Inquilab Logo Happiest Places to Work

دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں

Updated: April 25, 2025, 3:50 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

طائف کی وادی میں پتھر کھانے یا اُحد کے میدان میں زخمی ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے کسی کے لئے بددعا نہیں فرمائی بلکہ ہمیشہ بہتری اور ہدایت کی دعا فرماتے رہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

انسانی وجود کے اعلیٰ ترین مقاصد میں سے ایک اہم اخلاقی فریضہ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو انسان ایک سماجی مخلوق ہے، جس کا وجود اور بقا دوسروں کے ساتھ تعلقات، ہمدردی، اور باہمی تعاون پر منحصر ہے۔ جب کوئی شخص دوسروں کی زندگی میں آسانی پیدا کرتا ہے تو وہ دراصل انسانیت کے اس باطنی رشتے کو مضبوط کرتا ہے جو افراد کو ایک معاشرتی وحدت میں پروتا ہے۔ اس عمل میں خود غرضی کی نفی، ایثار کا فروغ، اور باہمی احترام کا جذبہ شامل ہوتا ہے، جو انسانی روح کو بلند تر سطح پر لے جاتا ہے۔ 
 اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس وجہ سے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کو اسلامی تعلیمات میں بہت بلند مقام عطا کیا گیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری فرماتا ہے، اور جو کسی مسلمان کی کوئی پریشانی دور کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی کوئی پریشانی دور فرمائے گا، اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ ‘‘ (مسلم) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دوسروں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنا خدا کے عنایتوں کو متوجہ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ در حقیقت انسان جب دوسروں کی مشکلات کم کرتا ہے تو وہ اپنے وجود کی تکمیل کی طرف بڑھتا ہے، کیونکہ حقیقی انسانی ترقی محض مادی کامیابی میں نہیں بلکہ روحانی ارتقاء میں مضمر ہے۔ اس جذبے کو اپنانا دراصل زندگی کو مقصدیت اور انسانیت کو وسعت عطا کرتا ہے۔ 
 اس تمہید کے پس منظر میں ہمیں اپنے ضمیر کے آئینے میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہم دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں یا انجانے میں ان کی راہوں میں مشکلات کی چٹانیں ڈال رہے ہیں ؟ یاد رکھیں ! یہ سوال دوسروں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ ہماری اپنی ذات، کردار اور انسانیت کی گہرائی ناپنے کا پیمانہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم بظاہر نیک بنے رہتے ہیں، مگر بسا اوقات ہمارے رویے، لہجے، فیصلے اور معمولی اقدامات کسی کے لئے آزمائش بن جاتے ہیں۔ اس لئےہمیں اس تناظر میں اپنے اعمال کا ضرور محاسبہ کرنا چاہئے!
 یہاں ایک نہایت اہم سوال یہ ہے کہ آخر دوسروں کے لئے آسانیاں کب پیدا ہوں گی؟ اس کا سب سے بنیادی اور سادہ جواب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کام میں مخلص ہو جائے۔ مثال کے طور پر اگر ایک استاد پوری دیانت داری سے طلبہ کو پڑھائے، ایک ڈاکٹر خلوصِ نیت سے مریض کا علاج کرے، ایک تاجر ایمانداری سے لین دین کرے اور ایک سرکاری ملازم فرض شناسی سے اپنی ذمہ داریاں نبھائے تو خود بخود معاشرے میں سہولت، انصاف اور بھروسے کا ماحول پیدا ہو جائے گا۔ یہی خلوص، اگر ہر شعبے میں عام ہو جائے، تو معاشرہ خودبخود راحت کا گہوارہ بن جائے گا۔ ایک مسلمان کے لئے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے باب میں سب سے روشن اور کامل اسوہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے، جن کی پوری زندگی سراپا رحمت اور سراپا سہولت تھی۔ آپ ﷺ نہ صرف اپنے قریبی ساتھیوں کے لئے، بلکہ دشمنوں، غلاموں، عورتوں، بچوں، اور جانوروں تک کے لئے بھی آسانی، نرمی، اور ہمدردی کا نمونہ تھے۔ طائف کی وادی میں پتھر کھانے یا اُحد کے میدان میں زخمی ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے کسی کے لئے بددعا نہیں فرمائی بلکہ ہمیشہ بہتری اور ہدایت کی دعا فرماتے رہے۔ آپ ﷺ کا ہر عمل، ہر فیصلہ، ہر سلوک اس بات کا عملی نمونہ تھا کہ ایک مومن کیسے دوسروں کی زندگی آسان بناتا ہے۔ یہی وہ مثالی کردار ہے جو امت کے ہر فرد کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ 
 آئیے! ہم سب دل کی گہرائیوں سے یہ عہد کریں کہ اپنے ہر کام کو خلوصِ نیت کے ساتھ انجام دیں گے اور جہاں تک ممکن ہو دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کریں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو ہمارے انفرادی کردار کو اجتماعی بہتری میں ڈھالتا ہے۔ جب دل نیت میں صاف ہو، ہاتھ خدمت کیلئے اٹھیں، اور زبان ہمدردی کے بول بولے، تو دلوں میں محبت، گھروں میں سکون، اور معاشرے میں عدل کا نور پھیلتا ہے۔ اگر ہم نے اس عہد کو سچائی سے تھام لیا تو نہ صرف ہماری ذات بہتر ہو گی، بلکہ ہم ایک ایسا سماج تشکیل دے سکیں گے جو حقیقی معنوں میں اسلامی تعلیمات کا عکس ہو گا، رحمت، سہولت اور خلوص سے لبریز۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK