• Sat, 16 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشرہ کی اصلاح بھی آپ کی ذمہ داری ہے!

Updated: November 16, 2024, 3:24 PM IST | Amin Ahsan Islahi | Mumbai

اسلام نے ہر شخص پر اصلاح کی دہری ذمہ داری ڈالی ہے۔ ایک خود اس کی اپنی ذات سے متعلق ہے اور دوسری اپنے علم و استعداد کی حد تک، اپنے کنبہ، قبیلہ اور معاشرہ کی اصلاح سے متعلق ہے۔

While Islam has ordered to teach the knowledge of religion to the family, it has also emphasized to spread this knowledge in the society. Photo: INN
اسلام نے جہاں اہل ِ خانہ کو دین کا علم سکھانے کا حکم دیا ہے وہیں معاشرے میں بھی اس علم کو عام کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ تصویر : آئی این این

علم، خواہ ہمارے اپنے تجربات کا حاصل کردہ ہو یا خدا کا نازل کردہ، بندوں کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اس امانت کا پہلا حق تو یہ ہے کہ ہر نسل اس کی پوری پوری حفاظت کرے، اس سے کماحقہ فائدہ اٹھائے، اس کو اپنے امکان کی حد تک ترقی دے۔ اور دوسرا حق یہ ہے کہ پوری احتیاط و دیانت کے ساتھ اس کو اپنے بعد آنے والی نسلوں کی طرف منتقل کردے، اسی دیانتدارانہ توریث (وارث بنانے کا عمل) اور توارث (ورثہ) پر اس دنیا کی تمام مادی و روحانی خوشحالیاں اور ترقیاں مبنی ہیں۔ اگر اس میں کوئی خلل اور فساد واقع ہوجائے تو دفعتاً سارے نظامِ زندگی میں خلل اور فساد برپا ہوجاتا ہے۔ یہ دُنیا مادی اعتبار سے جو باغ و بہار نظر آرہی ہے اس کا سبب یہی ہے کہ پچھلی نسلوں نے جو تجربات جمع کئے تھے وہ ہم تک منتقل ہوتے رہے اور ہم نے ان سے فائدہ اٹھایا نیز ان کو ترقی دی۔ اگر یہ ہم تک منتقل نہ ہوپاتے یا ہم نے ان کو حاصل کرنے یا ان کو ترقی دینے کا اہتمام نہ کیا ہوتا تو یہ دنیا آج جہاں ہے اس سے بہت پیچھے ہوتی۔ 
 اسی طرح ضروری ہے کہ جو روحانی اور اخلاقی علوم اللہ تعالیٰ نے اتارے ہیں وہ بھی صحیح طور پر ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتے رہیں۔ اگر ان کے منتقل ہوتے رہنے کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ روشنی کی جگہ تاریکی نے اور اسلام کی جگہ جاہلیت نے اپنا تسلط جما لیا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس امت کو بھی اپنی شریعت کا علم دیا اس پر جہاں یہ ذمہ داری ڈالی کہ وہ اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرے وہیں یہ ذمہ داری بھی عائد کی کہ وہ اس کو پوری دیانت کے ساتھ بعد کی نسلوں کی طرف منتقل کرے۔ چنانچہ اہل کتاب کو جب اللہ تعالیٰ نے اس علم کی امانت سونپی تو ان سے یہ عہد لیا کہ : 
 ’’تم اس کو لوگوں پر کھول کر واضح کرو گے، اور اس کو چھپاؤ گے نہیں۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۸۷)
 اسی طرح انہیں یہ حکم بھی دیا گیا:
 ’’اور حق کی آمیزش باطل کے ساتھ نہ کرو اور نہ ہی حق کو جان بوجھ کر چھپاؤ۔ ‘‘ (البقرہ:۴۲)
 یہود نے جب اس عہد اور اس تنبیہ کی کوئی پروا نہ کرتے ہوئے محض طمع دُنیا کے سبب اس علم کو چھپایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی:
 ’’بے شک، جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لئے (اپنی) کتاب میں واضح کردیا ہے تو انہی لوگوں پر اﷲ لعنت بھیجتا ہے۔ ‘‘ (البقرہ:۱۵۹)
 ’’بے شک جو لوگ کتابِ (تورات کی ان آیتوں ) کو جو اﷲ نے نازل فرمائی ہیں چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، وہ لوگ سوائے اپنے پیٹوں میں آگ بھرنے کے کچھ نہیں کھاتے۔ ‘‘ (البقرہ:۱۷۴)
 اور ان سے یہ امانت چھین کر امت ِ مسلمہ کے سپرد کی اور اس پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ جس طرح اللہ کے آخری رسولؐ نے ان کو خدا کا یہ دین پہنچایا ہے اسی طرح یہ اس کو دوسروں تک پہنچاتے رہیں۔ چنانچہ اس امت کو مخاطب کرکے فرمایا:
 ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہوں۔ ‘‘(البقرہ:۱۴۳)
 اب یہ اس امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس علم پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں پر بھی قیامت تک اس کی شہادت دیتی رہے اور اگر اس میں کوئی کوتاہی کرے تو عنداللہ اس کے نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہے۔ 
  اس ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے یا اس میں کوتاہی کرنے کے بھی کچھ خاص اسباب ہیں ۔ یہ اسباب بجائے خود ایسے ہیں کہ ان (اسباب) کے نگاہوں کے سامنے آجانے کے بعد توقع ہے کہ ہر شخص جس کے اندر ایمان کی کوئی رمق ہے، وہ ان سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کے اسباب کا جان لینا ہی ان کے علاج کے لئے کافی ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی شخص صحت کا سچا طالب ہو۔ 
معاشرہ کی ذمہ داری
 سے بے خبری
  اس کِتمانِ (چھپانا، پوشیدہ رکھنا، پردہ ڈالنا) علم کا ایک بڑا سبب تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ سرے سے معاشرہ کی اصلاح و درستگی سے متعلق اپنی کوئی ذمہ داری سمجھتے ہی نہیں۔ ان کے نزدیک آدمی پر جو کچھ بھی ذمہ داری ہے وہ صرف اس کے اپنے نفس کی ہے۔ اگر اس کو اس نے ٹھیک رکھنے کی کوشش کی ہے تو اس نے دین اور علم دین کا حق ادا کردیا۔ 
 اس بات سے اس کی دینداری میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ جس معاشرہ میں وہ رہ رہا ہے اس کا کیا حال ہے اور اس کو دین سے باخبر رکھنے میں اس نے کوئی حصہ لیا ہے یا نہیں۔ وہ اس کو ایک پرایا جھگڑا سمجھتے ہیں جس میں اپنی ٹانگ نہ پھنسانا ہی ان کے نزدیک تقویٰ ہے۔ بعض لوگوں کے اندر تو یہ تصور اس طرح جم جاتا ہے کہ وہ زندگی کا ایک بالکل ہی راہبانہ نقطۂ نظر اختیار کر لیتے ہیں اور معاشرہ کے برے اور بھلے سے یک قلم کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ اس حد تک تو معاشرہ سے بےتعلقی نہیں اختیار کرتے لیکن وہ بھی اس ذمہ داری کو وہ اہمیت نہیں دیتے جو فی الواقع دین میں اس کی ہے۔ ان کے نزدیک اگر یہ نیکی ہے تو ایک نفلی نیکی ہے جس کے کرنے سے آدمی کے اجر و ثواب میں کچھ اضافہ تو ہوجاتا ہے لیکن اگر وہ نہ کرے تو اس سے کوئی گناہ لازم نہیں آتا۔ اس طرح کے کسی کام کو اگر وہ کرتے بھی ہیں تو اس کو وہ خود اپنے فرائض کا کوئی جز نہیں سمجھتے بلکہ دوسروں کے فرائض کا ایک حصہ سمجھتے ہیں جس کو تبرکا ً یہ انجام دے رہے ہیں۔ یہ رائے رکھتے ہوئے ظاہر ہے کہ نہ تو کوئی شخص معاشرہ کی جہالت اور اس کے بگاڑ کا حقیقی دکھ محسوس کرسکتا ہے اور نہ لوگوں کے ذہن و فکر اور ان کے اعمال و اخلاق کے بدلنے کے لئے کوئی مؤثر اور نتیجہ خیز جدوجہد ہی کرسکتا ہے۔ اول تو وہ کچھ کرے گا ہی نہیں اور اگر کرے گا بھی تو اس کی نوعیت محض جان چھڑانے کی ہوگی۔ وہ لوگوں کو ان کی حقیقی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے اور ان کے بگاڑ کے اصلی اسباب سے پردہ اٹھانے کے بجائے ہمیشہ کچھ اوپری قسم کی لیپاپوتی کرکے اپنی مصلح ہونے کی دھونس جمانا چاہے گا۔ ایسے شخص کے لئے یہ نہایت مشکل ہے کہ وہ لوگوں کی کسی ایسی برائی کو برائی کہنے کی جرأت کرسکے جس کو لوگ بھلائی بنائے ہوئے بیٹھے ہوں اور جس کو برائی کہنے سے وہ غضبناک ہوتے ہوں، بالخصوص ان برائیوں کو برائی کہنا تو ایسے شخص کیلئے بالکل ہی محال ہے جن کے جواز کا فتویٰ وقت کے ارباب اقتدار نے دے رکھا ہو جن کو وہ عملاً اپنائے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ قرآن بھی پڑھتے پڑھاتے ہیں، حدیث بھی سکھاتے ہیں اور فقہ و تصوف کے رموز بھی بتاتے ہیں اور یہ سب کچھ بظاہر وہ علم دین کی اشاعت ہی کیلئے کرتے ہیں لیکن یہ ساری چیزیں اس طرح سکھاتے اور پڑھاتے ہیں گویا یہ ماضی بعید کی حکایتیں ہیں جن کا کوئی حرف بھی حال پر منطبق نہیں ہوتا۔ 
  بہت سے لوگ جان بوجھ کر یہ روش اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے بچانے کے لئے اختیار کرتے ہیں لیکن ہمارے نزدیک اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ عام طور پر لوگ معاشرہ سے متعلق اپنی ذمہ داری کی حقیقی نوعیت سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ اسلام نے ہر شخص پر اصلاح کی دُہری ذمہ داری ڈالی ہے۔ ایک خود اس کی اپنی ذات سے متعلق ہے اور دوسری اپنے علم و استعداد کی حد تک، اپنے کنبہ، اپنے قبیلہ اور اپنے معاشرہ کی اصلاح سے متعلق ہے اور اس ذمہ داری کی اہمیت اس قدر ہے کہ ایک شخص خود اپنی تعلیم و تربیت سے بے پروائی کی سزا جس طرح دنیا میں بھگتتا ہے اور آخرت میں بھگتے گا اسی طرح اگروہ معاشرہ کی اصلاح اور اس کی تعلیم و تربیت سے بے پروائی اختیار کرلے تو اس کی سزا دُنیا میں بھی بھگتے گا اور آخرت میں بھی۔ اس فرض حقیقی کی اہمیت اس حدیث شریف سے سمجھئے:
 ’’حضرت ابوسعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نےر سول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’ جو شخص بھی تم میں سے کوئی بگاڑ دیکھے تو اپنے ہاتھ سے اس کی اصلاح کرے، اگر اس کی طاقت رکھتا ہو۔ اگر ہاتھ سے اس کی اصلاح کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اگر زبان سے بھی اس کی اصلاح کی قابلیت نہ رکھا ہو تو کم از کم دل سے اس کو براسمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ ‘‘  (مسلم)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK