قرآن شریف میں ہماری ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی ایسے وفادار بندوں کے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیں جو بڑے سخت اور ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم رہے۔
EPAPER
Updated: December 27, 2024, 1:11 PM IST | Mohammad Manzoor Nomani | Mumbai
قرآن شریف میں ہماری ہدایت کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی ایسے وفادار بندوں کے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیں جو بڑے سخت اور ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم رہے۔
ایمان لانے کے بعد بندہ پر اللہ کی طرف سے جو خاص ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ بندہ پوری مضبوطی اور ہمت کے ساتھ دین پر قائم رہے اور خواہ زمانہ اس کے لئے کیسا ہی ناموافق ہوجائے، وہ کسی حال میں دین کا سرا ہاتھ سے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو۔ اسی کا نام ’’استقامت‘‘ ہے۔ قرآن شریف میں ایسے لوگوں کے لئے بڑے انعامات اور بڑے درجوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
’’بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں ) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہم دنیا کی زندگی میں (بھی) تمہارے دوست اور مددگار ہیں اور آخرت میں (بھی)، اور تمہارے لئے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لئے وہاں وہ تمام چیزیں (حاضر) ہیں جو تم طلب کرو، (یہ) بڑے بخشنے والے، بہت رحم فرمانے والے (رب) کی طرف سے مہمانی ہے۔ ‘‘ (حمٓ السجدہ: ۳۰؍تا۳۲)
سبحان اللہ! دین پر مضبوطی سے قائم رہنے والوں اور بندگی کا حق ادا کرنے والوں کے لئے اس آیت میں کتنی بڑی بشارت ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر جان و مال سب کچھ قربان کرکے بھی کسی کو یہ درجہ حاصل ہوجائے تو وہ بڑا خوش نصیب ہے۔ ایک حدیث میں ہے:’’رسول اللہ ﷺسے ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ ! مجھے کوئی ایسی نصیحت فرمائیے کہ آپؐ کے بعد پھر کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ ہو۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: کہو، بس اللہ میرا رب ہے، اور پھر اس پر مضبوطی سے جمے رہو، اور اس کے مطابق بندگی کی زندگی گزارتے رہو۔ ‘‘
قرآن شریف میں ہماری ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی ایسے وفادار بندوں کے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیں جو بڑے سخت اور ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم رہے اور بڑے سے بڑا لالچ اور سخت سے سخت تکلیفوں کا ڈر بھی ان کو دین سے نہیں ہٹا سکا۔ ان میں ایک واقعہ تو جادوگروں کا ہے جنہیں فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے کے لئے بلایا تھا اور بڑے انعام و اکرام کا ان سے وعدہ کیاتھا۔ لیکن خاص مقابلے کے وقت جب حضرت موسیٰؑ کے دین کی اور آپؑ کی دعوت کی سچائی ان پر کھل گئی تو انہوں نے نہ تو اس کی پروا کی کہ فرعون نے جس انعام و اکرام کا اور جن بڑے بڑے عہدوں کا وعدہ ہم سے کیا ہے، ان سے ہم محروم رہ جائیں گے اور نہ یہ فکر کی کہ فرعون ہمیں کتنی سخت سزا دے گا، بہرحال وہ ان تمام خطروں سے بے پروا ہوکر بھرے مجمع میں پکار اٹھے کہ
’’ہم ہارون اور موسٰی (علیہما السلام) کے رب پر ایمان لے آئے۔ ‘‘ (طٰہٰ : ۷۰)
پھر جب خدا کے دشمن فرعون نے ان کو دھمکی دی کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کٹوا کے سولی پر لٹکادوں گا، تو انہوں نے پوری ایمانی جرأت سے جواب دیا:’’(جادوگروں نے) کہا: ہم تمہیں ہرگز ان واضح دلائل پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے پاس آچکے ہیں، اس (رب) کی قسم جس نے ہمیں پیدا فرمایا ہے! تو جو حکم کرنے والا ہے کر لے، تُو فقط (اس چند روزہ) دنیوی زندگی ہی سے متعلق فیصلہ کر سکتا ہے، بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہماری خطائیں بخش دے اور اسے بھی (معاف فرما دے) جس جادوگری پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، اور اللہ ہی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ ‘‘ (طٰہٰ: ۷۲۔ ۷۳)
اور اس سے بھی زیادہ سبق آموز واقعہ فرعون کی بیوی کا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ فرعون مصر کی بادشاہت کا گویا اکیلا مالک و خودمختار تھا اور اس کی یہ بیوی ملکت ِ مصر کی ملکہ ہونے کے ساتھ خود فرعون کے دل کی بھی گویا مالک تھی۔ بس اس سے اندازہ کیجئے کہ اس کو دنیا کی کتنی عزت اور کیسا عیش حاصل ہوگا۔ لیکن جب موسیٰؑ کے دین اور آپؑ کی دعوت کی سچائی اللہ کی اس بندی پر کھل گئی تو اس نے بالکل اس کی پروا نہ کی کہ فرعون اُس پر کیسے کیسے ظلم کرے گا اور دنیا کے اس شاہانہ عیش کے بجائے اسے کتنی مصیبتیں اور تکلیفیں جھیلنی پڑیں گی، ان سب باتوں سے بے پروا ہوکر اس نے اپنے ایمان کا اعلان کردیا اور پھر حق کے راستے میں ایسی ایسی تکلیفیں اٹھائیں جن کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ درجہ ملا کہ قرآن شریف میں بڑی عزت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا اور مسلمانوں کے لئے ان کے صبر اور ان کی قربانی کو نمونہ بتلایا گیا۔ ارشاد ہے:
’’اور اللہ نے اُن لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں زوجۂ فرعون (آسیہ بنت مزاحم) کی مثال بیان فرمائی ہے، جب اس نے عرض کیا: اے میرے رب! تو میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا دے اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عمل ِ (بد) سے نجات دے دے اور مجھے ظالم قوم سے (بھی) بچا لے۔ ‘‘ (التحریم: ۱۱)
سبحان اللہ! کیا مرتبہ اور کیا شان ہے کہ ساری امت کے لئے یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ سے لے کر قیامت تک کے سب مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بندی کی استقامت کو مثال اور نمونہ قرار دیا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ مکہ معظمہ میں جب مشرکوں نے مسلمانوں کو بہت ستایا اور ان کے ظلم حد سے بڑھ گئے تو بعض صحابہ نے رسولؐ اللہ سے عرض کیا کہ : حضورؐ! اب ان ظالموں کے ظلم حد سے بڑھ رہے ہیں ، آپؐ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ ‘‘ حضورؐ نے جواب دیا کہ ’’تم ابھی سے گھبرا گئے ؟ تم سے پہلے حق والوں کے ساتھ یہاں تک ہوا ہے کہ لوہے کی تیز کنگھیاں ان کے سروں میں پیوست کرکے نکال دی جاتی تھیں اور کسی کے سر پر آرہ چلا کر بیچ سے دو ٹکڑے کردیئے گئے تھے لیکن ایسے سخت وحشیانہ ظلم بھی ان کو اپنے سچے دین سے نہیں پھیر سکتے تھے اور وہ اپنا دین نہیں چھوڑتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہم کمزوروں کو بھی اپنے سچے بندوں کی ہمت اور استقامت کا کوئی ذرہ نصیب فرمائے اور اگر ایسا کوئی وقت مقدر ہو تو اپنے ان وفادار بندوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ (آمین)