اخلاقیات کا ایک اصول یہ ہے کہ انسان کا برتاؤ اس کے کردار کی سب سے بڑی گواہی ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا رویہ اس بات کا ثبوت تھا کہ انسانوں کے ساتھ نرمی، درگزر اور تحمل کا برتاؤ کسی بھی سماجی ڈھانچے کی بنیادی ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: January 06, 2025, 4:15 PM IST | Muhammad Tauqir Rahmani | Mumbai
اخلاقیات کا ایک اصول یہ ہے کہ انسان کا برتاؤ اس کے کردار کی سب سے بڑی گواہی ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا رویہ اس بات کا ثبوت تھا کہ انسانوں کے ساتھ نرمی، درگزر اور تحمل کا برتاؤ کسی بھی سماجی ڈھانچے کی بنیادی ضرورت ہے۔
ایک صالح معاشرہ تب ہی پروان چڑھتا ہے جب عدل و انصاف کا بول بالا ہو، باہمی بھائی چارے کی فضا قائم ہو اور ہر فرد ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہو۔ ایک ایسے معاشرے کی بقا کا راز انفرادی ہمدردی، اجتماعی ایثار اور حقوق و فرائض کے باہمی توازن میں پنہاں ہے۔ اگر انسانی حقوق کا شعور ہر فرد کے دل و دماغ میں جاگزیں نہ ہو، تو یہ معاشرہ صرف خیالات کی دنیا کا ایک دھندلا خواب بن کر رہ جاتا ہے، جو حقیقت کی کسوٹی پر کھرا نہیں اتر سکتا۔
انسانی حقوق کی پاسداری اُس وقت ممکن ہوتی ہے جب ان کی تعلیم ہر گھر کے ہر فرد کو دی جائے۔ والدین، معاشرتی تربیت کے سب سے پہلے معلم، اس ضمن میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی عملی زندگی اور تربیتی انداز بچوں کی شخصیت کو وہ سانچہ عطا کرتے ہیں جس میں عدل، مساوات اور ہمدردی کے اصول خودبخود رچ بس جاتے ہیں۔ اگر والدین اپنے اعمال اور رویوں کے ذریعے ان اعلیٰ اقدار کی مشق کریں تو یہ بچوں کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں اور وہ خود بھی معاشرتی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے کی کامیابی کے لئے حقوق و فرائض کا توازن از حد ضروری ہے۔ یہ توازن اسی وقت ممکن ہے جب ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کا ادراک اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرے۔ اس اصول کو مزید واضح کرنے کیلئے اللہ کے رسول ﷺ کی حیات ِ مبارکہ کھلی کتاب کی صورت ہمارے درمیان ہے جو ایک کامل رہنمائی ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیا اور اپنی زندگی کو ایسا نمونہ بنایا جس میں عدل، محبت اور ہمدردی کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حقوق کی ادائیگی اور ایثار و قربانی کا ایسا عملی نمونہ بنا دیا کہ وہ دوسروں کی بھلائی کو اپنی جان سے مقدم سمجھتے تھے۔ جنگ یرموک کا مشہور واقعہ اس کی روشن مثال ہے، جہاں تین زخمی صحابہ رضی اللہ عنہم نے شدید پیاس کے باوجود پانی ایک دوسرے کو پیش کیا اور بالآخر تینوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔
یہ واقعہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دوسروں کے حقوق کے معاملے میں کس قدر حساس تھے۔ افسوس کہ آج کے معاشرے میں اس جذبے کا شدید فقدان پایا جاتا ہے، جہاں ہر شخص اپنے حقوق کا مطالبہ تو کرتا ہے لیکن دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے غفلت برتتا ہے۔ اگر ہم نبی کریم ﷺ کی تعلیمات اور صحابہ کے ایثار کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو ہمارا معاشرہ محبت، ہمدردی، اور حقوق کی پاسداری کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ اخلاق و کردار کا ایک بےنظیر نمونہ ہے جس میں حقوق کی ادائیگی، صبر اور حسنِ سلوک کے اعلیٰ اُصولوں کا عملی مظاہرہ ملتا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ، جنہوں نے دس سال تک آپؐ کی خدمت کا شرف حاصل کیا، اپنے مشاہدے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
’’میں نے دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی، لیکن کبھی آپ نے مجھے اُف تک نہیں کہا اور نہ یہ سوال کیا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا یا کیوں نہیں کیا۔ ‘‘(صحیح مسلم)
یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کے بلند اخلاق اور دوسروں کے جذبات و احساسات کی رعایت کے ناقابلِ فراموش مظاہر ہیں۔ آپ ﷺ کی مبارک زندگی عدل و احسان کا ایسا روشن مینار ہے جس کی روشنی صدیوں سے انسانیت کی رہنمائی کر رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔
اخلاقیات کا ایک اصول یہ ہے کہ انسان کا برتاؤ اس کے کردار کی سب سے بڑی گواہی ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کا رویہ اس بات کا ثبوت تھا کہ انسانوں کے ساتھ نرمی، درگزر اور تحمل کا برتاؤ کسی بھی سماجی ڈھانچے کی بنیادی ضرورت ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف اپنے اعمال سے بلکہ اپنے طرزِ عمل سے بھی یہ واضح کیا کہ دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک ایک ایسا جوہر ہے جو انسانی تعلقات کو مستحکم کرتا ہے۔
یہ واقعہ اس بات کا عملی نمونہ ہے کہ آپ ﷺ حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں کس قدر حساس اور انصاف پرور تھے۔ آپ ﷺ کے عمل نے یہ پیغام دیا کہ دوسروں کے احساسات اور حقوق کی پاسداری وہ جوہر ہے جو ایک معاشرہ کو حقیقی معنوں میں صالح بناتا ہے۔ اگر ان اصولوں کو اپنایا جائے تو نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر بھی امن اور خوشحالی کا قیام نہ صرف ممکن بلکہ آسان ہے۔
بلاشبہ، آج کے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہر فرد اپنے حقوق کے لئے فکر مند اور دوسروں سے شاکی مگر اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے غافل ہے۔ اگر ہم حقوق کی ادائیگی کو اپنی زندگی کا شعار بنائیں، ایثار اور ہمدردی کو فروغ دیں اور دوسروں کے جذبات کا احترام کریں تو نہ صرف معاشرتی توازن بحال ہوگا بلکہ ایک مثالی اور صالح معاشرہ وجود میں آئے گا۔ رسول اکرم ﷺ کا یہ اسوۂ حسنہ ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے، جو ہمیں سکھاتا ہے کہ عدل، محبت اور حساسیت کے بغیر کوئی معاشرہ کامیابی اور استحکام کی منازل طے نہیں کر سکتا۔