یوں تو اہل علم نے نماز کے اجتماعی،سماجی،اور اخلاقی فوائد پر کافی گفتگو کی ہے مگر نماز کے صحت پر اثرات کم کم ہی موضوعِ بحث بنتے ہیں۔ اس مضمون کا بنیادی موضوع یہی ہے یعنی نماز اور انسانی صحت۔
EPAPER
Updated: January 24, 2025, 7:22 PM IST | Dr Nabila Zaheer Bhatti | Mumbai
یوں تو اہل علم نے نماز کے اجتماعی،سماجی،اور اخلاقی فوائد پر کافی گفتگو کی ہے مگر نماز کے صحت پر اثرات کم کم ہی موضوعِ بحث بنتے ہیں۔ اس مضمون کا بنیادی موضوع یہی ہے یعنی نماز اور انسانی صحت۔
نماز سب سے افضل عبادت ہے۔ یہ بدنی عبادت ہے۔ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی بازپرس ہوگی۔ نمازی کو یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضوراس کے حکم کی تعمیل میں حاضر ہے اور اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کررہا ہے۔ عبادات میں سے نماز کی تاکید قرآن وحدیث میں سب سے زیادہ ہے، لہٰذا اس کے فوائدو ثمرات بھی دنیا وآخرت میں بہت زیادہ ہیں۔ یاد رہے کہ انسانی علوم و معارف میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، اسلامی عبادات کے اسرار، حکمتیں اور فوائد بھی اتنے ہی زیادہ ظاہر ہوتے جائیں گے۔
امراضِ قلب سے حفاظت
نماز کے یوں تومتعدد صحت بخش فوائد ہیں مگر اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کوامراضِ قلب سے محفوظ رکھتی ہے۔ انسانی دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے، یہ اس کا زندگی بھر کا معمول ہے۔ تاہم جب نمازی نماز کے دوران رکوع وسجود کرتا ہے تو اس سے دل کو سہولت وآرام ملتا ہے۔ اس کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان صحت بخش فوائد کا تجزیہ کریں، جو نمازکی بدولت انسان کے دل اور اس کے بدنی اعضا کو حاصل ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ ہم دل کی کارکردگی اور اس کی اہم سرگرمیوں کو جانیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ دل جسم انسانی کااہم ترین عضو ہے۔ دل تو اس وقت بھی کام کر رہا ہوتا ہے جب انسان ابھی جنین کی صورت میں اپنی ماں کے رحم میں ہوتا ہے۔ اس وقت سے لے کرانسان کی زندگی کے آخری لمحات تک دل مسلسل جسم کی تمام اطراف وجوانب میں خون پہنچانے میں مشغول رہتا ہے۔
سینے کی سطح سے بلندجتنے اعضا ءہیں، مثلاً سر، ان تک خون پہنچانا دل کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ ان تک خون کودھکیلنے کے لئے اسے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ تاہم، جب انسان رکوع اورسجدے کی حالت میں ہوتا ہے تو دل کے لئے دماغ، آنکھ، ناک، کان اور زبان وغیرہ تک خون پہنچانا آسان ہوجاتاہے کیونکہ ان اعضا کا تعلق سر سے ہے اور سر سجدے میں دل سے پست وزیریں سطح پر ہوتا ہے۔ اس حالت میں دل کی سخت مشقت میں کمی اور اس کے کام میں تخفیف ہو جاتی ہے۔ دل کو یہ آرام و راحت صرف سجدے کی حالت میں نصیب ہوتا ہے۔ اس لئے کہ جب ہم کھڑے ہوتے ہیں یا بیٹھتے ہیں یا جب ہم تکیے پر سر رکھ کر لیٹتے ہیں تو سر دل سے اونچائی کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا ان صورتوں میں دل کو مکمل آرام نہیں ملتا۔ لیکن سجدے کی حالت میں دل کا کام آسان ہو جاتا ہے، جیسے گاڑی نشیب کی طرف چلنے میں آرام میں رہتی ہے۔
دماغ کو تقویت
سجدہ کرنے کے فوائدمحض دل تک محدود نہیں ہیں بلکہ سجدہ کرنے سے دماغ کو بھی مدد ملتی ہے تا کہ وہ اپنی کارکردگی کوپوری چستی ومستعدی کے ساتھ سرانجام دے سکے۔ مزیدبرآں یہ کہ سجدہ کرنے سے انسان دماغ، جریانِ خون (Hemorrhage)سے محفوظ ہوتا ہے۔ دماغ سے خون کا یہ بہنادماغ کی داخلی رگوں کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے اور یہ نتیجہ ہوتا ہے بلند فشارِخون(ہائی بلڈ پریشر)کا، یاشوگر کی بیماری کا، یا خون میں کولیسٹرو ل کی مقدار زیادہ ہونے کا، یا ان دیگر اسباب کا جو جدید طرزِ زندگی کے تلخ ثمرات ہیں۔ حتیٰ کہ یہ مرض انسانیت کے لئے انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔
کئی بارسجدہ کرنے والے نمازی کے دماغ کوایسی قوتِ مدافعت مل جاتی ہے کہ وہ دماغ کے جریانِ خون سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ وہ اس لئے کہ سجدے کی حالت میں سر تک خون زیادہ اور خوب پہنچتا ہے کیونکہ سردل سے نچلی حالت میں ہوتا ہے۔ پھر نمازی کے دماغ کی شریان کو بار بار یہ موقع ملتا ہے کہ خون کی ایک بڑی مقدارسجدے کی حالت میں سر تک پہنچتی رہتی ہے۔ یوں دماغ کی شریان کو اتنی قوت مل جاتی ہے کہ فشارِخون کے وقت وہ ہمہ گیرتباہی مچانے والے خون کے گزرنے کوبرداشت کر لیتی ہے۔ یہ بالکل ایسا عمل ہے جیسے مسلسل ورزش، مشقت، ریاضت اور کسرت کرنے سے انسان کے پٹھوں کوقوت وطاقت ملتی ہے۔
نماز کے دوران ایسی جسمانی ورزش ہوتی ہے جو تمام لوگوں کیلئے موزوں ہے۔ سجدے اور رکوع بدن کے قدرتی وظائف اور ان کی طبیعی کارکردگی میں رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ نمازکے تمام ارکان رکوع، سجود، جلسہ، قیا م انسان کی طبیعت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ نماز میں زندگی کے کسی بھی طبقے اور عمر کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لئے سراسرفوائد ومنافع ہی ہیں۔
نماز سے گردوں کی کار کردگی میں مدد
طبی تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کھڑے ہونے یا ورزش کرنے کی حالت میں، جسم ِ انسانی میں گردوں کی طرف خون کا بہائو کم ہوجاتا ہے، جب کہ سجدے یا لیٹنے کی حالت میں خون کا بہائو بڑھ جاتا ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں سائنس دانوں نے یہ حقیقت دریافت کیا ہے کہ کھڑے ہونے اور بیٹھنے کی صورتوں میں گردوں کی طرف خون کا بہائوکم ہو جاتا ہے، جبکہ رکوع و سجود کی حالتوں میں یہ بہائو بڑھ جاتا ہے۔ سارا دن کھڑے رہنے والوں پر کئے گئے مطالعے سے یہ واضح ہواہے کہ ان لوگوں میں گردوں کی طرف خون کے بہائو کی مقدارکم ہوتی ہے نیز کھڑے رہناان میں پیشاب کی مقدار کوکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ سجدہ کرتے اور لیٹتے وقت خون کے اس بہائو کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جب گردے کی طرف خون کی رو میں تیزی ہوتی ہے تو گردوں کے پردوں پردبائوپیدا ہوتا ہے اور ان میں خون کی صفائی کاعمل بڑھ جاتا ہے۔
نماز سے پھیپھڑوں کے امراض سے تحفظ
سجدے کی حالت میں پھیپھڑے کے پہلے حصے کی طرف خون کی ایک بہت بڑی مقدار پہنچتی ہے۔ یاد رہے کہ اسے خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ سجدوں کی برکت سے اس کا تدارک ہو جاتا ہے۔ ذرا اس طرف دھیان دیجئے کہ نماز کی ادائیگی ان اوقات میں فرض کی گئی ہے جن میں انسان کام کاج میں مشغول ہوتا ہے نہ کہ لیٹنے اور نیند کے اوقات میں۔ معلوم ہوا کہ سجدے کرنا پھیپھڑوں کی صحت کے لئے انتہائی مفید ہے۔ سجدوں اور رکوع کی حالت میں خون پھیپھڑوں کی تمام اطراف میں پہنچتا ہے اور نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بجائے آکسیجن لے کر پھیپھڑوں میں سے گزرتا ہے۔ سجدے کی حالت میں پھیپھڑو ں کے خون کی صفائی میں مدد ملتی ہے اور پھیپھڑوں کی طرف رواں خون کی بہتات کے راستے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ پھیپھڑوں میں کینسر کو اس وقت رونما ہونے کا موقع ملتا ہے جب اس کے خلیات کو آکسیجن نہیں مل پاتی۔
اوقاتِ نماز میں حکمت
پانچوں نمازوں کے اوقات مقرر کرنے میں بھی حکمت ہے۔ انسان جب صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتا ہے تو وہ راحت و نشاط محسوس کرتا ہے، چنانچہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ نے صرف دو رکعات نماز فرض کیں۔ اس کے سات یا آٹھ گھنٹے بعدتک انسان اپنے کام کاج میں مصروف رہتا ہے، لہٰذا اللہ نے اس طویل دورانیے میں کوئی نماز فرض نہیں کی۔ ظہر کے وقت انسان اپنے کام کی وجہ سے تکان محسوس کرنے لگتا ہے، اس وقت کے لئے اللہ نے چار فرض مقرر فرمائے ہیں۔ سنن و نوافل اس سے الگ ہیں۔ نمازِظہر ادا کرنے کے تقریباًتین چار گھنٹے بعدنمازِ عصر کا وقت ہو جاتا ہے، جب کہ عصر کے تقریبا دو گھنٹوں بعدمغرب کی تین رکعات ادا کرنا فرض فرمائیں، اور مغرب کے تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹے بعدعشاء کی چار رکعات فرض ہیں۔ ان اوقات کوگہری نظرسے دیکھنے پر ہم پر یہ بات واشگاف ہوگی کہ ان پانچ اوقات میں وقفوں کے تھوڑا یا زیادہ ہونے کا تعلق انسان کی تھکاوٹ اور چستی سے ہے۔ دن کے آغاز میں جب جسمِ انسانی تازہ دم اور آرام میں ہوتا ہے، نماز کی رکعات کی تعداد کم ہوتی ہے۔ دن کے اختتام پرجب انسان تھکاوٹ، اُکتاہٹ اوربے چینی زیادہ محسوس کرتا ہے تو اللہ نے اس پرتھوڑے تھوڑے وقفوں سے زیادہ رکعات والی نمازیں فرض کی ہیں۔ اس سے ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ نماز جسمِ انسانی کو اسی طرح چست اور تازہ دم رکھتی ہے جس طرح بے حیائی اور برائی سے باز رکھتی ہے۔
نماز کے فوائد ناقابلِ شمار ہیں جو روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خشوع و خضوع والی نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔