• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اللہ کی طرف رُجوع اور توبہ و استغفار کی ضرورت و اہمیت

Updated: November 25, 2024, 5:04 PM IST | Maulana Hafiz Abdur Rahman Salafi | Mumbai

گناہ کا ارتکاب ہو جانا بڑی بات نہیں، بلکہ اس پر فخر اور مداومت کرنا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

’’اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کر لو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا اور تمہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ (اپنے) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور اُن اہلِ ایمان کو جو اُن کی (ظاہری یا باطنی) معیّت میں ہیں رسوا نہیں کرے گا، اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں طرف (روشنی دیتا ہوا) تیزی سے چل رہا ہوگا، وہ عرض کرتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لئے مکمل فرما دے اور ہماری مغفرت فرما دے، بیشک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔ ‘‘ (التحریم:۸)
انسانی فطرت و جبلت کی بنیاد نسیان و عصیان پر استوار کی گئی ہے، لیکن مسلم اور غیرمسلم انسان میں بنیادی فرق ہے۔ عام انسان خطا و عصیان پر دائمی استوار رہ سکتا ہے الاّ یہ کہ اللہ رب العالمین اسے ہدایت سے سرفراز فرمادے اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہو کر اپنی سابقہ روش ترک کر کے اسلامی اصول و ضوابط پر کار بند رہ کر باقی زندگی مرضیات ربانی کے مطابق گزاردے۔ مندرجہ بالا آیت کریمہ میں انہی اوصاف کے حامل اہل ایمان کا تذکرہ کیا گیا کہ گناہ کا ارتکاب ہر ایک سےممکن ہے لیکن مومن کا شعار یہ ہے کہ جب اس سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ فوراً اپنے رب سے رجوع کرتا ہے اور ندامت کے آنسو بہا کر اپنے رب کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ رب اتناشفیق و مہربان ہے کہ سچی توبہ کرنے والے سے انتہائی خوش ہوتا ہے۔ 
گناہ کا ارتکاب ہو جانا بڑی بات نہیں، بلکہ اس پر فخر اور مداومت کرنا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے جو قدم قدم پرغلطیاں کرتا رہتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر ایک گناہ ہو گیا تو پھر دوسرا کر لیا اور اسی طرح کرتا چلا گیا یہاں تک کہ رب کے حضور پہنچ گیا اور توبہ کی توفیق میسر ہی نہ آ سکی۔ 
ایسے شقی القلب لوگ جو اپنے گناہوں پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اس کی تباہ کاریوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے، بالآ خر وہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانیاں اور خلق اللہ پر جوروستم روار کھتے ہوئے بغیر توبہ کے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں یا جب جاں کنی کا وقت آجائے، تب توبہ کرنے لگ جاتے ہیں، جیسا کہ فرعون نے کہا۔ 
فرعون نے جب دریا میں راستہ دیکھا تو وہ بھی پیچھے پیچھے اپنی سپاہ کے ہمراہ تعاقب کرتا ہوا چلا آیا، لیکن جب درمیان میں پہنچا تو فرشتوں کو اللہ کا حکم ہوا کہ دونوں پانیوں کو ملادیں، اللہ کے حکم سے پانی مل گیا اور فرعون اور اس کا لشکر غرقاب ہوگیا۔ قرآن مجید نے اس موقع کی عجیب منظر کشی کی ہے:
’’اور ہم بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے گئے پس فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدّی سے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب اسے ( فرعون کو) ڈوبنے نے آلیا وہ کہنے لگا: میں اس پر ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس (معبود) کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں (اب) مسلمانوں میں سے ہوں، (جواب دیا گیا کہ) اب (ایمان لاتا ہے)؟ حالانکہ تو پہلے (مسلسل) نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد بپا کرنے والوں میں سے تھا، (اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے (عبرت کا) نشان ہوسکے اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں (کو سمجھنے) سے غافل ہیں۔ ‘‘ (سورہ یونس: ۹۰؍تا۹۲)
معلوم ہوا کہ توبہ موت سے قبل تک قبول ہوتی ہے، البتہ موت کو سامنے دیکھ کر توبہ کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اسی طرح جو لوگ ساری زندگی کفر و شرک پر رہتے ہیں اور آخری لمحات میں اپنے گناہوں پر قائم رہتے ہوئے توبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی توبہ بھی توبہ نہیں، البتہ ایمان لے آئیں اور اپنے عقیدہ کی اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ 
ہمارے معاشرے میں قدم قدم پر الله اور اس کے رسولؐ کی نافرمانیاں عام نظر آتی ہیں۔ جب دین سے تعلق ختم ہو جاتا ہے تو پھر انسان مادر پدر آزاد ہوکر معاشرے کے لئے سم قاتل بن جاتا ہے اور بدیہی طور پر منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر شخص دوسرے کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آخرت کی جواب دہی کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور انسان دنیا اور اس کی رنگینیوں اور عیش وعشرت کوہی سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ ہم سب کو سچی توبہ کرنے اور اپنی مرضیات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK