ایمان کا پورا دائرہ محبت کے گرد گھومتا ہے۔ اول بھی محبت ہے اور آخر بھی محبت ہے۔ پس اللہ، اس کے رسولؐ اور دین کی محبت سب محبتوں پہ غالب ہونی چاہئے
EPAPER
Updated: November 29, 2024, 10:02 PM IST | Doctor Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai
ایمان کا پورا دائرہ محبت کے گرد گھومتا ہے۔ اول بھی محبت ہے اور آخر بھی محبت ہے۔ پس اللہ، اس کے رسولؐ اور دین کی محبت سب محبتوں پہ غالب ہونی چاہئے
محبت اگر خالص ہو تو زندگی کی ترجیحات مقرر کرتی ہے۔ ایک محبت وہ ہے جس کا ہم لوگ دعویٰ کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں۔ یہ خالی محبت ہوتی ہے۔ زندگی میں اس کا وجود نہیں ہوتا، بس ایسے ہی نعرہ بازی ہوتی ہے۔ حالاں کہ محبت نعرہ بازی کا نام نہیں ہے بلکہ محبت زندگی کی ترجیحات کا عملی تعین کرتی ہے اور پہلے سے موجود ترجیحات کو تبدیل کر دیتی ہے۔ اگر محبت صحیح ہو تو ترجیحات(Priorities) اور ہو جاتی ہیں۔ دنیاوی ترجیحات کی اور سمت ہے جبکہ محبت الٰہی اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی زندگی کی ترجیحات کی ایک الگ سمت ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘ (البقرة: ۱۶۵)۔ اس آیت مبارکہ میں ایک موازنہ ہے۔ ایک طرف فرمایا: ’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں‘‘۔ وہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں فرمایا:’’وہ اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘ اَشَدُّ فرماکر مبالغے کا صیغہ استعمال کیا کہ ’’وہ اللہ کی محبت میں بہت شدید ہوتے ہیں‘‘۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے بارے میں کہا کہ وہ اللہ کی محبت میں بہت شدید ہیں تو دوسری طرف مقابلے میں یہ بھی تو کہا ہوتا کہ ’’جو بہت مضبوط ایمان والے ہیں۔‘‘ یعنی جو بہت پختہ، اونچے درجے اور کامل ایمان کے حامل ہیں وہ لوگ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔
اس اسلوب کو اختیار کرنے سے واضح ہوا کہ محض ایمان والا ہونا بھی اس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک اللہ یا اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں شدت نہ ہو۔ اس امر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر عام درجے کا ایمان اللہ اور اُس کے رسولؐ کی محبت کی شدت مانگتا ہے تو اعلیٰ درجے کا ایمان محبت میں کس درجہ کی شدت کا متقاضی ہوگا؟ گویا ایمان میں جوں جوں ترقی ہوگی اُسی نسبت سے شدتِ محبت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ایمان کی بنیاد محض محبت سے نہیں شدید محبت سے شروع ہوتی ہے۔
پس معلوم ہوا کہ محبت زندگی کی ساری ترجیحات اور سمتوں کو تبدیل کر دیتی ہے۔ یہ تبدیلی کیسے ہوتی ہے؟ آیئے قرآن مجید کی روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ رب العالمین نے ارشاد فرمایا: ’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘(التوبة:۲۴)
اس آیت مبارکہ میں دُنیا میں موجود محبت کی درج ذیل اقسام کا ذکر کیا گیا ہے:
(۱) اولاد کی والدین سے محبت: محبت کی اقسام میں سے پہلی قسم اولاد کی والدین سے محبت ہے جو کہ مذکورہ آیت میں لفظ اٰبَآؤُکُمْ سے واضح ہے۔ محبت میں والدین کی عزت، ادب، احترام اور اُن کی خدمت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔ اولاد کی والدین کے ساتھ محبت کا خمیر، مزاج اور نیچر ایسی ہے کہ اُس میں ادب، احترام، خدمت اور چاہت کا مزاج غالب رہتا ہے۔ یعنی بندوں کے ساتھ ایسی محبت جس میں عزت، ادب، احترام اور خدمت کا جذبہ غالب ہے۔
(۲) والدین کی اولاد سے محبت: مذکورہ آیت کریمہ میں لفظ اَبْنَآؤُکُمْ کے تحت محبت کی دوسری قسم والدین کی اولاد سے محبت کا ذکر ہے۔ گویا ان الفاظ کے ساتھ بیان نے اس امر کو واضح کردیا کہ قرآن مجید اس بات کی تصدیق کررہا ہے کہ اولادکو اپنے والدین سے اور والدین کو اپنی اولاد سے محبت ہے اور ہوگی۔ والدین کو جو محبت اولاد کے ساتھ ہے اس کی فطرت مختلف ہے، اتنی الگ کہ اس میں بندہ اپنی جان بھی دے دیتا ہے۔ یہ محبت اس حد تک چلی جاتی ہے کہ جب اُس اولاد کی اپنی شادی ہو جاتی ہے، اس کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں تو اب ایک طرف اُس کے والدین ہوتے ہیں اور ایک طرف اُس کی اولاد ہوتی ہے مگر اب اس کا مرکز والدین سے بھی بڑھ کر اپنی اولاد کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے وہ اولاد تھا، والدین سے محبت کا ایک منظر تھا، اب جب وہ خود والد بن گیا تو اب اس کے سامنے دو سرے ہیں اور وہ درمیان میں کھڑا ہے۔ ایک سرا اٰبَآؤُکُمْ کی صورت والدین سے محبت کا ہے اور دوسرا ا اَبْنَآؤُکُمْکی صورت میں اپنی اولاد سے محبت ہے۔
(۳) بیوی کی محبت: مذکورہ آیت میں وَاَزْوَاجُکُمْ (تمہاری بیویاں) کے ذریعے محبت کی تیسری قسم کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کا فطری طور پر بیوی کے ساتھ جو رشتہ بنایا ہے یا بیوی کا شوہر کے ساتھ جو رشتہ بنایا ہے یہ انسان کے اپنے بشری وجود کی محبت کی کیٹگری ہے۔
(۴) رشتہ داروں کی محبت: وَعَشِيْرَتُکُمْ فرماکر رشتہ داروں کی محبت کو بھی اقسامِ محبت میں شامل فرمایا۔ اُن کی محبت کی شدت مذکورہ محبتوں سے درجے میں کم ہوتی ہے مگر ہوتی ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ اس میں برادریاں اور قبیلہ و خاندان کی محبت بھی آگئی ۔
(۵) کاروبار، تجارت کی محبت: پانچویں قسم کاروبار اور تجارت کی محبت ہے۔ اسے مذکورہ آیات میں وَتِجَارَةٌ کے ذریعے بیان فرمایا۔ اس کاروبار و تجارت کیلئے انسان رات دن محنت کرتا ہے، یہ اُس کی اپنی زندگی کی ضرورت ہے۔ لہٰذا انسان اسے اپنے ہاتھوں سے پوری توجہ کے ساتھ سنبھالتا ہے اور اس کی محبت میں جیتا ہے۔
(۶)گھروں کی محبت: رہائش گاہیں مَسٰکِنُ کی محبت میں شامل ہے۔ انسان انہیں بناتا سنوارتا ہے اور اپنی زندگی کا ایک حصہ اس کے حصول و آرائش پر خرچ کرتا ہے۔
اس آیت کریمہ میں جتنی اقسام کی محبتیں دنیا میں انسان کی زندگی میں ہو سکتی ہیں، وہ ساری اللہ تعالیٰ نے یہاں جمع کر دی ہیں۔ انسان کی (محبت) انسانوں کے ساتھ، انسان کی (محبت) مال کے ساتھ، انسان کی (محبت) رشتوں کے ساتھ، انسان کی (محبت) رہائش گاہوں کے ساتھ، انسان کی (محبت) دنیا کے ساتھ، گویا جتنے رشتے بن سکتے ہیں اُن کی ساری قسموں کو جمع کرلیا اور جمع کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:
(یہ تمام محبتیں اگر) تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (عذاب) لے آئے۔‘‘(التوبة:۲۴)
معلوم ہوا کہ اگر ہماری زندگی میں یہ ترجیحات اور یہ محبتیں (دیگر محبتیں) بڑھ گئیں تو بربادی ہے۔ افسوس! ہم نے اپنا معاملہ اُلٹ کر رکھا ہے۔ اللہ سے بھی محبت ہے، رسول سے بھی محبت ہے، دین سے بھی محبت ہے مگر جو محبت غالب ہے وہ اولاد، والدین، بیوی، کاروبار اور مکان کی محبت ہے۔ جن محبتوں کو اللہ مغلوب کرنا چاہتا ہے وہ ہماری زندگی میں غالب ہیں اور جس محبت کو غالب دیکھنا چاہتا ہے وہ ہماری زندگی میں مغلوب ہے۔ محبت کے دو درجے ہم نے الٹ کر رکھے ہیں، سر نیچے اور پاؤں اوپر کردیئے ہیں، اس کی وجہ سے ہماری زندگی کی ترجیحات بھی بدل گئیں، ہمارے اعمال بھی صحیح رخ پر نہیں رہےکیونکہ محبتوں کا جو تناسب ہے اُسے ہم نے خلط ملط کر دیا ہے۔
ہم میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کئی حوالوں سے بہت سے فرق ہیں مگر اُن فرقوں کی بنیاد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ایک جملے سے سمجھ میں آتی ہے۔ غزوہ بدر میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا ابھی تک مسلمان نہ ہونے کے باعث کفار و مشرکین کی طرف سے لڑ رہا تھا جبکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہے تھے۔ قبول اسلام کے بعد اس بیٹے نے ایک دن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ غزوہ بدر کے موقع پر دو بار آپ کی گردن میری تلوار کی زد میں آئی تھی مگر میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا کی عزت کی قسم! اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں آ جاتی تو میں تمہیں بیٹا سمجھ کر کبھی نہ چھوڑتا۔ بیٹے کی محبتوں کی اپنی ترجیحات صحیح تھیں اس لیے کہ اگر باپ اِدھر ہے بیٹا اُدھر ہے تو اُس کی ترجیح کفر والی تھی کہ باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ترجیح ایمان والی تھی۔ اس لئے فرمایا کہ بیٹا سمجھ کر کبھی نہ چھوڑتا۔
ہماری زندگیوں میں ایمان کی محبت پر مبنی ترجیحات درہم برہم ہوگئی ہیں۔ اس کا اثر ہماری زندگی کی ترجیحات اور اس کی سمتوں پر بھی ہو رہا ہے اور روزمرہ کی زندگی پر رات دن ہو رہا ہے۔ محبت صرف برائے نام رہ گئی ہے جبکہ ترجیحات اپنی دنیاوی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق ہم خود بناتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت سے ہم رہنمائی نہیں لیتے۔ اللہ اور اللہ کے رسول ؐ کی محبت ہماری ترجیحات کا تعین نہیں کرتی، وہ ہمارے معمولات و معاملات کنٹرول نہیں کرتی بلکہ ہم اپنے نفس اور دنیا کے ہاتھ سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے جہاں اپنی بات کی،اُس جگہ فرمایا:
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘(آل عمران:۳۱) غور کیجئے اللہ رب العزت نے اس آیت میں اپنی محبت کے حصول کے طریقے کا ذکر کیا اور اپنی اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو یہاں بھی ایک کر دیا کہ طریقہ یہ ہے کہ پھر میرے محبوب کی اتباع کرو۔ یاد رکھیں! اتباع محبت سے ہوتی ہے۔ فَاتَّبِعُوْنِیْ فرما کر واضح کردیا کہ اگر محبت مجھ سے کرتے ہو تو پھر زندگی کی ترجیحات اپنی مرضی سے مقرر نہ کرو بلکہ میرے محبوب کی مرضی سے مقرر کرو۔
جب بندہ اللہ کا محبوب بن جائے تو پھر اُس کے درجات کی کوئی حد ہی نہیں۔ جیسے بندہ اپنے محبوب کیلئے کوئی حد نہیں رکھتا اسی طرح اللہ بھی اپنے محبوب بندوں کیلئے کوئی حد نہیں رکھتا۔ گویا ایمان کا پورا دائرہ محبت کے گرد گھومتا ہے۔ اول بھی محبت ہے اور آخر بھی محبت ہے۔ پس اللہ، اس کے رسولؐ اور دین کی محبت سب محبتوں پہ غالب ہونی چاہئے، جب تک یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئے گی ہم محبت کے ہزار دعوے کریں، محبت کا حق ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے، اللہ ہمیں حب رسولؐ کے تقاضوں کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔ n