انسان کو جہاں بیرونی لوگوں کے ساتھ صبر کرنا ہوتا ہے وہیں اپنی اہلیہ کی غلطی یا چھوٹی موٹی خطا پر بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس کی خدمت پر لازمی شکرگزار ہونا چاہئے اور بیوی کو بھی اپنے شوہر کی عنایات، تحائف اور وابستگی پر شکر گزاری کا مظاہرہ اور خفگی اور ناراضی پر صبر کرنا چاہئے۔
نکاح درحقیقت ایک سماجی اور مذہبی بندھن کا نام ہے جس میںزوجین اپنی مرضی سے بندھتے ہیں۔ تصویر : آئی این این
نکاح خوشی کے موقعوں میں سے ایک انتہائی اہم موقع ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی برکت سے انسان کو برائیوں سے محفوظ و مامون فرما لیتے ہیں۔ اسی طرح اس رشتے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اولاد جیسی نعمت بھی عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے لئے لباس قرار دیا ہے۔ لباس انسان کے عیوب کو ڈھانپتا ہے اور اسے زینت بھی دیتا ہے۔ لباس سے انسان کی وجاہت و وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ درحقیقت دُلہا اور دلہن ایک دوسرے کی وجاہت میں اضافہ کرنے کا ذریعہ ہیں، ایک دوسرے کی زینت بھی ہیں اور ایک دوسرے کے عیوب کے محافظ بھی۔ شوہر اور بیوی میں جس قسم کی قربت، نزدیکی اور وابستگی پائی جاتی ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے رشتے میں موجود نہیں ؛ تاہم بہت سے لوگ اس رشتے کی قدر نہیں کرتے۔ کئی لوگ اپنی بیویوں کو لونڈی کی مانند سمجھتے اور ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ ان پر تسلسل کے ساتھ نکتہ چینی کرتے، ان کی تضحیک کرتے، ان کو ذہنی اذیت دیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت نمبر ۱۹؍ میں فرمایا ہے کہ ان سے اچھا برتائو کرو۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے ویسے ہی حقوق مقرر کیے ہیں جیسے مردوں کے حقوق ہیں لیکن مردوں کو یک گونہ فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ معیشت کے معاملات چلانا مرد کی ذمہ داری ہے۔ یہ رشتہ آقا و مالک کا رشتہ نہیں، نہ ہی یہ آمریت کا رشتہ اور نہ ہی غلامی کا رشتہ ہے۔ یہ تو خلوص، پیار، محبت، رفاقت اور اپنائیت والا رشتہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: رمضان کا پیغام اور رمضان کے بعد کی زندگی
نکاح درحقیقت ایک سماجی اور مذہبی بندھن کا نام ہے جس میں مرد بھی اپنی مرضی کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور عورت کی رائے کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ چنانچہ عورت کو اپنے پائوں کی جوتی سمجھنا یا زوجین کے کسی عیب یا مالی کمزوری کی وجہ سے اس کو اپنے سے کمتر سمجھنا کسی بھی طور پر جائز اور درست نہیں ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان اتفاق، اتحاد، پیار اور انس ہو تو اس کے خوشگوار اثرات اولاد پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ وہ بچے جن کے والدین ایک دوسرے کے ساتھ پیار، محبت اور احترام کرنے والے ہوتے ہیں ان بچوں میں بالعموم نفسیاتی کمزوریاں نہیں پائی جاتیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے خود اعتمادی اور قوت رکھی ہوتی ہے اس لئے کہ ان کی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہوتی ہے جس میں انہوں نے نفرت، تشدداور اذیت کے بجائے پیار، الفت، محبت و مؤدت کو دیکھا ہوتا ہے۔ والدین کے پیار اور محبت کے نتیجے میں اولاد کی تربیت پر ارتکاز ایک فطری بات ہے اور اس میں کوئی دقت و دشواری پیش نہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں اگر والدین آپس میں الجھتے ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوں تو اولاد کے معاملات بھی چڑچڑے پن، اکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہوں گے۔ والدین کے لڑائی، جھگڑوں اور آئے روز کے اختلافات کے بچوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچوں میں بھی نفرت، درشتی اور بدتمیزی والی باتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ رشتہ ایسا نہیں کہ جس میں انسان کو کبھی کوئی دقت اور تکلیف پیش نہ آئے۔ کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں انسان کو سمجھوتا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بات بیان فرمائی کہ کوئی بات تمہیں اچھی لگتی ہے اور وہ تمہارے لئے بری ہوتی ہے اور کوئی بات تمہیں بری محسوس ہوتی ہے مگر وہ تمہارے لیے اچھی ہوتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ کئی دفعہ ہم کسی ایسی چیز کو ناپسند کرتے ہیں جو ہمارے لیے بہتر ہوتی ہے اور کئی دفعہ ہم ایسی چیز کو پسند کرنے لگتے ہیں جو ہمارے لئے بری ہوتی ہے۔
انسان کو جہاں بیرونی لوگوں کے ساتھ صبر کرنا ہوتا ہے وہیں اپنی اہلیہ کی غلطی یا چھوٹی موٹی خطا پر بھی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اس کی خدمت پر لازمی شکرگزار ہونا چاہئے اور بیوی کو بھی اپنے شوہر کی عنایات، تحائف اور وابستگی پر شکر گزاری کا مظاہرہ اور خفگی اور ناراضی پر صبر کرنا چاہئے۔ جب بندہ ان باتوں پر عمل کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے گھر ایک مثالی گھرانہ بن جاتا ہے اور باہمی ہم آہنگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ نکاح کے نتیجے میں انسان کی سماجی اور مذہبی زندگی تکمیل کو پہنچتی ہے۔