غفلت دل کی بیماریوں سے ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے، اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو بے اثر کردیتی ہے اور انسان شعور و ادراک سے بہت دُور ہوجاتا ہےیہاں تک کہ اُسے یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ وہ کتنے بڑے خسارے میں مبتلا ہوچکا ہے۔
قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ تصویر: آئی این این
قرآنی لفظ ہے۔ یہ ’غافلا‘سے ہے۔ اس کے معنی چھپانااورغفلت ہے۔ انسان جب کسی چیز یا معاملے کو بھلا دیتا ہے،اس کو نذر انداز کر دیتا ہے یا اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اس کو غفلت کہتے ہیں۔ غفلت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اتنی توجہ نہ دی جائے جتنی توجہ کی وہ حق دار ہو۔
غفلت کا مفہوم
قرآن مجید میں ۳۵؍آیتوں میں غفلت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو مفہوم میں آیا ہے۔ ایک بے خبر ی، لاعلمی، ناواقفیت، اور دوسرا بھلا دینا اور نظرانداز کردینا۔ غافل کے معنی قرآن مجید میں بے خبر اور ناواقف ہونے کے بھی ہیں۔ سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور نبی کریم ؐ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی سرگزشت سے آپؐ واقف نہیں تھے۔ ہم نے وحی کے ذریعے آپؐ کو واقف کرایا۔ (یوسف :۳)
اس آیت میں غفلت بے خبری کے معنی میں ہے۔ اسی سورہ میں حضرت یوسف ؑ کے والد نے ان کے بھائیوں سے، جب کہ وہ حضرت یوسف ؑ کو اپنے ساتھ بکریاں چرانے کے لیے جنگل میں لے جانا چاہتے تھے، فرمایا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کھیل کود اورشکار میں ایسے مگن ہو جاؤ کہ یوسفؑ کی طرف سے غافل ہو جاؤ اور پھر بھیڑیا اس کو کھا جائے۔ (یوسف: ۱۳)
حضرت موسٰی کے بارے میں ہے کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے لوگ غفلت میں تھے یعنی ایسا وقت تھا کہ اس وقت ان کے آنے کی خبر کسی کو نہ ہو سکی۔ یہ وقت رات، علی الصبح، یادوپہر کا ہو گا، جب کہ لوگ آرام کرتے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔ اس آیت میں بھی غفلت کے معنی بے خبر ہونے کے ہیں۔
سورۂ نور کی آیت میں ’غافلات‘ کا لفظ آیا ہے۔ جس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو سیدھی سادی اور شریف ہوتی ہیں، ان کے دل و دماغ اس طرح کے خیالات سے بالکل پاک صاف ہوتے ہیں اور جو یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر بدچلنی کا گھناؤنا الزام لگا دے گا:
’’ جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لئےبڑا عذاب ہے۔ ‘‘ (النور:۲۳)
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لئےرحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو اس کے مطابق عمل کریں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی، اور جو اس سے غفلت برتیں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بتا یا گیاکہ قیامت کے دن یہ حجت بن سکے اور اس دن کوئی یہ معذرت پیش نہ کر سکے کہ ہم کو صحیح راستہ معلوم نہیں تھا۔ یہود و نصاریٰ کے یہاں انبیاؑ آئے،ان پر کتابیں نازل کی گئیں۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فر مایا گیا کہ قرآن مجید اس لئےنازل کیا گیا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہود و نصار یٰ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے؟:
’’ اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں کو دی گئی تھی، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔ ‘‘ (انعام: ۱۵۶)
جو شرک کرتے تھے اور جن کو خدائی میں شریک ٹھہراتے تھے، آخرت کے دن ان کو آمنے سامنے کر دیاجائے گا، تو وہ اپنے پرستاروں سے صاف صاف ان کی حرکت سے لا علمی، لاتعلقی اور بے خبری کا اظہار کریں گے۔ جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور سفارشی سمجھتے تھے، قیامت کے دن وہ ان سے برأ ت کا اعلان کریں گے کہ نہ تو ہم نے ان سے اپنی عبادت کیلئےکہا تھا اور نہ ہمیں اس کی کچھ خبر تھی:
’’ ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔ ‘‘ (یونس :۲۹)
دوسرا مفہوم بھلا دینا، بھول جانا،نظر انداز کرنا، بے توجہی برتنا، بے پرواہی، لااُبالی پن وغیرہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف کیفیات و صفات کا ذکرکیا ہے۔ ایمان لانے والے،تقویٰ والے، فرماں بردار، متوجہ رہنے والے بندوں کی خوبیوں و صفات کا بھی ذکر کیا ہے، اور کفار و مشرکین،فجاروفساق،بے پروا،غافل انسانوں کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی صفات کو اختیار کرے اور برے لوگوں کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا لے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ غفلت دل کی بیماریوں سے ایک اہم بیماری ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے۔ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو ختم کردیتی ہے۔ شعور و ادراک سے وہ بہت دُور ہوجاتا ہے۔ انسان نقصان سے دو چار ہو تا ہے، لیکن وہ کتنے بڑے گھاٹے و نقصان میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔ وہ اپنا نقصان کررہا ہو تا ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خسارہ کی زندگی گزاررہا ہوتا ہے مگر اس سے نکلنے کی فکر نہیں ہوتی۔
آج مسلمانوں کی بڑی تعداد غفلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ کے دین،قرآن مجید، اللہ کے احکامات، رسولؐ اللہ کی سنتوں، عبادات،نیکی کے کاموں،انفاق،جہاد فی سبیل، حقوق العباد، آخرت کی جواب دہی، اللہ کی حرام کردہ اشیاء سے غفلت برتنا ہی غفلت کی زندگی ہے اور ایسی زندگی گھاٹے کی زندگی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو ایسی تمام غفلتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
انبیا ؑ کی بعثت کا مقصد
اللہ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کا سامان کرے۔ اس کے لئےاللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئےرسول بھیجے، ان پر کتا بیں نازل کیں ۔ ان کے ذریعے حق کو واضح کیا اور شرک و کفر کے نتائج سے واقف کرایا۔ انسان کو اختیار کی آزادی دی کہ چاہے تو اس کو قبول کرکے اس کے مطابق عمل کرے اور آخرت میں کامیاب ہو جائے، چاہے تو اس سے غفلت اختیار کرے۔ اگر وہ اس سے منہ موڑتا ہے تو ناکام ہو گا اور سزا سے دوچار ہوگا۔ انبیا ؑ کے مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غفلت سے چونکا کے انجام سے باخبر کر دیں تاکہ لوگ شعور و ادراک، علم وایمان کی روشنی میں زندگی گزاریں۔
ارشاد ربانی ہے:
’’اے نبی ؐ!اس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں، انھیں اس دن سے ڈرا دو جب کہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا۔ (مریم :۳۹)
’’قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت،اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ (انبیاء:۱)
یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے کہ جب لوگ اپنے رب کے حضور حاضر کئے جائیں گے اور اپنی پوری زندگی کا حساب دینا پڑے گا۔ وہ غفلت میں ایسے پڑے ہیں کہ ان پر کسی طرح کی تنبیہ کا ر گر نہیں ہوتی ہے، نہ تو خود ان کو اپنے انجام کی کی فکر ہے اور نہ پیغمبرؐ کے کے ڈرانے کی کوئی پروا ہے۔ غفلت انسان کے لئےنقصان دہ ہے اور جب کوئی سمجھائے اور جھنجھوڑے اس کے باوجود غفلت سے بیدار نہ ہو،تو یہ جرم اور سنگین ہو جاتا ہے۔ قیامت کے قریب ہونے کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں۔
غفلت کی اقسام
غفلت دو طرح کی ہے:
ایک مذموم ہے اور دوسری محمود۔
محمود غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان گنا ہوں کو بھول جائے۔ بدی کی راہ سے نیکی کی راہ کی طرف ہجرت کرے اور ایسی ہجرت کرے کہ پھر برائیوں اور بڑے گناہ کرنے کے خیال تک کو بھلا دے۔ انسانوں کی جانب سے ناروا سلوک، بدسلوکی، بے ہودہ باتیں سننے کے باوجود نظر انداز کر جائے،انتقامی جذبے سے اپنے آپ کو بچا لے۔ ایسی غفلت محمود ہے:
’’ جو لوگ پاک دامن، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لئےبڑا عذاب ہے۔ ‘‘ (النور :۲۳)
مذموم غفلت سے مراد یہ کہ انسان دین اور نیکی کے کاموں سے بے پروا ہو جائے۔
مذموم غفلت کئی طرح کی ہوتی ہے:
وقتی وعارضی غفلت : وقتی غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان نیک طبیعت ہے، نیکی کے کام کرتا ہے۔ اعمال صالح کا خوگر ہے، مگر زندگی میں کسی لمحہ میں یا کسی مرحلے میں اس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اور اس سے گناہ کا صدور ہو جاتا ہے۔ پھر جیسے ہی توجہ ہوتی ہے تو اس روش کو ترک کردیتا ہے۔ یہ غفلت قلیل لمحہ کی ہوتی ہے۔ اس لئےاس کو عارضی غفلت کہا جاتا ہے:
’’ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔ ‘‘(اعراف۷:۱۰۲)
لمبی غفلت: اس سے ایسی غفلت مراد ہے جس میں انسان ایک لمبی مدت تک رہتا ہے اور مسلسل گناہ کرتا رہتا ہے۔ یہ فاجر و فاسق لو گوں کی غفلت ہے۔
کامل غفلت :یہ ایسی غفلت ہے جس میں انسان دائمی طور پر مبتلا رہتا ہے۔ اس کو اپنی غفلت کااحساس بھی نہیں ہو تا ہے۔ توجہ و یاددہانی اور تنبیہ کے باوجود وہ اس کیفیت سے باہر نہیں آتا بلکہ اس پر جما رہتا ہے۔ ایسی غفلت کفار و مشرکین پر طاری ہوتی ہے جن کو وقت کا نبی اللہ کا پیغام پہنچاتاہے، ان کے انجام سے ڈراتا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں :
’’ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور کفر کرنے والے بس دُنیا کی چندروزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔ ‘‘ (محمد : ۱۲) (جاری)