہیت نیز اخلاق حسنہ کی بلندیوں پر فائز ہونا ان کا اسؤہ رہا۔ آج کے دعوتی مشن پر نظر ڈالیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ مختلف الخیال بین المسالک مناظرے و مکالمے بھی اس حد تک شدت اختیار کر چکے ہیں کہ ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے تک عائد کر دیئے جاتے ہیں ۔ یہ مظاہرے پیغمبرانہ دعوتی طریق کار سے سراسر دور نظر آتے ہیں۔ 
بےلگام خطابت :ہمارے یہاں خطیبوں کا غیر محتاط رویہ اختلافات کو بڑھانے اور ذہنوں میں نفرتوں کی خلیج کو مزید وسیع کرنے کا سبب بنتا ہے۔ منبروں سے مشترکات بیان کرنے کے بجائے جب نزاعات کو ہوا دی جائے تو عام مسلمانوں میں انتشار ہی برپا ہوگا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر علامہ اقبال نے کہا تھا:
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی 
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر ہم ان اثرات کا بھی جائزہ لیں جو اس باہمی افتراق سے بچنے کے نتیجے میں معاشرے پر مرتب ہوئے ہیں۔ 
اسلامی و اخلاقی احکامات کی حکم عدولی: دور حاضر میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی امت واحدہ کے احساس سے یکسر خالی نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کو تو عمل و اخلاق کا حسین پیکر ہونا تھا مگر افسوس اسلامی احکام و فرائض سے غفلت کا حال یہ ہے کہ
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے 
یعنی وہ صاحبِ اوصاف ِحجازی نہ رہے
اور ان کے اخلاقی زوال کا عالم یہ ہے کہ غیر مسلموں سے معاملات کرنا آسان اور مسلمان سے مشکل تر ہو چلا ہے۔ سچائی، دیانتداری، حلم، عفو شفقت و نرم گفتاری جو قوم مسلم کی پہچان ہوا کرتی تھی آج عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ تفرقہ و اختلافات کے اس ہولناک طوفان نے وابستگان مذہب کو اخلاقی کسمپرسی کے لق و دق بیابان جس بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ 
سیاسی بے وزنی : مختلف مسلکوں میں منقسم ان مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کا حال یہ ہے کہ ۵۷؍ مسلم ممالک میں آج ایک بھی فیصلہ کن مقام پر نظر نہیں آتا جو اپنی سیاسی قوت سے اقوام عالم پر اثر انداز ہوسکے۔ 
غیر مسلم اقوام کی بدظنی : اختلافی مسائل میں اپنی برتری اور حقانیت ثابت کرنے کے جنون میں مسلمان اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ غیر مسلم اقوام کو متاثر کرنے کے بجائے انہیں اپنے سے دور کررہے ہیں۔ جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی اور یورپی ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں کی کثیر تعداد وہ ہے جو موجودہ مسلمانوں کے اجتماعی رویے کے بجائے براہ راست قرآن واحادیث صحیحہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ اس امر کا مظہر ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کی بہتر شبیہ پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ 
ناحق قتل و قتال کا سلسلہ : مسجدیں جو اللہ کا گھر ہیں انھیں بھی مختلف مسلکوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ یہ ظلم کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے ؟ اس نسلی و مسلکی عصبیت نے جو گل کھلائے ہیں اس نے کئی خاندانوں کے چراغ گل کر دیئے ہیں سنیت . شیعیت، دیوبندیت، بریلویت، اہلحدیث اور نہ جانے کتنے مسلکوں میں تقسیم یہ قوم اپنی اجتماعیت کو کھو کہ صرف فروعی معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ 
خلاصۂ کلام : اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اختلافات کسی بھی زندہ اور نمو پذیر معاشرے کا جز ولا ینفک ہیں لیکن اختلافات کو وجۂ کفر گردان کر ہر دوسرے فرقے کو جہنمی سمجھنے کا رجحان انتہائی خطرناک اورامن وسلامتی پر منڈلاتا ایسا سنگین خطرہ ہے جس کے لئے مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو ہم آپسی انتشار میں اس قدر آگے نکل جائیں گے کہ واپسی کے تمام راستے مسدود ہو چکے ہوں گے ۔ عالمی منظرنامے پر نگاہ ڈالئے، دشمنان اسلام ہمارے حالات پر خندہ زن ہیں اور یہ خدشات ہمیں حقیقت بنتے نظر آرہے ہیں۔ 
لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ آپسی عصبیت و اختلافات کو ختم کر کے تمام مسالک کے علماء و صلحاء ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور ملی و اسلامی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فتنوں کے تدارک کے لئے مخلصانہ کاوشیں کی جائیں ، اوریقین جانئے ٹھوس لائحہ عمل تیار کر کے قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے اور رسول اللہ ﷺکے اخلاق کریمانہ کو اپنانے کے علاوہ کوئی راہ نجات نہیں کہ ایک ہو کر ہی ہم خورشید مبین بن سکتے ہیں۔ 
 (مضمون نگار رئیس ہائی سکول اینڈ جونیئر کالج، بھیونڈی سے وابستہ ہیں )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK