جیسے زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے، ویسے ویسے خلوص میں کمی آتی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کیا سنہرا دور تھا کہ جس میں مسلمان ہر معاملے میں رضائے الہٰی و رضائے رسولؐ کو مقدم رکھتے اور نام و نمود اور شہرت کی طمع دور دور تک نہیں ہوتی تھی۔
EPAPER
Updated: December 20, 2024, 3:26 PM IST | Mohammad Mudassar Hussain Ashrafi | Mumbai
جیسے زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے، ویسے ویسے خلوص میں کمی آتی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کیا سنہرا دور تھا کہ جس میں مسلمان ہر معاملے میں رضائے الہٰی و رضائے رسولؐ کو مقدم رکھتے اور نام و نمود اور شہرت کی طمع دور دور تک نہیں ہوتی تھی۔
جیسے زمانہ ترقی کرتا جارہا ہے، ویسے ویسے خلوص میں کمی آتی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کیا سنہرا دور تھا کہ جس میں مسلمان ہر معاملے میں رضائے الہٰی و رضائے رسولؐ کو مقدم رکھتے اور نام و نمود اور شہرت کی طمع دور دور تک نہیں ہوتی تھی۔ مگر آج معاملہ بالکل برعکس ہے اور ہر چھوٹی بڑی نیکی میں ریاکاری غالب ہے۔ کیا عوام اور کیا اہل علم (اہل خلوص اس سے مستثنیٰ ہیں ) اس دکھاوے میں ایک دوسرے پر فوقیت پانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسے ریاکار افراد، لوگوں کی نگاہوں میں محبوبیت کا تمغہ حاصل کرلیں، مگر یاد رہے کہ ایسے اعمال جو لوگوں کو خوش کرنے اور شہرت اور ناموری کیلئے کئے جائیں، بارگاہ الٰہی میں ہرگز قابل قبول نہیں ۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور وہ لوگ بھی اللہ کو ناپسند ہیں جو اپنے مال محض لوگوں کو دکھانے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور در حقیقت نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخر پر، سچ یہ ہے کہ شیطان جس کا رفیق ہوا اُسے بہت ہی بری رفاقت میسر آئی۔ ‘‘ (النساء:۳۸)
بخل کے بعد صَرفِ بے جا کی برائی بیان فرمائی کہ جولوگ محض نمود ونمائش اور نام آوری کے لئے خرچ کرتے ہیں اور رضائے الٰہی انہیں مقصود نہیں ہوتی جیسے کہ مشرکین ومنافقین یہ بھی انہیں کے حکم میں ہیں جن کا حکم اوپر گزرگیا۔ ( خزائن العرفان ) مذکورہ آیت کی تفسیر میں تفسیر نعیمی سے چند اقتباسات نذر قارئین ہیں :
٭ اس آیت کریمہ کا پچھلی آیات سے کئی طرح تعلق ہے۔
پہلا تعلق: پچھلی آیت میں مال نہ خرچ کرنے والوں یعنی کنجوسوں کی برائیاں بیان کی گئی تھیں، اب بےجا خرچ کرنیوالوں یعنی ریاکاروں کی برائیاں بیان ہورہی ہیں ۔ دوسرا تعلق: پچھلی آیت میں ارشاد تھا کہ کنجوس لوگ اچھی جگہ خرچ نہیں کرتے، اب فرمایا جارہا ہے کہ کنجوسی کی وجہ سے بچاہوا مال ناجائز جگہ خرچ کرتے ہیں، وہ مال ان کے کام نہیں آتا۔ تیسرا تعلق: پچھلی آیت میں منافقین وکفار کے بخل کا ذکر تھا اب اس کی وجہ ارشاد ہورہی ہے کہ شیطان ان کاساتھی ہوچکا اور جن کاساتھی شیطان ہوجائے وہ اچھاکام کیسے کریں۔ چوتھا تعلق: پچھلی آیت میں حکم تھا کہ ماں باپ اوراہل قرابت وغیرہ پرخرچ کرو اب ارشاد ہورہا ہے کہ یہ خرچ دکھاوے کیلئے نہ ہو، اللہ تعالیٰ کوراضی کرنے کیلئے ہو یعنی پہلے ایک نیکی کاحکم تھا اب اخلاص کاتاکیدی حکم دیاجارہاہے۔
شان نزول: منافقین مدینہ مسلمانوں کو زکوٰة و صدقات سے ڈراتے تھے کہ تم فقیر ہوجاؤگے اپنامال آڑے وقت کے لئے بچاکے رکھو مگر خود حضور ﷺ کی بارگاہ عالی میں کبھی کبھی مال پیش کرتے رہتے تھے تاکہ ان پر نفاق کاالزام نہ آجائے اور لوگ ان کومسلمان ہی جانیں، ان کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ امام واحدی کایہی قول ہے۔
اس آیت کریمہ سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں۔ مثلاً ریاکار کے نیک اعمال کاثواب بالکل نہیں، ثواب کے لئے اخلاص شرط ہے۔ ریاکاری کے اعمال کی کاشت سے ثواب کی پیداوار نہیں ہوتی۔ ریاکاری منافقوں کاکام ہے اور ریاکارعملی منافق ہے۔
ریا، د وقسم کی ہے، اصل عمل میں ریا اور حسن عمل میں ریا۔ اصل عمل میں ریایہ ہے کہ بغیر دکھلاوے کے عمل ہی نہ کرے مثلاً کوئی دیکھے تو نماز پڑھ لے ورنہ نہیں۔ حسن عمل میں ریا یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اچھی طرح عمل کرے اکیلے میں معمولی طرح۔ پہلی ریا زیادہ بری ہے۔
لوگوں کو دکھانے اور اپنی ناموری کے لئے نیکیاں کرنا برا ہے لیکن اللہ کوراضی کرنے یا لوگوں کو رغبت دینے کے لئے صدقہ وخیرات کرنا بہت اچھا ہے، اعلانیہ طورپرحج پر جانا اور لوگوں کے سامنے چندہ دینا اچھاہے کہ یہ تبلیغ ہے نہ کہ ریا۔ اس میں ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو حکام کو راضی کرنے یا بیاہ شادی کی بے جا رسومات پر بے تحاشا خرچ کر دیتے ہیں لیکن اللہ کی راہ میں خیرات کرنے سے گھبراتے ہیں ۔ ( تفسیر نعیمی )
ریاکاری اس درجہ حقیر فعل ہے کہ اسے شرک اصغر سے تعبیر کیاگیا ہے، نیز یہ کہ یہ فعل منافقین کا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایاکہ، قیامت کے دن رب العالمین، عالم، شہید اور سخی کو ان کی ریاکاری کی بنیاد پر فرشتوں کوحکم فرمائے گا کہ انہیں گھسیٹتے ہوئے جہنم میں لے جاؤ۔
ریاکاری سے عارضی واہ واہی کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دورحاضر میں بھی اہل خلوص کی کوئی کمی نہیں، مگر رفتہ رفتہ ہی سہی ریاکاری بہت حد تک پھیل چکی ہے۔ ایک مقولہ ہے کہ ’’ نیکی کر دریا میں ڈال‘‘، اب لوگوں نے دریا کی جگہ ’’موبائل‘‘ کو دے دی ہے یعنی نیکی کر موبائل میں ڈال۔ یہ موبائل میں ڈالنے والوں کی نیت پرمنحصرہے کہ اگر ان کی نیت میں اخلاص ہے کہ لوگ اس سے مستفید ہوں گے، تب تو بڑا اچھا عمل ہے۔ اور اگر نیت میں ریاکاری اور دکھاوا ہے واہ واہی اور شہرت ہے تب تو انہیں ریاکار کا خطاب دیاجائے گا۔ اللہ عزوجل ہم سب کواخلاص کی دولت نصیب فرمائے آمین۔