عزت و تکریم کے مظاہر میں حسن اخلاق، عدل و انصاف، شرم و حیا، عفت و عصمت اور لباس و حجاب سب شامل ہیں۔
EPAPER
Updated: February 20, 2025, 5:49 PM IST | Sana Banu bint Waqar Ahmad | Mumbai
عزت و تکریم کے مظاہر میں حسن اخلاق، عدل و انصاف، شرم و حیا، عفت و عصمت اور لباس و حجاب سب شامل ہیں۔
ایک حدیث نبویؐ کا مفہوم ہے:’’جو چیز سب سے زیادہ جنت میں داخل کرے گی وہ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور اچھا اخلاق ہے۔ کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق بہتر ہوں۔ ‘‘
دولت اور عہدے انسان کو عارضی طور پر بڑا کرتے ہیں لیکن انسانیت اور اچھا اخلاق انسان کو ہمیشہ بلند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت و تکریم سے نوازا۔ عزت و تکریم کے مظاہر میں حسن اخلاق، عدل و انصاف، شرم و حیا، عفت و عصمت اور لباس و حجاب سب شامل ہیں۔ انسان کی طرح انسانی معاشرے کو بھی عزت و تکریم عطا کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔ ‘‘(الاسراء : ۷۰)
حیا انسانی معاشرے کی محافظ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں شرم و حیا کی عمل داری ہو وہ انسانوں کے لئے پُرامن اور عافیت بخش ہوگا۔ اِس میں انسانوں کی عزت اور جان و مال سب محفوظ ہوگا۔ قرآن مجید کے بیانات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہر طرح کے فحش کاموں کو حرام قرار دیا ہے اور بے حیائی کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا ہے:
’’اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی۔ ‘‘ (الانعام : ۱۵۱ )
اللہ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو فحش کاموں سے دور رہتے ہیں جو بڑے چھوٹے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نماز فرض کی ہے، نماز بھی فحش باتوں سے روکتی ہے۔
انسانی معاشرے کی مضبوطی اور پائیداری کے لئے اخلاقی قدریں نہایت ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کو اس قوم میں بھیجا جو بے حیائی اور بدکاری کی ساری حدیں پار کرچکی تھی۔ حضرت لوطؑ نے برسہابرس ان کی اصلاح کی کوشش کی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر حضرت لوطؑ کے اس خاص دعوتی اور اصلاحی مشن کا ذکر کیا ہے۔
دین اسلام کا تصورِ اخلاق بہت واضح ہے۔ اخلاق کی تکمیل کو اللہ کے رسولؐ نے اپنی بعثت کا مقصد قرار دیا اور حیا کو ایمان کی شاخ بتایا۔
اسلام میں لباس اور پردے کے سلسلے میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔ لباس اور پردہ انسان کے ساتھ خاص ہے۔ تمام جانداروں میں صرف انسان ہے جو لباس کا استعمال کرتا ہے، انسان کا بے لباس ہوجانا بے حیائی ہے:
’’اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں ) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔ ‘‘ (الاعراف:۲۶)
عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے ایک زبردست قابل تقلید نمونہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے۔ نوجوانی کی جس عمر میں نوجوان خودبخود نفس کی خواہشات کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور گناہ کے مواقع تلاش کرتے پھرتے ہیں، حضرت یوسفؑ گناہ کے گھیرے کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے۔ یوسفؑ کی عفت پسندی ہر دور کے جوانوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ عفت پسند مردوں کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام بہترین نمونہ ہیں تو عفت پسند خواتین کے لئے حضرت مریمؑ بہترین نمونہ ہیں۔ قرآن میں بار بار یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ وہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بدولت انہیں بہت اونچا رتبہ عطا کیا اور ان کی صفت کو قرآن مجید میں بار بار ذکر کے قیامت تک کے لئے بہترین نمونہ بنا دیا۔ اللہ نے حضرت مریمؑ کی جو عزت افزائی کی ہے اسے دیکھتے ہوئے ہر مومن لڑکی کے دل میں یہ عزم پیدا ہونا چاہئے کہ وہ بھی زندگی بھر اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرے گی۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک حیا و عفت ایمان کی ایک شاخ ہے۔ حیا کا انجام بھلائی ہی ہے اِس کے سوا کچھ نہیں۔ غیراخلاقی کام کرنے سے بھی بدتر اس کی تشہیر کا عمل ہے۔ اسلام نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی فرد کی حقیقی آزادی گناہ کی غلامی سے آزادی ہے۔ ہمیں اپنے اندر اپنے خالق کی مقرر کردہ اخلاقی اقدار کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہئے۔
پہلی نظر میں ’’بااخلاق‘‘ ہونا ہی آزادی ہے۔ حقیقی آزادی کے حصول کے لئے اخلاقی زندگی گزارنا ضروری ہے۔ اخلاق آزادی کی بنیاد ہے کیونکہ یہ افراد کو ایسے انتخاب کرنے کی اجازت دیتا ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر خوشی اور امن کا بادشاہ بنے۔ قرآن و سنت کی طرف سے دی گئی اخلاقی ہدایات اور اصول یہ ہیں کہ ہر ایک کو نتیجہ خیز زندگی گزارنے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام جس چیز کی ترویج کرتاہے وہ ایک ایسا نظام ہے جو افراد اور معاشرے کے مفادات کو ہم آہنگ کرتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ صرف اللہ کی ہدایت کے ذریعے ہی ان متضاد و متعارض مفادات کو مربوط و ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کے احکامات مجموعی طور پر اس کی مخلوق کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں نہ کہ کسی ایک کے ذاتی مفاد کے حق میں۔ قرآن مجید میں چھ قوموں کے عذاب کا تفصیل سے باربار ذکر آیا ہے، ان قوموں میں بالترتیب حضرات نوحؑ، ہودؑ، صالحؑ، لوطؑ، شعیبؑ اور موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے۔ یہ تمام قومیں عقیدے کے بگاڑ کے ساتھ سنگین قسم کے اخلاقی فساد میں ملوث تھیں۔ اللہ نے اِن کے پاس رسول بھیجے جو ان کے عقیدے اور اخلاق کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔
دورِ حاضر میں بے حیائی کے علم برداروں کی اپروچ یہ ہے کہ وہ برائی کا اشتہار کرتے ہیں۔ بدکاری اور زیادتی کے درمیان فرق بتاکر بدکاری کو فروغ دینا اور زیادتی پر واویلا مچانا، دنیا کو دھوکہ دینا ہے۔ بے حیائی و بدکاری اور ظلم و زیادتی کے بیچ گہرا رشتہ ہے۔ جس سماج میں بدکاری عام ہوتی ہے وہاں زیادتی کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ جس سماج میں شرم و حیا کا راج ہوتا ہے اور نکاح کے مضبوط ادارے اور دائرہ موجود ہوتا وہاں زیادتی کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔
اسلامی اخلاقی ہدایات آزمانے اور غلطی کو جانچنے کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ خالق کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں جو انسان کی فطرت اور تقاضوں کو کسی اور سے بہتر جانتا ہے۔ اگرچہ انسان کی تخلیق کردہ اخلاقی اقدار وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسلامی تعلیمات مستقل ہیں اور اخلاق میں آزادی کے تصور سے ہم آہنگ ہیں۔ ان کے عملی طور پر نافذکردہ نمونے سنت یعنی اسوۂ نبویؐ میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
انسانی معاشرے کی مضبوطی کے لئے اخلاقی قدریں نہایت ضروری ہے۔ اخلاق تعمیر کے راستے کھولتا ہے اور بداخلاقی تخریب کی طرف لے جاتی ہے۔ اخلاق کے راستے انسان سرخرو اور سربلند ہوتا ہے۔ مومن کی زندگی میں حیا ایک لازمی جزو ہے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کی کچھ خاص صفات و عادات ہوتی ہیں جو ان کی پہچان ہوتی ہے۔ اسلام کی خاص صفت و عادت جو مسلمانوں کی امتیازی شان ہونی چاہئے، وہ شرم و حیا کی عادت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’حیا سے فقط بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔ ‘‘ اور فرمایا: ’’حیا تمام کی تمام خیر ہے۔ ‘‘
حیا ایمان کا حصہ بنتی ہے کہ حیا نیک اعمال پر ابھارنے اور نافرمانیوں سے رکنے کا کام دیتی ہے۔ انسان میں حیا تین اقسام پر مشتمل ہوتی ہے۔ اللہ سے حیا، لوگوں سے حیا، اپنے آپ سے حیا۔ ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ‘‘ حیا جس چیزمیں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔ افعال، اخلاق، اقوال، خیالات، تصورات، گفتگو ہو یا عبادت ہر شعبے میں حیا ضروری ہے۔ احادیث کی کتابوں میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ ایمان کی ساٹھ سے زائد شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ حیا اور ایمان ہمیشہ اکٹھے رہتے ہیں جب ان میں کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خودبخود اُٹھ جاتا ہے۔ بے حیائی جس چیزمیں بھی ہوتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے اورحیا جس شئے میں بھی ہوتی ہے اسے زینت دیتی ہے۔