• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

راہِ فرار اختیار کرنے والے

Updated: December 22, 2023, 1:46 PM IST | Hasan al-Banna Shaheed | Mumbai

لوگوں سے نرمی، حسن معاملہ، ان کی عیب پوشی اور ان سے رحم دلانہ برتائو آپؐ کی فطرت وجبلت میں شامل تھا (اور کیوں نہ ہوتا کہ آپؐ رحمۃ للعالمین تھے) اس لئے لوگ آپؐ سے معاملات کرتے ہوئے آپؐ کی ان صفات کو ذہن میں رکھتے تھے۔

It has been said in the Holy Quran that believers are always looking for a field of action and a calling. Photo: INN
قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ اہل ایمان ہمیشہ میدانِ عمل اور پکار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تصویر : آئی این این

’’اے نبیؐ، اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور آپ کےپیچھے چلنے پر آمادہ ہوجاتے‘، مگر اُن پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ اب وہ خدا کی قسم کھاکھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً آپ کے ساتھ چلتے۔ وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔ اے نبیؐ! اللہ آپ کو معاف فرمائے، آپ نے انہیں رخصت (ہی) کیوں دی (کہ وہ شریکِ جنگ نہ ہوں ) یہاں تک کہ وہ لوگ (بھی) آپ کے لئے ظاہر ہو جاتے جو سچ بول رہے تھے اور آپ جھوٹ بولنے والوں کو (بھی) جان لیتے۔ جو لوگ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی آپ سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردّد ہو رہے ہیں ۔ اگر واقعی اُن کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لئے کچھ تیاری کرتے۔ لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا۔ اس لئے اس نے انہیں سُست کردیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے تو آپ کے لئے محض شر و فساد ہی بڑھاتے اور آپ کے درمیان فتنہ پردازی کیلئے دَوڑ دھوپ کرتے، اور آپ کے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُن میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کی باتیں کان لگاکر سنتے ہیں ، اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور آپ کو ناکام کرنے کیلئے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کرچکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہوکر رہا۔‘‘ (سورہ توبہ: ۴۲؍تا ۴۸)
 سورئہ توبہ کی ان آیات میں لوگوں کے اس بڑے گروہ کا ذکر ہے جو کم سے کم قربانی دے کر زیادہ سے زیادہ فوائد و نفع سمیٹنا چاہتاہے۔ جب انہیں منزل کے حصول کیلئے محنت اور کامیابی پانے کے لئے بلایا جاتاہے تو وہ مختلف علتوں اور حیلوں کا سہارا لیتے ہیں اور فریب پر مبنی اپنی ان حرکات پر جھوٹی قسمیں کھاتے ہوئے کہتے ہیں : خدا کی قسم! اگر ہم جاسکتے تو آپ کے ساتھ ضرور جاتے… اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اپنے مکروخباثت میں انتہا کو چھوتے ہوئے غلط بیانی کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے کے لئے آپ سے اجازت و رخصت طلب کرتے ہیں ۔
 رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ اخلاق و مروت کی اعلیٰ مثال تھے، لوگوں سے نرمی، حسن معاملہ، ان کی عیب پوشی اور ان سے رحم دلانہ برتائو آپؐ کی فطرت وجبلت میں شامل تھا (اور کیوں نہ ہوتا کہ آپؐ رحمۃ للعالمین تھے) اس لئے لوگ آپؐ سے معاملات کرتے ہوئے آپؐ کی ان صفات کو ذہن میں رکھتے تھے۔ ان اجازت لینے والوں کو بھی اجازت مل جانے کا یقین و اطمینان ہوتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت بھی دے دی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو پیار بھرے انداز سے توجہ دلائی اور ارشاد ہوا کہ ’’ آپؐ نے انہیں کیوں رخصت دے دی ‘‘(آپؐ کو چاہئے تھا کہ آپؐ انہیں رخصت نہ دیتے) تاکہ آپؐ پر کھل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں (اور لوگ بھی ان پر اعتماد و بھروسہ کرتے) اور تاکہ آپؐ جھوٹوں کو بھی جان لیتے اور آئندہ کے لئے آپؐ بھی ان سے باخبر رہتے اور آپؐ کی اُمت بھی ان سے خبردار رہتی۔ اس طرح حفاظت کا بھی اہتمام ہوتا اور سزا کے مستحق افراد کو سزا بھی مل جاتی۔ 
عصمتِ انبیا ؑ
 اس آیت کے حوالے سے مفسرین نے انبیاء علیہم السلام کی عصمت پر طویل بحث کی ہے۔ اس امر پر اُمت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں تک پہنچانے، انہیں اللہ کا دین سکھانے اور رسالت سے متعلق ہر قول و فعل میں انبیائے کرام معصومِ کامل ہیں لیکن جہاں بات آئے گی کسی اجتہادی ذاتی رائے کی تو پھر ہم دیکھیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ احد میں اپنی رائے چھوڑ کر اپنے صحابہؓ کی رائے مان لیتے ہیں ۔ غزوئہ بدر میں حضرت خبابؓ بن المنذر کی رائے کو اپنی رائے پر ترجیح دیتے ہیں ۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ ایک نابینا ساتھی کے بارے میں سورئہ عبس کی آیات کا نزول ہو رہا ہے، قیدیوں سے فدیہ قبول کرلینے کے بارے میں آیات نازل ہو رہی ہیں لیکن ان تمام واقعات کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان مواقع پر کوئی گناہ یا عصمت کے منافی کوئی فعل سرزد ہوا بلکہ یہ تو وہ اجتہادی معاملات ہیں کہ اگر قرین صواب ہوئے تو دہرا اجر، وگرنہ اکہرا اجر تو ہر صورت میں محفوظ ہے۔ یہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی اپنے بندوں پر رحمت ہی کا ایک مظہر ہے تاکہ شریعت میں اسوئہ حسنہ اور پرستش کا فرق واضح ہوجائے۔
 اپنے حبیبؐ سے خطاب کا انداز ِالٰہی بھی دل و دماغ کو مسحور کر دینے والا ہے۔ اس سے رب ذوالجلال کے نزدیک حبیب کی قدر و منزلت بھی واضح ہوتی ہے کہ جس بات پر توجہ دلانی مقصود ہے اس کا ذکر بعد میں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے معافی کا ذکر پہلے: (ترجمہ) اللہ آپؐ کو معاف فرمائے، آپؐ نے انہیں کیوں رخصت دے دی۔
دو قسم کے گروہ
 پھرقرآن کریم لوگوں کی دو اقسام واضح کرتا ہے: ایک گروہ تو ہے مجاہدین کا اور دوسرا ہے بیٹھ رہنے والے ناکارہ لوگوں کا۔ مجاہدین تو ہمیشہ میدانِ عمل اور پکار کی تلاش میں رہتے ہیں جیسے ہی تحریک و تحرک کا حکم ملا فوراً میدان میں آن نکلے، کیونکہ وہ اللہ پر ایمان رکھتے اور اس کی راہ میں حقیقی جہاد کرتے ہیں ۔ وہ اپنے خالق کی رضا اور اسی سے جزا کا حصول اور اس کی سزا سے نجات پانا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ ﷺکا یہ ارشاد ہم تک پہنچاتے ہیں : ’’لوگوں میں سے بہترین زندگی اس کی ہے جو ہمیشہ اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگیں تھامے رہتا ہے۔ جب بھی جہاد کی ندا یا خوف کی کوئی صدا اس کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ اُڑتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔ راہِ خدا میں موت اور شہادت کا متلاشی۔‘‘ رہ گئے سستی کے مارے تو اُن کی بابت بھی سنئے: 
  سُستی کے مارے گھروں میں بیٹھے لوگ کٹ حجتی اور بودے عذر گھڑگھڑ کے رخصت و اجازت لینے کیلئے بحث و مباحثہ میں ہی پڑے رہتے ہیں ۔ یہ اس بات کی علامت و دلیل ہوتی ہے کہ اللہ اور روزِ آخرت پر ان کا ایمان ابھی ادھورا ہے کیونکہ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ کسی بھی شخص کو اللہ کی راہ میں نکلنے پر اُبھارنے والی ایمان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں اور اس راہ سے پیچھے رکھنے میں شک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ ایسے لوگ ہمیشہ شکوک و تردد ہی کا شکار رہتے ہیں ۔ وہ مسلسل اسی تردد کا شکار رہتے ہیں کہ راہِ خدا میں نکلنا ہے یا نہیں یہاں تک کہ خوف، بزدلی اور کمزوری ان پر غالب آگئی اور وہ بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے اس بیٹھے رہنے اور پیچھے رہ جانے میں بھی مجاہدین کیلئے خیرکثیر پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بے ہمتوں کے ساتھ رہنے سے مجاہدین کی قوت متاثر ہوتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا اپنے مخلص بندوں پر خصوصی انعام ہوا کہ اس نے ایسے عناصر سے جہاد کرنے اور غلبۂ دین کی خاطر نکل کھڑے ہونے کی توفیق سلب کرلی۔
 ارشاد ہوتا ہے:’’اگر وہ آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوتے تو آپ کے لئے محض شر و فساد ہی بڑھاتے اور آپ کے درمیان فتنہ پردازی کے لئے دَوڑ دھوپ کرتے۔‘‘ 
 وہ اہلِ ایمان میں سازشیں ، فتنے اور شکوک و شبہات ہی پھیلاتے۔ بات بے بات خود بھی اُکھڑجاتے، دوسروں کو بھی اکھاڑ دیتے۔ تکلیف دہ تبصرے اور جملے بازیاں کرتے، تقسیم کرنے اور اتحاد و وحدت کو نقصان پہنچانے والی باتیں بناتے، حتیٰ کہ سب پر بزدلی طاری ہوجاتی، بزدلی میں وہ تنہا نہ رہتے۔ کیونکہ ہرجگہ ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو ان باتوں سے متاثرہوتے ہیں ، پھر وہ جھوٹی باتوں کو بھی سچ جاننے لگتے ہیں ، افواہوں پر کان دھرتے ہیں ، یہ افواہیں اور غلط بیانیاں ان پر نفسیاتی اثر ڈالتی ہیں ، جس سے ان کے افعال و اعمال بھی یقینی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
 اس طرح کی صورت حال غزوئہ احد میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے ان اہلِ ایمان میں فتنہ پھیلا دیا جو دشمن کا سامنا کرنے کے لئے عملاً نکل کھڑے ہوئے تھے۔ وہ ان پر اپنا جادو پھونکنے لگا اور کانا پھوسی کرنے لگا: ’’ہم بھلا کیوں خواہ مخواہ نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ محمدؐ نے ہماری بات ماننے کے بجائے بچوں ، کم عمر اور ناتجربہ کار لوگوں کی بات مان لی ہے۔ آخر اس مقابلے اور تحرک کا فائدہ ہمیں کیا ہوگا؟ دھیرے دھیرے اس کی ان باتوں کا اثر پھیلنے لگا، بنوسَلمہ اورخزرج کے بعض افراد نے تو واپس جانے کا ارادہ کرلیا تھا جس سے پورا مشن ناکام ہوتا لیکن بالآخر اللہ نے انہیں ثبات سے نوازا اور ان کے بارے میں یہ وحی نازل ہوئی: ’’یاد کرو جب تم میں سے دو گروہ ناکام ہونے پر آمادہ ہوگئے تھے حالانکہ اللہ ان کی مدد پر موجود تھا‘‘ (آل عمران: ۱۲۲) ۔ اس کے باوجود وہ دشمنِ خدا خود اُلٹے پائوں واپس پھرگیا۔
 اس طرح کے لوگ کسی بھی لشکر اور کسی بھی تحریک کے لئے ان کے سخت ترین دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ ہزیمت کے داعی اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ایسے عناصر بہت خطرناک و نقصان دہ ہوتے ہیں لیکن دعوت کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتے، نہ اللہ کی نصرت آنے سے ہی روک سکتے ہیں۔ 
 سیرت صحابہؓ میں مذکور ہے کہ جنگ ِ یمامہ میں حصولِ نصرت میں کچھ تاخیر ہوئی تو ایک صحابیؓ نے اپنے قائد خالد بن ولیدؓ کو پکار کر کہا: خالد! لوگ ہلاک ہو رہے ہیں ، انصار اور مہاجرین کو دیگر افراد سے علاحدہ کر کے ان کے ذریعے ہلہ بولو۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے جائزہ لیا تو السابقون الاولون کی صفات رکھنے والے ۳؍ہزار ساتھی ملے۔ انہوں نے اسی تعداد پر بھروسا کیا اور فتح یاب ہوئے۔ بے شک ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‘‘(یوسف: ۲۱)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK