• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

رسم و رواج کی پابندی خوشی، اطمینان اور ترقی کے لئے رکاوٹ ہے!

Updated: July 19, 2024, 3:41 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

وہ رسم و رواج جن کی شریعت میں کوئی بنیاد نہ ہو، پائیدار خوشی اور قلبی اطمینان کی وجہ نہیں بن سکتے۔ اس وجہ سے کہ اگر وہ شریعت کے حکم کے مطابق نہیں ہیں تو وہ بدعت کے زمرے میں آئیں گے اور ایک حدیث کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وہ رسم و رواج جن کی شریعت میں کوئی بنیاد نہ ہو، پائیدار خوشی اور قلبی اطمینان کی وجہ نہیں بن سکتے۔ اس وجہ سے کہ اگر وہ شریعت کے حکم کے مطابق نہیں ہیں تو وہ بدعت کے زمرے میں آئیں گے اور ایک حدیث کے مطابق ہر بدعت گمراہی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”حمدوثنا اور صلوٰۃ و سلام کے بعد، سب سے بہترین کلام، اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین طریقہ محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا طریقہ ہے۔ بدترین امور وہ ہیں جو نئے جاری کئے جائیں، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ ‘‘ (مسلم)
 ہر صاحب عقل بآسانی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ گمراہی والے اعمال نہ ہی حقیقی خوشی دے سکتے ہیں اور نہ ہی قلبی سکون۔ جب ہم گمراہی کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو سب سے پہلی چیز جو ہمارے سامنے آتی ہے وہ جہالت ہے۔ انسانی سماج کا یہی وہ عنصر ہے جس نے ہر زمانے میں انسانوں کو گمراہ کیا ہے اور پھر وہ رسم و رواج کے جال میں پھنستے گئے ہیں۔ اس باب کا ہمیشہ سے ایک عجیب و غریب پہلو یہ رہا ہے کہ جہالت اور گمراہی کو کچھ نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے اور اس طبقے کا واحد مقصد مال اور جاہ و جلال کا حصول رہا ہے۔ گمراہی کو ہوا دینے والے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں مندرجہ ذیل تفصیل موجود ہے:
’’جس دن ان کے چہرے دوزخ میں اُلٹا دیئے جائیں گے، اس دن وہ کہیں گے : اے کاش ! ہم نے اللہ کی اوراس کے رسول کی فرمانبرداری کی ہوتی۔ اور وہ کہیں گے : اے ہمارے پررودگار ! ہم نے تو اپنے سرداروں اور بڑوں کی مان لی تھی، تو انہوں نے ہی ہمیں گمراہ کردیا تھا۔ پروردگار ! آپ ان کو دہرا عذاب دیجئے اور ان کو خوب پھٹکاریئے۔ ‘‘ (سورہ احزاب: ۶۶؍تا۶۸)
رسم و رواج کے معاملے میں گمراہی کی وجہ جو بھی ہو، گمراہ ہونے والوں کو دہرا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک نقصان تو دنیاوی ہے کہ رسم و رواج کا بوجھ انسان کی زندگی کو بوجھل بنا دیتا ہے اور وہ حقیقی خوشی اور اطمینان کو ترستے ہیں۔ دوسرا جو کہ بڑا نقصان ہے وہ آخرت کی زندگی کا ہے۔ ہر شخص کو اپنی گمراہی کے بقدر سزا کا سامنا ہوگا، جس کی سختی کا تصور بھی ہم نہیں کر سکتے۔ رسم و رواج کے اسیر لوگوں کا جب ہم دنیاوی ترقیاتی جائزہ لیتے تو ہم یہ پاتے ہیں کہ عموماً وہ لوگ جو مذہب کے نام پر بد عقیدگی کے شکار ہوتے ہیں اور بے بنیاد چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں وہ نسبتاً ترقی میں دوسروں سے پیچھے ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس صورت حال کے بعد بھی وہ اپنی زبوں حالی کے اسباب پر سنجیدہ غور نہیں کرتے اور نسل در نسل رسم و رواج اور گمراہی کی وراثت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ رسم و رواج کے تعلق سے ایک اہم بات ہمیں یہ سمجھنی چاہئے کہ ہم آنکھ بند کرکے اس پر عمل کر نے کے بجائے اس کو پہلے شریعت کی کسوٹی پر پرکھیں ؛ اگر اس کی بنیاد ہمیں شریعت کے ماخذ میں مل جائے تو ہم اسے اپنا لیں، بصورت دیگر اس سے جان چھڑائیں اور صحیح راستے کو اپنائیں۔ 
رسم و رواج اور گمراہی کے تعلق سے ایک چونکا دینے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ جاننے کے باوجود محض اپنے آس پاس کے لوگوں کے دباؤ میں یا رسم و رواج کو چھوڑنے پر طعنہ سننے کے ڈر سے بھی اپنے آپ کو گمراہی سے آزاد نہیں کراپاتے۔ ایسے لوگوں کی گمراہی اس وجہ سے بھی زیادہ قابل مواخذہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کا ایک اصول بنالیں کہ ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس کی اصل کتاب وسنت میں نہ ہو، جو صحابہؓ، تابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوا ہو اور نبی کریم ﷺ سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو؛ نہ قولا، ًنہ فعلاً، نہ صراحتاً اورنہ اشارتاً۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK