تین عشروں پر مشتمل ماہِ رمضان المبارک بہت جلد ہم سے رخصت ہونےو الا ہے کہ دو عشرے گزر چکے ہیں۔ زیرنظر سطور میں تیسرے اور آخری عشرے کے چند اہم اعمال کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ عبادت کر کے اپنی مغفرت کا سامان کرلیں اور گزر جانے والے دو عشروں میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں ان کی بھرپائی کرسکیں۔
ماہ رمضان کے پہلے عشرے میں تراویح کا جو عالم ہوتا ہے وہ آخری عشرے میں نظر نہیں آتا۔ تصویر: آئی این این
اللہ رب العزت نے ہمیں رمضان المبارک کے تین عشرے عطا فرمائے، آج دو عشرے مکمل ہوگئے۔ اللہ کی توفیق سے جتنی عبادت ممکن ہوسکی، کرنے کااہتمام کیا گیا، رحمتوں کے حصول کے ساتھ مغفرت کی امید بھی جگی، اب تیسرا اورآخری عشرہ شروع ہورہا ہے۔ گو رمضان کا پورا مہینہ رحمتوں اور برکتوں والا ہے، اس کے باوجود پہلے عشرہ کے مقابلہ میں آخری عشرہ کی اہمیت وفضیلت بڑھی ہوئی ہے، اس لئے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہمیں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاگیاہے اورایک شب قدر کی عبادت کاثواب ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے، ذرا سوچئے ! اللہ کی نوازش اور عطا ، کہ اگر ہم نے رمضان کی پانچ راتوں میں اللہ کو راضی کرنے کے لئے محنت کرلیا تو سابقہ امتوں کی بڑی عمر اوران کی عباد ت سے ہم کس قدر آگے بڑھ جائیں گے۔ یہ رات ہمیں یقینی مل جائے اس کے لئے ہمیں اللہ کے دربار میں پڑ جانا چاہئے۔ اس در پر پڑجانے کا شرعی نام اعتکاف ہے۔ جب بندے بوریا، بستر لے کر اکیس کی رات سے مسجد میں (اور عورتیں گھر کے کسی کونے میں ) جگہ مختص کرکے بیٹھ جاتے ہیں اورشب وروز علائق دنیا اور کاروبار زندگی سے الگ ہٹ کر صرف ذکر اللہ، تلاوت قرآن، نماز، تراویح اور تہجد میں وقت گزارتے ہیں تو اللہ کی خصوصی رحمت ایسے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ انہیں شب قدر بھی یقینی طور پر مل جاتی ہے، جو جہنم سے گلو خلاصی کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لئے ہر گاؤں، محلہ کی مسجدوں میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، وقت ہو اور سہولت میسر ہو تو ان اوقات کا کسی اہل اللہ کی معیت میں گزارنا زیادہ کارآمد اور مفید ہوتاہے، تزکیہ ٔنفس اور اصلاح حال کے لئے اہل اللہ کی صحبت کیمیا کا درجہ رکھتی ہے، اس لئے اہل اللہ کے یہاں آخری عشرہ کے اعتکاف میں مریدین، متوسلین اور معتقدین کابڑا مجمع ہوتا ہے اور وہ ان کی تربیت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
جولوگ وقت اور سہولت ہونے کے باوجود اعتکاف میں نہیں بیٹھتے، ان کے یہاں اس سلسلہ میں کافی کوتاہی پائی جاتی ہے، اس رات کی عبادت کی طرف توجہ نہیں اور اگر ہوتی بھی ہے تو بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جورتجگا میں اسے گزار دیتے ہیں۔ مسجد میں بیٹھ کر دنیا جہاں کی گپ بازیوں میں لگے ہوتے ہیں۔ ایک تو رمضان کی رات، دوسرے شب قدر اور تیسرے اللہ کا گھر، ظاہر ہے یہ رت جگے اللہ اور رسولؐ کے حکم وہدایت کے مطابق نہیں ہیں، اس لئے مسجد میں گپ بازی سے ثواب کے بجائے الٹے وبال کا امکان ہے، اس طرح کی حرکتوں سے گریز کرنا چاہئے، جس قدر شرح صدر کے ساتھ عبادت ہوسکے، کریں، لوگوں کو دکھانے کے لئے رات بھر جاگنا اور فضولیات میں مبتلا رہنے کاکوئی فائدہ نہیں ہے، اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے۔
بعض حضرات ۲۱، ۲۳، ۲۵؍ اور ۲۹؍ تاریخ میں شب قدر کی تلاش کااہتمام نہیں کرتے، وہ صرف ۲۷؍کی رات کوہی شب قدر مانتے ہیں اوراس رات میں زیادہ اہتمام کرتے ہیں، یہ طریقہ اس لئے صحیح نہیں ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کاحکم دیاہے، نہ کہ صرف ۲۷؍کو۔
بعض لوگ اعتکاف میں بیٹھ کر بھی اللہ کی عبادت سے زیادہ دنیا کی فکر میں لگے رہتے ہیں، دوسرے معتکفین کے ساتھ غیر ضروری گفتگو میں زیادہ وقت گزار دیتے ہیں، یہ طرز عمل بھی غیر مناسب ہے، اس سے احتیاط برتنا چاہئے۔
تراویح کی نماز اس عشرے میں بھی پہلے دوعشرے کی طرح ہوتی ہے؛لیکن ہمارے یہاں ہندوستان میں تین روز، دس روز، پندرہ روز میں عموماً تراویح میں قرآن کریم سن لیا جاتاہے اورحفاظ سنا لیا کرتے ہیں اور یہ کہاجاتاہے کہ ہماری تراویح ختم ہوگئی، یہ ایک غلط تعبیر ہے جو ہمارے یہاں رائج ہے۔ تراویح کی نماز چاند دیکھ کر شروع کرنا اور چاند دیکھ کر بند کرنا ہے، تراویح میں پورا قرآن سن لینا ایک کام ہے اور پورے مہینے میں تراویح کی نماز پڑھنا دوسرا کام۔ اس کی وجہ سے جولوگ تراویح میں ایک قرآن سن لیتے ہیں چاہے وہ جتنے دن میں ہو تراویح پڑھنے میں سستی کرنے لگتے ہیں اور سورہ تراویح پڑھنے کو زائد عمل سمجھتے ہیں، یہ سوچ غیر شرعی ہے، تراویح کی نماز کا اہتمام پورے مہینہ کرنا چاہئے اوراس میں کسی قسم کی کوتاہی کوراہ نہیں دینی چاہئے!موقع نہ ہو تو تنہا ہی پڑھ لے؛ لیکن پڑھے۔
کچھ لوگ کسی خفگی، امام سے رنجش، مقتدیوں سے چپقلش کی وجہ سے مسجد حاضر نہیں ہوتے اور اپنے گھر پر ہی تنہا نماز پڑھ لیتے ہیں، یہ عام دنوں میں بھی غلط ہے، خصوصاً رمضان المبارک جیسے مہینے میں مسجد میں حاضری سے محرومی بہت افسوس کی بات ہے۔ ایسے لوگوں کواپنے اعمال کاجائزہ لینا چاہئے کہ جب سارے لوگ مسجد کارخ کرتے ہیں، اللہ نے کس بدعملی یا بے عملی کی وجہ سے ماہ مبارک میں اپنے گھر سے اسے دور کر رکھا ہے۔
رمضان کے اخیر عشرہ میں ہی عموماً عیدگاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر مسلمان نکالتے ہیں، یہ بھی رمضان المبارک کی خاص عبادت ہے، اس سے غریبوں کے لئے نان نفقہ کاانتظام ہوجاتا ہے، اس رقم کا استعمال اپنے غریب رشتہ داروں، پاس پڑوس کے محتاجوں اور ضرورت مندوں کے لئے کرنا چاہئے، کیوں کہ یہ لوگ اس رقم کے زیادہ مستحق ہیں، آپ کے تعاون سے ان کی عید بھی اچھی گزر جائے گی اور اللہ کی میزبانی کایہ لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ فقہاء کی ایک تعبیر انفع الفقراء بھی ہے، یعنی وہ چیز جس سے فقراء کو زیادہ فائدہ پہنچے۔ صدقۃ الفطر عام طور پر نصف صاع گیہوں یا اس کی قیمت جو مقامی ہوتی ہے کے حساب سے نکالا جاتاہے، یہ رقم کم ازکم ساٹھ روپے بنتی ہے؛ لیکن اگر کھجور، کشمش وغیرہ سے فطرہ نکالیں گے تو ان اجناس کے گراں ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ جائے گی اوران کی مقدار بھی ایک صاع ہے، اس لئے ہر اعتبار سے یہ فقراء کے لیے زیادہ نفع بخش ہے چنانچہ جو لوگ استطاعت رکھتے ہوں وہ دوسری اجناس سے بھی فطرہ نکالیں تو بہتر ہوگا۔ یہ ایک مشورہ ہے، ہم کسی پر لازم نہیں کرسکتے کہ وہ فلاں چیز سے ہی فطرہ نکالے۔
اس عشرہ کا اختتام عیدالفطر کے چاند دیکھنے پر ہوتاہے، عید کا چاند دیکھنے کے بعد رمضان کے رخصت ہونے کی حسرت عید کی خوشی پر غالب آجاتی ہے، اورایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جس طرح شیطان قیدوبند سے آزاد ہوا، اسی طرح ہم بھی آزاد ہوگئے، کچھ جگہوں پر پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں ، نوجوانوں کے لئے یہ رات بھی رت جگّے کی ہوجاتی ہے، حالانکہ حدیث میں اس رات کانام لیلۃ الجائزہ یعنی انعام والی رات ہے، مہینے بھر جوعبادت کی گئی اس کا انعام اب ملنے والا ہے، ابھی انعام ملا نہیں کہ تماشے شروع ہوگئے، اچھے اچھے لوگوں کودیکھا کہ وہ عید کی صبح فجر کی نماز سے غائب تھے، حالانکہ فجر کی نماز تو فرض ہے، پہلے ہی دن رمضان کااثر ختم ہوگیا۔
ہم اس بات کو فراموش کرجاتے ہیں کہ رمضان تربیت کامہینہ تھا اوراس ایک ماہ کی تربیت کااثر گیارہ ماہ تک باقی رہنا تھا، زندگی اور اعمال میں تبدیلی آنی تھی، لیکن ایساکچھ نہیں ہوا، اس کا مطلب ہے کہ ہمارے روزے اور عبادتیں اس پائے کی نہیں ہوپائیں جو شریعت کو مطلوب ہیں اورجس کے نتیجے میں تقویٰ کی کیفیت پیداہوتی ہے، آخری عشرے میں بالخصوص اس پر ذرا سوچئے اوراپنا محاسبہ کیجئے!شاید اس محاسبہ کے بعد ہم اپنے اندر تبدیلی پیداکرسکیں۔