معراج کا سفر آپؐ کا وہ عظیم الشان معجزہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ زیرنظر مضمون میں سفر معراج کے اسباب اور سورہ بنی اسرائیل اور سورہ النجم کی آیتوں کی روشنی میں آپؐ کو عطا ہونے والی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے
EPAPER
Updated: January 24, 2025, 10:57 PM IST | Shaikh Hammad Mustafa Almadni Alqadri | Mumbai
معراج کا سفر آپؐ کا وہ عظیم الشان معجزہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے۔ زیرنظر مضمون میں سفر معراج کے اسباب اور سورہ بنی اسرائیل اور سورہ النجم کی آیتوں کی روشنی میں آپؐ کو عطا ہونے والی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے
قرآن مجید کے بعد آپﷺ کے تمام معجزات میں سے سب سے بڑا معجزہ ’’سفرِ معراج‘‘ ہے۔ اس سفر میں حضور نبی اکرمﷺ نے عالمِ مکاں سے عالمِ لامکاں تک کا سفر کیا اور نہ صرف اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے بلکہ اللہ رب العزت کا بے حجاب دیدار کیا۔ آپﷺ کو یہ عظیم معجزہ کیوں عطا فرمایا گیا؟ اس حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ معجزہ معراج کے تین اسباب و وجوہات ہیں، جن کی بناء پر اللہ رب العزت نے اپنے حبیبﷺ کو اپنے پاس بلا کر اپنا دیدار کروایا اور ان سے ہم کلامی کی۔ جس سال آپﷺ کو یہ عظیم معجزہ عطا ہوا، یہ سال آقاعلیہ السلام پر بہت سخت گزرا تھا اور آپﷺ کو غم و اندوہ اور مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا۔ رب ذوالجلال اپنے حسن و جمال کے دیدار کے ذریعے آپﷺ کے اس غم و اندوہ کا ازالہ فرمانا چاہتا تھا۔
پہلا صدمہ یہ تھا کہ اسی سال سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا وصال فرماگئی تھیں۔ آپؓ، آقاﷺ کی شریکِ حیات تھیں اور اعلانِ نبوت سے بھی قبل آپﷺ کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرچکی تھیں۔ آپﷺ کو ان کے وصال کا بہت دکھ تھا۔ اللہ رب العزت نے اس رنج و الم کو مٹانے کی خاطر اپنے حبیبﷺ کو اپنے پاس بلایا۔
ثانیاً سیدنا حضرت ابوطالب بھی اسی سال وفات فرما گئے تھے جو حضور نبی اکرمﷺ کا ہر حوالے سے دفاع کرتے رہے تھے اور مشرکینِ مکہ کے خلاف آپ ؐ کے لئے ڈھال بنے ہوئے تھے۔ ان کے وصال کا بھی حضورﷺ کو دکھ تھا۔
اللہ تعالیٰ کا آپ کو سفرِ معراج پر لے جانے کا تیسرا سبب اہل قریش کا حضور نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے اہل وعیال اور اصحاب کا معاشرتی و معاشی مقاطعہ تھا۔ اس کی وجہ سے آپؐ کے خاندان کو تین سال تک فقر و فاقہ کا سامنا کرنا پڑا اور قیدو بند کی صعوبتیں کاٹنی پڑیں۔
ان غم و اندوہ بھرے لمحات کا ازالہ فرمانے کے لئے اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرمؐ کو یہ معجزۂ معراج عطا کیا اور آپﷺ کو مقام قاب قوسین او ادنیٰ (سورہ نجم کی آیت نمبر ۹؍ ہے جس کا ترجمہ ہے: پھر (جلوۂ حق اور حبیب ِ مکرّمؐ میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم )کی بلندیوں پر فائز فرماکر آپؐ سے ہم کلام ہوا اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔
سفرِ معراج کے اسباب جاننے کے بعد آیئے اب اس کے مزید نکات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ کے سفرِ معراج کے دو حصے ہیں :
مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک سفر۔ اس سفر کو ’’اسراء‘‘کہتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ سے ساتویں آسمان، سدرۃ المنتہیٰ، مقام قاب قوسین اور عالمِ لامکاں تک سفر کرنا اور اللہ رب العزت کا دیدار کرنا۔ اس سفر کو معراج کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء میں سفرِ معراج کے پہلے حصے کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’ وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو مسجد ِ حرام سے (اس) مسجد ِ اقصیٰ تک لے گئی۔ ‘‘ (الاسراء:۱)
اس آیتِ کریمہ میں متعدد علمی، روحانی اور حبی نکات موجود ہیں۔ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
لفظِ سبحان کے استعمال کی حکمتیں
آیت کریمہ کا آغاز اللہ رب العزت نے لفظِ سبحان سے فرمایا۔ اس کے دو مقاصد ہیں : پہلا مقصد یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی تقدیس و تنزیہ (ہر عیب اور نقص سے پاک ہونے) کا اظہار فرمارہا ہے۔ دوسرا مقصد یہ کہ اللہ رب العزت چونکہ اپنے حبیب ﷺ کا ذکر فرما رہا ہے، اس لئے اس کی شانِ سبحانیت کے اظہار سے جو تقویت اور تاکید پیدا ہوتی ہے، اسے وہ آقاعلیہ السلام کی شان کے پلڑے میں داخل فرمارہا ہے تاکہ آقاعلیہ السلام کے اس سفر اسراء و معراج کے حوالے سے تعجب کرنے والوں کے شک و شبہ اور تشکیک کو ختم کیا جائے کہ اگر تم حضور ﷺ کے سفرِ معراج کی نفی کررہے ہو تو گویا تم میری قدرت اور اختیار کا انکارکررہے ہو۔
لفظ ’’اسریٰ‘‘ کا پیغام
آیتِ کریمہ میں مذکور لفظ اسریٰ کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے حبیب کو سفر پر لے گیا۔ اللہ یہ بھی فرماسکتا تھا کہ حضورعلیہ السلام سفر پر تشریف لے گئے مگر ایسا نہیں فرمایا۔ یہ اسلوب اس لئے اختیار فرمایا کہ وہ واضح کردے کہ میرے حبیب نے تو یہ دعویٰ کیا ہی نہیں ہے کہ میں رات کے تھوڑے سے حصے میں عرشِ الہٰی اور عالمِ لامکاں تک گیا ہوں بلکہ میں ربِ قادر ہوکر یہ دعویٰ کررہا ہوں کہ میں اپنے حبیبﷺ کو مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک لے گیا۔ اب سفرِ معراج کا انکار کرنے والے میرے محبوبﷺ پر اعتراض اور تنقید نہ کریں بلکہ اگر وہ اس قابل ہیں تو میری قدرت و اختیار کو چیلنج کرکے دکھائیں، اس لئے کہ میں یہ اعلان کررہا ہوں کہ میں انھیں اس سفر پر لے گیا۔
حضورعلیہ السلام کی شانِ عبدیت کا اظہار
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرمﷺ کے لئے لفظ ’’عبدہ‘‘ استعمال فرمایا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو سفر پر لے گئی۔ اس لئے کہ عبدیت میں اللہ تعالیٰ قربت اور صحبت کا تعلق ظاہر کرنا چاہ رہا ہے۔ اس سے بڑا مقام و مرتبہ اور بلندی کیا ہے کہ اللہ خود کہے کہ میں اپنے بندے کو اپنے پاس بلارہا ہوں۔
سدرہ المنتہٰی سے آگے کا سفر
مسجد ِ اقصیٰ پر اسراء کا سفر ختم ہوتا ہے اور یہاں سے آگے معراج کا سفر شروع ہوتا ہے۔ مسجد ِ اقصیٰ سے آسمانوں تک کے سفر کے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ایک نوری سیڑھی عطا ہوتی ہے جس کے ذریعے آپﷺ آسمان پر تشریف لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے عظیم انبیاء کرام علیہم السلام ہر آسمان پر آپﷺ کا استقبال فرماتے ہیں۔ ساتویں آسمان کے بعد سدرۃ المنتہیٰ پر سیدنا جبرائیل امین علیہ السلام کے قدم بھی رک جاتے ہیں اور وہ بھی اس مقام سے آگے جانے کی صلاحیت سے محرومی کا اقرار کرتے ہیں کہ مجھے اللہ رب العزت نے صرف یہاں تک رسائی کی اجازت مرحمت فرمارکھی ہے۔ اس کے آگے جانا میری بساط میں نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں سے اللہ رب العزت کے براہِ راست انوار و تجلیاتِ کا ظہور شروع ہوجاتا ہے۔
سدرۃ المنتہٰی سے آگے کے سفر کیلئے رفرف (تیز ترین گھوڑا، سواری) کو حاضر کیا جاتا ہے۔ ایک مقام ایسا آتا ہے کہ جہاں رفرف بھی رک جاتا ہے اور پھر یہاں سے آگے اللہ رب العزت بذاتِ خود اپنے انوار و تجلیات کے جلوؤں میں اپنے حبیبؐ کو عالم ِ لامکان تک کا سفر کرواتا ہے۔
مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ پر حاصل قربت
انوار و تجلیات کے جھرمٹ میں حضورنبی اکرمﷺ اپنی شان و مقام کے مطابق گزرتے ہوئے بالآخر قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں۔ اس مقام کے حوالے سے اللہ رب العزت سورہ النجم میں فرماتا ہے:
’’ پھر وہ (ربّ العزت اپنے حبیبؐکے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوہ ٔ حق اور حبیبِ مکرّمﷺ میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں ) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔ ‘‘ (النجم:۸۔ ۹)
یہ مقام وہ ہے جس کا ہماری عقل اور شعور بھی احاطہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی انسان کا فہم یہاں پہنچ سکتا ہے۔ یہ وہ عالم ہے جہاں فقط اللہ، اس کا حسن و جمال اور انوار و تجلیات ہیں۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ یہ مقام احدیت ہے اور اس مقامِ احدیت میں اللہ رب العزت حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ احمدیت کو اپنی شان کے جلوؤں میں شامل کرلیتا ہے۔ اس عالمِ لامکاں میں حضورنبی اکرم ﷺ اپنے رب کے اور وہ ربِ کائنات اپنے محبوبﷺ کے قریب ہوجاتا ہے۔
اللہ اپنے حبیبﷺ سے کتنا قریب ہوا، اس کا علم فقط اللہ اور مصطفیٰﷺ کو ہی ہے مگر اللہ قربت کے اس تصور کو امت کے لئے بیان فرما رہا ہے تاکہ امت کو عظمت و شانِ رسالت ِ مصطفیٰؐ کا ادراک ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ جب عام انسان کے لئے یہ فرماتا ہے کہ’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ ‘‘ (ق:۱۶)
تو مقامِ غور یہ ہے کہ اس عالم لامکاں میں اللہ نے اپنے محبوب کو کتنی قربت و معیت عطا کی ہوگی۔ سوال یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے حبیبؐ کے کتنے قریب ہوا بلکہ سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ رہ گیا؟ اللہ کی بارگاہ تمثیل سے پاک ہے مگر دو کمانوں جتنا فاصلہ رہ جانا، اللہ رب العزت یہ فقط ہمیں سمجھانے کے لئے فرمارہا ہے۔
مقامِ قاب قوسین او ادنیٰ پر حضورعلیہ السلام
کو عطا ہونے والی نعمتیں
مقام قاب قوسین پر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو درج ذیل نعمتیں عطا فرمائیں :
lاللہ نے اپنے حبیب ؐ کو اپنی قربت اور معیت عطا فرمائی۔
l اللہ رب العزت نے آپﷺ سے کلام فرمایا۔ اس بزم میں فقط اللہ ہے اور خدا کے حبیب مصطفیﷺ ہیں۔ اس مقام کے حوالے سے اللہ رب العزت فرماتا ہے : ’’پس اُس (اللہ) نے اپنے عبد ِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔ ‘‘ (النجم:۱۰)
lاس مقام پر اللہ رب العزت نے حضورؐ کو اپنا دیدار بھی عطا فرمایاہے۔ جس شان کے ساتھ آپﷺ نے اللہ کا دیدار کیا، اللہ تعالیٰ اس کا خود اس طرح اظہار فرماتا ہے:
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔ ‘‘ (النجم:۱۱)
’’اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے متجاوز ہوئی۔ ‘‘(النجم:۱۷)
یہ دیدارِ الہٰی اتنی بڑی اور عظیم نعمت تھی کہ رب کائنات کو معلوم تھا کہ دنیا والے آپﷺ کو ملنے والی اس نعمت کا انکار کردیں گے کہ ایسا ہونا ناممکن ہے، لہٰذا اللہ رب العزت منکرین سے فرما رہا ہے کہ:
’’کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا۔ اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂِ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)۔ ‘‘ (النجم:۱۲۔ ۱۳)
l مقام قاب قوسین پر حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا ہونے والی ایک نعمت اللہ رب العزت نے نماز کی صورت میں عطا فرمائی۔ پہلے امت کیلئے پچاس نمازیں عطا ہوئیں، جن میں بعد ازاں اللہ رب العزت نے نو بارتخفیف فرمائی اور پانچ نمازیں رہ گئیں مگر اللہ تعالیٰ نے حضورعلیہ السلام کے صدقے سے امت کو پانچ نمازوں پر بھی پچاس نمازوں کے اجر کا وعدہ فرمایا۔
گویا امت کو یہ تحفہ ملا کہ وہ پانچ نمازیں ادا کریں گے مگر اللہ رب العزت پچاس نمازوں کے برابر انہیں اجر عطا فرمائے گا۔ اس تحفے کو جب صدق و خلوص سے قبول کریں گے اور اس تصور اور کیفیت سے نماز ادا کریں گے کہ یہ تحفہ وہ ہے جو محب نے اپنے محبوب کو عالمِ لامکاں میں عطا کیا تو مومن بھی نماز کی ادائیگی کے دوران معراج کی منازل طے کرتا چلا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:نماز مومن کی معراج ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلوٰۃ)
آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا معراج ماورائے عرش تھا مگر مومن جب صدق و خلوص سے نماز پڑھتا ہے تو اس کی معراج فرش پر ہی ہو جاتی ہے۔ اس کا جسم فرش پر ہی ہوتا ہے مگر اس کا دل سدرۃ المنتہی اور عرشِ الہٰی پر پہنچ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معجزۂ معراج کے ذریعے آپؐ کے مقام و شان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپؐ کے فیوض میں سے حصہ وافر عطا فرمائے۔ آمینn