• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نماز اور زکوٰۃ یہی دو چیزیں دین کی اصل عملی بنیادیں ہیں

Updated: February 22, 2025, 4:32 PM IST | H Abdul Raqib | Mumbai

آج ہمارے معاشرے میں الحمدللہ کلمۂ شہادت کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے محنت ہورہی ہے ۔ نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہورہا ہے لیکن ایتائے زکوٰۃ جو دراصل ملّت کے فقراء و مساکین کا حق ہے، اس کی طرف توجہ کم ہے۔

Many problems of the society can be solved through the collective system of Zakat. Photo: INN
زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے ذریعے معاشرے کے کئی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

دین اسلام کا تیسرا بنیادی ستون زکوٰۃ ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایمان کے بعد صرف دو اعمالِ صالحہ کا تذکرہ آیاہے: ایک نماز کا، دوسرا زکوٰۃ کا۔ یعنی جب ایک معیاری مومن کا تصور سامنے لانا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے صالح اعمال کئے، نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی، ان کے لئے ان کے ربّ کے پاس اجر ہوگا۔ ‘‘ (البقرہ : ۲۷۷)
حالانکہ نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ایسے بہت سے اچھے اعمال و اخلاق ہیں جن کا اہتمام معیاری مومن و مسلم بننے کے لئے ضروری ہے۔ پھر قرآن حکیم ایسا اندازِ بیان کیوں اختیار فرماتا ہے؟ اور معیاری مومن و مسلم کا تصور دلانے کے لئے اکثر ایمان کے بعد صرف نماز اور زکوٰۃ ہی کا نام لے کر خاموش کیوں ہوجاتا ہے؟ دوسری نیکیوں کا ذکر کیوں نہیں کرتا؟
ظاہرہے کہ گفتگو کا یہ انداز اس نے بلاوجہ تو اختیار نہیں کیا ہے۔ غور کیجئے تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہ مل سکے گی کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نماز اور زکوٰۃ یہی دو چیزیں دین کی اصل عملی بنیادیں ہیں۔ جس نے ان دونوں فرائض کو اچھی طرح ادا کرلیا، اس نے گویا پورے دین پر عمل کرنے کی پکی ضمانت اور عملی شہادت فراہم کردی اور اب اس سے اس بات کا کوئی واقعی اندیشہ باقی نہیں رہا کہ دوسرے احکامِ شریعت سے بے نیازی کا برتائو کرے گا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بات کا جواب آپ کو ایک طرف دین کی اور دوسری طرف نماز و زکوٰۃ کی حقیقتوں اور غایتوں پر نظر ڈالتے ہی مل جائے گا۔ احکامِ دین کی اصولی تقسیم کیجئے تو ان کی دو ہی قسمیں ہوسکیں گی۔ ایک قسم ان احکام کی ہوگی جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق سے ہے۔ دوسری قسم ان احکام کی ہوگی جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے۔ اس طرح دین کی پیروی دراصل اس بات کا نام ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق دونوں سے عہدہ برآ ہوجائے۔ 
نماز انسان کو اللہ اور آخرت کی طرف لے جاتی ہے تو زکوٰۃ اسے دُنیا کی طرف لڑھک جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ یعنی اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ اگر کڑی چڑھائی کا راستہ ہے تو یہ دونوں چیزیں اس راستے پر سفر کرنے والے انسانی عمل کی گاڑی کے دو انجن ہیں۔ نماز کا انجن اسے آگے سے کھینچتا ہے اور زکوٰۃ کا انجن اسے پیچھے سے دھکیلتا ہے اور اس طرح یہ گاڑی اپنی منزل کی طرف برابر بڑھتی رہتی ہے۔ جب صورتِ واقعہ یہ ہے تو ان دونوں چیزوں (نماز اور زکوٰۃ) کو یہ حق لازماً پہنچنا چاہئے کہ انہیں دین کی اصل عملی بنیادیں قرار دیا جائے۔ 
زکوٰۃ کی اہمیت
آج ہمارے معاشرے میں الحمدللہ کلمۂ شہادت کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے محنت ہورہی ہے۔ نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہورہا ہے۔ نہ صرف فرائض بلکہ نوافل میں تہجد، چاشت اور صلوٰۃ التسبیح وغیرہ پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ لیکن ایتائے زکوٰۃ جو دراصل ملّت کے فقراء و مساکین کا حق ہے، اس کی طرف توجہ کم ہے۔ حالانکہ قرآنِ حکیم اور سنت ِ رسولؐ کی تعلیمات کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں نماز کے ساتھ ہمیشہ زکوٰۃ کا مکلف بھی بنایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے درمیان گہرا ربط ہے اور ایک مسلمان کے اسلام کی تکمیل ہی ان دونوں سے ہوتی ہے۔ نماز اسلام کا ستون ہے۔ جس نے اسے قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے اسے ڈھا دیا اس نے دین کی ساری عمارت کو منہدم کردیا۔ اور زکوٰۃ اسلام کا پُل ہے جو اس پر سے گزر گیا، وہ نجات پاگیا اور جو اس سے اِدھر اُدھر ہوگیا وہ ہلاکت میں جاپڑا۔ 
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں : ’’جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتا اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ)
قرآن کا صریح حکم ہے کہ کسی فرد کے اسلام لانے کو اسی وقت معتبر مانا جائے گا، جب وہ نماز قائم کرنے لگے اور زکوٰۃ دینے لگے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ’’اگر یہ لوگ کفر سے توبہ کرلیں، نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ ‘‘(التوبہ :۵)۔ آگے چل کر پھر فرمایا:
’’ سو اگر یہ لوگ توبہ کرلیں، نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو اب وہ تمہارے دینی بھائی ہوں گے۔ ‘‘(التوبہ :۱۱)
کلام اللہ کی یہ صراحتیں بتاتی ہیں کہ کسی غیرمسلم کا مسلمان قرار پانا کلمۂ شہادت ادا کرنے کے بعد بھی دو باتوں پر موقوف ہے: ایک یہ کہ وہ نماز قائم کرے، دوسرے یہ کہ وہ زکوٰۃ ادا کرے۔ جب تک وہ ایسا نہیں کرتا اس کا مسلمان ہونا قابلِ تسلیم نہیں ہوسکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر سے تائب ہوکر دائرۂ اسلام میں آنے کے لئے زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ایک ضروری علامت اور لازمی شرط ہے۔ اسی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے حکم دیا گیا کہ ان لوگوں (اہل عرب) سے جنگ کرتا رہوں، یہاں تک کہ وہ اللہ ہی کے معبود ہونے اور محمدؐ کے رسول اللہ ہونے کی گواہی دے دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تبھی مجھ سے اپنی جانوں اور اپنے مالوں کو محفوظ پاسکیں گے اور اس کے بعد ان کا حساب لینا اللہ کا کام ہے۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الایمان)
دورِ نبویؐ میں زکوٰۃ کا نظام
دورِ نبویؐ میں زکوٰۃ کا نظام کیا تھا؟ اس پر غور کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی وصولی کے لئے باقاعدہ ایک نظم قائم کیا جس کے چند اہم شعبے کچھ اس طرح تھے:
 ۱- عمال الصدقات یا عاملین صدقات: زکوٰۃ وصول کرنے والے افسران۔ 
 ۲- کاتبین صدقات: حساب کتاب کے انچارج۔ 
 ۳- خارصین: باغات میں پھلوں کی پیداوار کا تخمینہ لگانے والے۔ 
 ۴- عمال علی الحمٰی: مویشیوں کی چراگاہ سے محصول وصول کرنے والے۔ 
۱- عاملین صدقات: عاملین صدقات کے لئے آپؐ نے بڑے بڑے صحابہ کا انتخاب فرمایا جن میں امانت و دیانت، احساسِ ذمہ داری اور اعلیٰ درجے کی صلاحیتیں ہوتی تھیں اور آپؐ نے انہیں مختلف قبیلوں کی طرف بھیجا، مثلاً حضرت عمرؓ کو مدینہ کے اطراف، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو بنوکلب، حضرت عمرو بن عاصؓ کو قبیلہ فزارہ، حضرت عدی بن حاتمؓ کو قبیلہ طے اور حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کو مزینہ اور کنانہ قبیلے کی طرف۔ یہ عاملین ان قبیلوں کے مزاج اور نفسیات سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور ان کی مدد کے لئے مقامی عاملین بھی متعین تھے۔ ان عاملین صدقات کو ایک پروانۂ تقرر ملتا تھا اور وصولی کرنے کیلئے ہدایات (Code of Conduct) بھی۔ مثلاً زکوٰۃ میں عمدہ مال وصول نہ کریں، زکوٰۃ دینے والوں کے مقام پر جاکر وصول کریں اور وصول یابی کے بعد ان کیلئے دُعائے خیر کریں۔ مذکورہ قبیلے کو بھی ہدایت کی جاتی تھی کہ وصول کنندہ جب ان کے پاس آئے تو حُسنِ سلوک کریں تاکہ وہ خوشی سے واپس جائے۔ آپؐ نے یہ ارشاد فرمایا:
’’حق و انصاف کے ساتھ زکوٰۃ کا وصول کرنے والا اللہ کے راستے میں جنگ کرنے والے کے مانند ہے یہاں تک کہ وہ عامل اپنے گھر کو لوٹ جائے۔ ‘‘ (ابوداؤد، کتاب الخراج) 
اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کا محاسبہ کرتے اور ان کی تنخواہ یا مشاہرہ مقرر فرماتے۔ امام بخاریؒ نے کتاب الزکوٰۃ میں ایک باب والعاملین علیھا میں محاسبۃ المصدقین مع الامام کا ذکر کیا ہے۔ (باقی صفحہ ۸؍پر)
۲- کاتبین صدقات: مالی نظام کے حساب کا باقاعدہ شعبہ دورِ نبویؐ میں موجود تھا۔ حضرت زبیر بن عوامؓ اسلامی ریاست کے صدقات کے کاتب تھے اور وہی سارا حساب کتاب رکھا کرتے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں حضرت جہیم بن صلتؓ اور حضرت حذیفہ بن الیمانؓ صدقات کی آمدنی کے ذمہ دار تھے۔ 
۳- خارصین (پیداوار کا تخمینہ لگانے والے عاملین): عہدنبویؐ میں ایک عہدہ ’خارصین‘ یعنی افسران برائے تخمینہ ٔپیداوار کا تھا، جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی بناپر کھجور وغیرہ کے باغوں کی پیداوار کا اندازہ لگاتے کہ باغ کی کُل پیداوار کتنے وسق (ایک وسق یعنی کم و بیش ہو۱۳۰؍ کلب ۵۰۰؍ گرام ) ہوگی اور اس میں زکوٰۃ کی واجب مقدار کتنی ہوگی؟ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک ماہر خراص تھے۔ غزوئہ تبوک کے سفر میں آپؐ نے ایک مسلمان خاتون کے باغ کی پیداوار کا تخمینہ لگایا تھا کہ اس کی پیداوار دس وسق ہوگی اور آپؐ کا تخمینہ بالکل درست ثابت ہوا (بخاری)۔ صحابہ کرامؓ میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اس میں ماہر شمار کئے جاتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ہرسال خیبر کی پیداوار کا تخمینہ لگانے کے لئے بھیجا کرتے تھے۔ 
۴- عاملین علی الحِمٰی: دورِ نبویؐ میں مختلف قبیلوں سے مویشیوں کی زکوٰۃ کی وصول یابی کے لئے عاملین مقرر تھے، مثلاً حضرت ذرین بن ابی ذرؓ قبیلہ غفار کے لئے، حضرت ابورافعؓ ذوالجدر کے لئے، حضرت سعد بن ابو وقاصؓ قریش اور زہرہ کے لئے، حضرت بلال بن حارثؓ مزینہ قبیلے کے لئے مامور کئے گئے تھے۔ 
ادائیگی زکوٰۃ کے لئے عوامی بیداری
ملت کے اندر بڑے پیمانے پر یہ بیداری اور شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ نماز کی طرح زکوٰۃ بھی دینِ اسلام کی اہم ترین بنیادوں میں سے ایک ہے اور دورِ نبویؐ اور دورِ خلفائے راشدین میں کس طرح اجتماعی نظمِ زکوٰۃ جاری و ساری تھا۔ اس کے علاوہ خاص طور پر قرآن حکیم کی سورئہ توبہ کی آیات (آیت۶۰ اور ۱۰۳) کو اُجاگر کرنا چاہئے جن میں بتایا گیا ہے کہ زکوٰۃ کے مستحقین کون کون ہیں اور زکوٰۃ کو وصول کرنے الے کون ہیں اور اس کی تقسیم کی ذمہ داری کس پر اللہ تعالیٰ نے عائد کی ہے۔ 
قرآن حکیم نےآٹھ قسم کے لوگوں کو زکوٰۃ کا مستحق قرار دیا ہے:
’’ صدقات (یعنی زکوٰۃ) اللہ کی طرف سے مقرر کردہ فرض ہے فقراء کے لئے، مساکین کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو زکوٰۃ کی وصول و تقسیم پر مقرر ہیں اور ان کے لئے جن کی تالیف ِ قلب مقصود ہو اورگردن چھڑانے کے لئے اور قرض داروں کے لئے اور راہِ خدا اور مسافروں کے لئے۔ اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ ‘‘ (التوبۃ :۶۰)
زکوٰۃ کے جن آٹھ مصارف کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ یہ ہیں : (۱)فقراء غریب (۲) مساکین: نادار (۳)عاملین:زکوٰۃ کو اکٹھا اور تقسیم کرنے والے (۴)تالیفِ قلب :جن کے دلوں کو اسلام کی طرف راغب کرنا ہے (۵)رقاب: غلاموں کو چھڑانے کے لئے (۶)غارمین: قرض دار (۷) فی سبیل اللہ: اللہ کی راہ میں (۸)ابن السبیل: مسافروں کے لئے۔ 
نظامِ زکوٰۃ کی ذمہ داری
قرآنِ حکیم کا فرمان ہے:
’’اے نبیؐ ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں ) انہیں بڑھائو۔ ‘‘(التوبۃ :۱۰۳) 
دراصل زکوٰۃصرف انفرادی طور پر صدقات اور خیرات کو تقسیم کرنے کا نام نہیں ہے اور نہ اس کی تقسیم کو امیروں کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا ہے، بلکہ یہ ایک سماجی اور فلاحی ادارہ ہے۔ قرآن حکیم میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کن لوگوں پر اور کن مَدات پر خرچ کی جائے، وہاں محکمۂ زکوٰۃ کے سرکاری کارندوں (وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا) کا ذکر بھی ایک مستقل حیثیت سے کیا گیا ہے۔ 
مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ان کے مالوں میں سے صدقہ حاصل کرو اور انہیں پاک کرو اور ان کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو بڑھائو۔ ‘‘ اس میں خُذْ (حاصل کرو) کا خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ حیثیت سربراہِ مملکت کے ہے اور اس پر عمل خلیفۂ راشد حضرت ابوبکرؓ نے بہ حیثیت خلیفۂ رسولؐ کیا، اور اس پورے عمل کو جاری وساری رکھا۔ زکوٰۃ کی وصولی، عمال کا تقرر اور اس کی تقسیم کا پورا ڈھانچہ باقی اور برقرار رکھا۔ علما وفقہا نے تصریح کی ہے کہ خُذْ کا اطلاق اوّلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا اور آپؐ کے بعد ہراُس شخص پر ہے جو ملّت کا ذمہ دار ہے۔ 
 دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح زکوٰۃ کے اجتماعی نظم کے قیام کی ضرورت ہے۔ معاشرے کے مخلص اور باصلاحیت افراد جن میں سماجی خدمت کا جذبہ ہو اور جن کی قابلیت پر اعتماد کیا جاسکتا ہو، وہ ہرچھوٹے بڑے شہر میں ایک اجتماعی شکل اختیار کریں اور زکوٰۃ کا ایک اجتماعی نظم قائم کرنے کی سعی و جہد کریں۔ معاشرہ کے ہرطبقہ میں اجتماعی نظمِ زکوٰۃ کی ہمہ گیر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ ان شاء اللہ چندبرسوں میں اس کے مفید اور مؤثر نتائج سامنے آئیں گے اور اس طرح اقامت ِالصلوٰۃ اور ایتاء الزکوٰۃ سے ایک متوازن اور متمول اسلامی معاشرہ وجود میں آئے گا جو اپنی مثال آپ ہوگا اور خیراُمت کی حیثیت سے یہ دوسرے معاشروں کے لئے بھی دعوتِ دین کا باعث ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK