• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

امت ِ مسلمہ سورہ بقرہ کی روشنی میں کامیابی کا سفر طے کرے

Updated: December 20, 2024, 3:19 PM IST | Mohiuddin Ghazi | Mumbai

نبی کریم ؐ نے امت کو اصحاب سورۃ البقرۃ کہہ کر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: اسے اختیار کرنے میں برکت اور چھوڑ دینے میں حسرت ہے۔ اس سورہ کو جاننے والا قیادت کا اہل قرار پاتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

قرآن مجید میں سورہ بقرہ کو بہت نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ بالکل شروع میں یعنی سورہ فاتحہ کے فوراً بعد ہے اور قرآن کی سب سے طویل سورہ ہے۔ اس کے مضامین اور موضوعات بھی ایسے ہیں کہ دینی رہ نمائی کے لئے سب سے زیادہ اسی کی طرف رجوع ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: 
’’ہر چیز کا ایک نمایاں حصہ ہوتا ہے اور قرآن کا نمایاں حصہ سورہ بقرہ ہے۔ ‘‘ (مستدرک حاکم)
’’سورہ بقرہ پڑھا کرو، اسے اختیار کرنے میں برکت ہے اور چھوڑ دینے میں حسرت ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم) 
سورہ بقرہ پر غور و فکر کے نتیجے میں یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ یہ سورہ اُمت مسلمہ کے لئے رہ نمائی کا خاص سامان رکھتی ہے۔ 
سورہ بقرہ امت کی تعمیر و تشکیل میں اتنی زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے اُمت مسلمہ کا نام اصحاب سورۃ البقرۃ (سورہ بقرہ والے لوگ) رکھ دیا۔ حنین کے موقع پر جب دشمنوں نے کمیں گاہوں سے مسلمانوں کی فوج پر اچانک شدید حملہ کیا، جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی اور ان کے قدم اکھڑ گئے، تو اللہ کے رسولؐ نے حضرت عباسؓ سے کہا: یاأَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ کہہ کر انہیں پکارو۔ (مسند احمد)
امت کی رہ نمائی میں سورہ بقرہ کے کلیدی کردار کی بنا پر اللہ کے رسولؐ نے کم سن نوجوان کو بڑوں کے ہوتے قیادت کی ذمے داری دی۔ عثمان بن ابو العاصؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کے پاس قبیلہ ثقیف کا وفد آیا۔ اس میں ہم چھ لوگ شامل تھے اور مَیں ان میں سب سے کمسن تھا۔ اللہ کے رسولؐ نے مجھے وہاں کا عامل (گورنر) بنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں سورہ بقرہ پڑھ چکا تھا۔ (دلائل النبوة، بیہقی)
سورہ بقرہ کی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرامؓ نے سورہ بقرہ پر غور و تدبر کے لئے کافی وقت بلکہ اپنی زندگی کا معتد بہ حصہ وقف کیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے سورہ بقرہ کے علوم و معارف حاصل کرنے میں بارہ سال صرف کئےاور جب سورہ مکمل ہوئی تو کئی اونٹ ذبح کئے۔ (شعب الایمان، بیہقی)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے سورہ بقرہ کو سیکھنے میں آٹھ سال لگائے۔ (موطا مالک)
جب حضرت عثمانؓ کو شہید کیا گیا تو سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۷؍ پر آپ کا خون بہہ کر چلا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت آپ سورہ بقرہ کی تلاوت میں مصروف تھے۔ (شعب الایمان، بیہقی)
یہ حوالےاشارہ کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے امت کی قیادت سنبھالی انہوں نے اپنی بھاری ذمے داری کو ادا کرنے کے لئے سورہ بقرہ سے خاص طور پر مدد حاصل کی۔ 
زیرنظر مضمون میں سورہ بقرہ سے کچھ رہ نما نکات پیش کئے گئے ہیں، اس امیدکے ساتھ کہ مسلسل غور و فکر سے مزید بہت کچھ دریافت کیا جاسکتا ہے اور بڑی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
سورہ بقرہ میں امت کا خاص حوالہ ہے
اُمت مسلمہ سے سورہ بقرہ کا خاص تعلق بہت نمایاں ہے۔ اسی سورہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے منصب امامت کا عکس اپنی ذریت میں دیکھنے کی تمنا ظاہر کرتے ہیں (۱۲۴)، خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اپنی ذریت میں ایک اُمت مسلمہ کیلئے دعا کرتے ہیں۔ ( ۱۲۸) اس امت میں ایک رسول کی دعا کرتے ہیں جو ان کی تعلیم و تزکیہ کا کام کرے۔ (۱۲۹) اُمت مسلمہ کو یہ بتایا گیا کہ تعلیم و تزکیہ کا یہ انتظام ان کیلئے کردیا گیا ہے۔ (۱۵۱) اُمت مسلمہ کو دو بار آگاہ کیا گیا کہ بنی اسرائیل کو برطرف کردیا گیا اور منصب ِ امامت سے اُسے یعنی اُمت مسلمہ کو سرفراز کیا گیا، اس لئے اب وہ اپنی کارکردگی کی فکر کرے۔ (۱۳۴، ۱۴۱) اہل ایمان کو یہ بھی بتایا گیا کہ انہیں امت وسط بنایا گیا ہے، تاکہ وہ لوگوں پر گواہ ہوں اور رسول ان پر گواہ ہو۔ (۱۴۳)
فساد اور خوں ریزی روکنا امت کا فریضہ ہے
سورہ کے آغاز میں انسان کو زمین میں خلیفہ بنائے جانے کا واقعہ ہے۔ اللہ تعالی جب فرشتوں کو اپنا یہ فیصلہ سناتا ہے کہ وہ زمین میں خلیفہ (بااختیار مخلوق) بسانے والا ہے تو فرشتے اپنا اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ زمین میں بگاڑ کرے گا اور خون بہائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو نام بتائے اور فرشتوں سے کہا کہ ان لوگوں کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو، فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کیا اور اللہ کے حکم سے آدم نے ان کے نام بتا دیئے۔ بعض مفسرین کا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان انبیا اور مصلحین کے نام تھے جو ہر زمانے میں بگاڑ اور خوں ریزی کو روکنے کیلئے سامنے آئینگے۔ یاد ر ہے کہ حضرت آدمؑ کا واقعہ قرآن کی کئی سورتوں میں آیا ہے لیکن ان کے واقعہ کا یہ ناموں والا حصہ صرف سورہ بقرہ میں ہے۔ 
اُمت مسلمہ کے لئے اس واقعہ کا پیغام یہ ہے کہ نبوت کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد زمین میں بگاڑ اور خوں ریزی کی روک تھام کے لئے اُمت مسلمہ کو اپنا بڑا بلکہ کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ 
پچھلی اُمت مسلمہ سے سبق لینا ضروری ہے
جس اُمت مسلمہ سے ہمارا تعلق ہے وہ انسانی تاریخ کی پہلی مسلم امت نہیں ہے۔ اس سے پہلے بہت سی مسلم امتیں برپا ہوتی رہیں۔ آخری مسلم امت بنی اسرائیل کی صورت میں طویل عرصے تک باقی رہی۔ جب بنی اسرائیل نے بگاڑ کو روکنے کے بجائے خود کو پورے طور سے بگاڑ سے آلودہ کرلیا تو انہیں اپنے منصب سے معزول اور ہر طرح کی فضیلت سے محروم کردیا گیا۔ 
سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کی طویل روداد بیان کرنے کا یہ مقصد صاف نظر آتا ہے کہ مسلم امت کو یہ بتا دیا جائے کہ اس سے پہلے بنی اسرائیل کو کن اسباب کی بنا پر اپنے منصب سے معزول کیا گیا تھا۔ 
قرآن پڑھتے ہوئے یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ آخر قرآن کے شروع ہی میں بنی اسرائیل کی اس قدر طویل روداد کیوں بیان کی گئی۔ اس کا اطمینان بخش جواب یہ ہےکہ یہ پوری روداد مسلم امت کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ ایک امت جسے عظیم فضیلت اور بڑی نعمتوں سے نوازا گیا تھا، اپنی کن کوتاہیوں کی وجہ سے معتوب و مغضوب قرار دے دی گئی۔ 
اگر بنی اسرائیل کی یہ روداد سامنے ر ہے تو مسلم امت اس سے اپنے لئے بہت سے رہ نما اصول اخذ کرسکتی ہے۔ 
سورہ بقرہ کے ابتدائی حصے میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان اسباب کو ایک ایک کرکے ذکر کیا گیا جو بنی اسرائیل کے بگاڑ اور پھر معزولی کا سبب بنے۔ بنی اسرائیل نے اللہ کی بیش بہا نعمتوں کی ناشکری کا رویہ اپنایا۔ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو نہ صرف توڑا بلکہ عہد شکنی کی مسلسل روش اختیار کی۔ حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ کیا اور حق کو چھپانے کا وطیرہ اپنایا۔ لوگوں کو وفاداری کا سبق پڑھانے اور خود اسے فراموش کردینے میں وہ طاق ہوگئے۔ آخرت فراموشی اختیار کی اور آخرت کے سلسلے میں من گھڑت تصورات قائم کرکے اپنی نجات کے یقینی ہونے کا عقیدہ اپنا لیا۔ اللہ نے انہیں انسانوں پر فضیلت عطا کی لیکن انہوں نے اپنے مقام و مرتبے کی لاج نہیں رکھی۔ تنبیہ اور سرزنش کے باوجود بار بار نافرمانی اور سرکشی کا رویہ دوہراتے ر ہے۔ اللہ کے کسی حکم پر کبھی صحیح طریقے سے عمل نہیں کیا، خواہ اس حکم میں ان کے لئے کتنا ہی خیر ہو۔ نبیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں تھا۔ ’’سبت‘‘ کے دن شکار کرنے پر پابندی لگائی گئی تو وہ توڑ دی۔ قربانی کے لئے کہا گیا تو آنا کانی کرنے لگے۔ قاتل کو سزا دینے کا وقت آیا تو اس کی مدافعت میں لگ گئے۔ ان کے دل پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے۔ کتاب الٰہی کی حیثیت ان کے نزدیک کچھ تمناؤں سے زیادہ نہیں رہی۔ اپنی لکھی باتوں کو کتاب الٰہی کی طرف منسوب کرنے کے سنگین جرم سے بھی انہیں خوف نہ آیا۔ خوں ریزی کرنے اور لوگوں کو شہر بدر کرنے سے روکنے کا عہد لیاگیا مگر اس عہد کو بھی توڑتے ر ہے۔ اللہ کی کتاب پر ایمان لانے کے بجائے جہاں جہاں مفاد تقاضا کرتا وہاں وہاں کفر کی روش اپنالیتے۔ اللہ کی کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے تو دوسرے حصے کا انکار کردیتے۔ دنیا پرستی ان کے دل میں گھر کر گئی۔ حسد کی آگ ان کے دل میں بھڑکی تو جبرئیل امین کے دشمن بن بیٹھے۔ شیطانی طریقوں کی پیروی میں بھی انہیں کوئی جھجک نہ رہی۔ آپس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا بھوت سوار ہوا اور علم نافع کے بجائے ضرر رساں چیزوں کاعلم سیکھنے میں لگ گئے۔ مسجدوں میں اللہ کے ذکر پر پابندی لگانے میں انہیں کوئی عار نہ تھا۔ قوم پرستی ان کے دل ودماغ پر قابض ہوگئی۔ ایمان اور عمل صالح کے بجائے قوم یہود اور قوم نصاریٰ سے تعلق کو نجات کے لئے کافی قرار دینے لگے۔ تمام بداعمالیوں کے باوجود وہ جہنم میں نہیں جائینگے اور گئے تو نکال لئے جائینگے، اس طرح کے عقیدے ان کے یہاں جڑ پکڑ گئے۔ خواہشات کا ان پر ایسا غلبہ ہوا کہ اللہ کی ہدایت کے مقابلے میں اپنی خواہشات کو ترجیح دینے لگے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فرشتوں نے جس اندیشے کا اظہار کیا تھا، بنی اسرائیل اس کا عین مصداق بن گئے۔ وہ زمین میں بگاڑ پھیلانے اور خوں ریزی کرنے والے بن گئے۔ حضرت آدمؑ نے جن صالح و مصلح نفوس کے نام لئے تھے، ان کی فہرست میں وہ نہیں رہے۔ ان کی بدعہدیوں، بداعمالیوں اور غرور و حسد نے انہیں بدبختی کے اس مقام تک پہنچادیا کہ جب آخری رسول، جس کا انہیں انتظار تھا، آخری کتاب کے ساتھ آیا تو انہوں نے اسے جھٹلادیا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کی روداد کو جن جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ان میں اُمت مسلمہ کیلئے عبرت و نصیحت کا بڑا سامان ہے۔ مسلمانوں کو بنی اسرائیل کی روداد کی روشنی میں اپنا کڑا احتساب کرتے رہناچاہئے۔ عقائد و افکار کی سطح پر بھی، انفرادی رویوں اور سماجی معمولات کی سطح پر بھی۔ 
قرآن مجید کی ابتداء میں بنی اسرائیل کی یہ طویل روداد مسلم امت کے لئے راستے کے سرخ نشانات کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہ حفاظت سفرطے کرنے کے لئے ان نشانوں سے خبردار رہنا ضروری ہے۔ 
برائیوں کا سرچشمہ جھوٹی آرزوئیں :کسی قوم کی دینی و اخلاقی گراوٹ کا سب سے بڑا سبب جھوٹی آرزوئیں ہوتی ہیں۔ یہ آرزوئیں اس کے اندر سے برائی سے نفرت اور نیکی کی چاہت کو ختم کردیتی ہیں۔ جب برائیوں کے مزے لینے اور نیکیوں کی مشقت سے بچے رہنے کے باوجود نجات یقینی اور کامیابی پکی ہو تو لذتوں سے بھرپور اور مشقتوں سے خالی زندگی گزارنے سے کیا چیز روک سکتی ہے۔ 
جھوٹی آرزوئیں بگاڑ کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھول دیتی ہیں۔ کوئی قوم اگر اس زعم کا شکار ہو جائے کہ وہ نجات یافتہ قوم ہے، خواہ وہ عقیدہ و عمل کی کیسی ہی پستی میں گرچکی ہو، تو پھر اس کی اصلاح بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے اندر جھوٹی آرزوؤں کی جڑیں گہرائی تک اتر گئی تھیں۔ اس سورہ میں بنی اسرائیل کی دو جھوٹی آرزوؤں کو بیان کیا گیا اور ان کے سلسلے میں اللہ تعالی کے دوٹوک عادلانہ قانون کی وضاحت کی گئی۔ 
’’وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کی سز ا مل جائے تو مل جائے اِن سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کر سکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟‘‘ (البقرة: ۸۰)
’’جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا ر ہے گا، وہ دوزخی ہے او ر دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ ر ہے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘ (البقرة: ۸۱۔ ۸۲)
’’ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو (یا عیسائیوں کے خیال کے مطابق) عیسائی نہ ہو یہ ان کی تمنائیں ہیں، ان سے کہو، اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ ‘‘ (البقرة:۱۱۱)
’’دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے، نہ کسی اور کی، حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لئے اس کے رب کے پاس اُس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔ ‘‘ ( البقرة:۱۱۲)
دو مرتبہ جھوٹی آرزوؤں پر مشتمل بنی اسرائیل کے تصور آخرت کی تصحیح کی گئی ہے:
’’اور ڈرو اُس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی۔ ‘‘ 
(البقرہ: ۴۸)
’’اور ڈرو اُس دن سے، جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی، اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ ‘‘ 
(البقرہ:۱۲۳)
 اہل ایمان کو بھی اسی انداز سے آخرت کا صحیح تصور سمجھایا گیا ہے:
 ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم اصل میں وہی ہیں، جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ: ۲۵۴)
مسلم امت کو ترقی و تمکین عطا کرنے والے احکام
 سورہ بقرہ میں جو احکام دیئے گئے ہیں، امت کی طاقتور تشکیل میں ان کا غیر معمولی کردار ہے۔ 
 مسلم امت کا ایک قبلہ ہو۔ یہ قبلہ خانہ کعبہ ہو جو اسلام کی شان دار تاریخ کا امین ہے۔ اس کی بنیاد توحید خالص اور اسلام کامل پر ہے۔ اس کی تعمیر سے اس امت کی تقدیر وابستہ ہے۔ ایسے قبلہ سے پوری امت کی وابستگی یقیناً امت کو متحد، طاقتور اور عظیم مشن کی علم بردار بننے میں مدد کرے گی۔ 
 خون کے معاملے میں برابری کا اصول برتا جائے تو جان کی حرمت محفوظ رہ سکے گی۔ برابری کے اصول کو مسلم امت کے لئے زندگی کا سرچشمہ قرار دیا گیا: ’’عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اُمید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔ ‘‘ 
(البقرة:۱۷۹)
 جان کے علاوہ مال کی حرمت بھی محفوظ رہنا امت کے داخلی استحکام کیلئے ضروری ہے۔ مال کی حرمت محفوظ رہنے کی ایک واضح علامت یہ ہے کہ مرنے والے کا مال زندہ رہ جانے والے تمام مستحقین تک پہنچ جائے۔ وصیت کے احکام سے متعلق آیتوں کا اس پہلو سے مطالعہ ہونا چاہئے۔ 
 رمضان کے روزے اور رمضان میں قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنے کے نتیجے میں مسلم امت کے اندر صبر و تقویٰ جیسے متعدد اوصاف پیدا ہوتے ہیں جو امت کو ترقی اور طاقت دینے میں مددگار ہوتے ہیں۔ 
 دوسروں کے مال پر قبضہ اور دوسروں کا حق مارنے کے لئے رشوت کا استعمال سماج کیلئے ناسور ہوتا ہے۔ ایسی بدعنوانیاں اور برائیاں سماج کو اندر سے کھوکھلا کردیتی ہیں۔ مسلم امت کو اس سے بچے رہنے کی تائید کی گئی۔ 
 خانہ کعبہ سے مضبوط تعلق کی ایک صورت نماز میں اسے قبلہ بنانا ہے۔ پھر حج و عمرے کے ذریعے خانہ کعبہ سے تعلق اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ عالمی امت کی وحدت کیلئے ایک مرکز ہونا بہت ضروری ہے۔ خانہ کعبہ وحدت امت کا مرکز ہے۔ حج و عمرہ کے ذریعے امت کی ترقی و تمکین کے سفر میں تیزی لائی جاسکتی ہے اور جذبۂ سفر کی تجدید ہوسکتی ہے۔ 
 شراب اور جوئے سے سماج میں دشمنی اور بے حیائی تیزی سے فروغ پاتی ہے۔ یتیموں کا مال محفوظ نہ رہنے کا مطلب سماج میں کمزوروں کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ مسلم امت کو ایسی تباہ کن لعنتوں سے بچنے کی تاکید کی گئی۔  مضبوط ومستحکم سماج وہ ہے جہاں ضرورتمندوں کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہر شخص اپنے والدین اور رشتے داروں اور گردوپیش کے یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھتا ہے۔ مسلم امت کو اس طرف بار بار توجہ دلائی گئی۔ 
 سماج کے اندر کوئی کام بھونڈے طریقے سے انجام نہ پائے۔ طلاق جیسا ناخوشگوار کام بھی بڑے سلیقے سے انجام پائے۔ طلاق کے نتیجے میں خاندانوں کے بیچ دشمنی جنم نہ لے۔ سب لوگ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کریں۔ نظام طلاق کو امت کے لئے نظام رحمت بنادیا گیا۔ 
 اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا رجحان طاقتور اور بابرکت سماج کی علامت ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس میں ایذا رسانی اور ریاکاری نہ ہو، تنگ دلی اور بد ذوقی نہ ہو۔ ضرورتمندوں کو تلاش کرکے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی جائے۔ سورہ بقرہ میں امت کو اس کی خاص تعلیم دی گئی۔ 
 سودی لین دین کا مطلب یہ ہے کہ سماج بے رحمی اور معاشی ناہمدردی و نا ہمواری کی سمت بڑھ رہا ہے۔ امت کو سودی نظام سے دور رہنے کی سختی سے تاکید کی گئی۔ 
 ادھار لین دین سماج کی ضرورت ہے، تاہم اس کے بطن سے بہت سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔ اس لیے ادھار کے نظام کو منضبط کردیا گیا۔ 
 غرض یہ کہ سورہ بقرہ میں جو احکام دیئے گئے ہیں، وہ فرد کی اخروی فلاح کی ضمانت تو لیتے ہی ہیں، دنیا میں امت کو ترقی وتمکین سے سرفراز کرنے میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ 
احکام الٰہی کی من و عن اطاعت ضروری ہے
 سورہ بقرہ میں مذکور احکام الٰہی کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ ان احکام کا فائدہ اسی وقت سامنے آئے گا جب انہیں من وعن اور بلا کم و کاست ان کی روح کے ساتھ انجام دیا جائے گا۔ قصاص کے بارے میں رہ نمائی کی گئی پھر کہا گیا کہ اس کے بعد جو حد سے تجاوز کریگا اس کیلئے درد ناک عذاب ہے۔ وصیت کے بارے میں احکام دیئے گئے پھر کہا گیا کہ جس نے وصیت کو سننے کے بعد اسے بدل دیا اس کا گناہ اس کے سر آئے گا۔ جو لوگ جنگ کریں ان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جنگ کرنے کا حکم دیا گیا اور کہا گیا کہ زیادتی نہ کرو اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ 
 اگر احکام الٰہی کی اس طرح تعمیل نہیں کی گئی جس طرح کرنی چاہیے تو یاد رکھنا چاہئے کہ محرومی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ 
امت ِ مسلمہ کو صبر کا خوگر بناتی ہے سورہ بقرہ
 سورہ بقرہ مسلم امت کو فساد اور خوں ریزی کو روکنے کی ذمے داری دیتی ہے۔ یہ کام بے خوفی، بہادری اور صبر جیسے اوصاف چاہتا ہے۔ سورہ بقرہ مسلم امت کو ان اوصاف کا حامل بناتی ہے۔ 
 سورہ بقرہ میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی کہ دوسروں سے مت ڈرو، اللہ سے ڈرو (البقرة: ۱۵۰) ان سے کہا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرة:۱۵۳) بتایا گیا کہ جو اللہ کی راہ میں قتل کردیے جاتے ہیں وہ زندہ رہتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو (البقرة:۱۵۴)۔ آگاہ کیا گیا کہ اہل ایمان کو خوف، بھوک اور جانی و مالی نقصان کی آزمائشوں سے گزرنا ہے، ایسے میں صبر کرنے والوں کیلئے کامیابی کی خوشخبری ہے۔ (البقرة:۱۵۵) رہنمائی کی گئی کہ اللہ کی نصرت کی جلدی نہ کرووہ تو قریب ہے، تم سخت سے سخت آزمائش میں ثابت قدم رہو، یہی جنت کا راستہ ہے اور یہی ماضی میں رسولوں کی تاریخ رہی ہے(البقرة:۲۱۴) 
(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK