ہمارا معاملہ حب ِ دنیا بن چکا ہے اس لئے ہم پریشان ہیں،اسلام نے اس سے نجات کا آسان نسخہ بتادیا ہے اور وہ ہے دنیا سے بے رغبتی
EPAPER
Updated: January 17, 2025, 7:03 PM IST | Doctor Mujahid Nadvi | Mumbai
ہمارا معاملہ حب ِ دنیا بن چکا ہے اس لئے ہم پریشان ہیں،اسلام نے اس سے نجات کا آسان نسخہ بتادیا ہے اور وہ ہے دنیا سے بے رغبتی
اسلام کی تعلیمات میں سے ایک زُھد یعنی دنیا بیزاری ، دنیوی چیزوں سے اجتناب یا بے رغبتی ہے۔ اسلام نے حب جاہ، حب مال، حب شہوات، حب لذات ہر چیز سے حتی الامکان دوررہنے کی تلقین کی ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ الحدید میں اللہ عزوجل نے دنیا کی زندگی کا نقشہ ان الفاظ کے ساتھ کھینچا ہے:’’خوب سمجھ لو کہ اس دنیا والی زندگی کی حقیقت بس یہ ہے کہ وہ نام ہے کھیل کود کا، ظاہری سجاوٹ کا، تمہارے ایک دوسرے پر فخر جتانے کا، اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنے کا۔ ‘‘ اور سوۃ النساء میں دنیا اور آخرت کے درمیان ایک تقابل کرتے ہوئے کہا گیا:’’کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے اور جو شخص تقویٰ اختیار کرے اس کے لئے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘
اسی طرح احادیث میں بھی دنیاداری کے متعلق تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ آپﷺ نے غزوۂ خندق کے موقع پر جب اپنے صحابہ کرامؓ کی پریشانی دیکھی، ان کی بھوک دیکھی، سردی کی شدت کی مار دیکھی، جب ان کو بیحد تکلیف اور مشکل کے ساتھ خندق کھودتے دیکھا تو فرمایا: ’’اے اللہ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ ‘‘ ایک اور حدیث میں آپﷺ نے اہل ایمان کو کسی مسافر یا اجنبی کی طرح دنیا میں رہنے کی ترغیب دی۔ اس لئے کہ مسافر اور اجنبی شخص سب سے فارغ البال ہوتے ہیں، اور کچھ دیر کے لئے ہی کسی جگہ پر رکتے ہیں۔ تو ان کے اس مقام پرزیادہ الجھنے اور پریشان ہونے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
انسانی نفسیات کو اگر دیکھا جائے تو انسان کا دل خواہشات کی آماجگاہ ہے۔ شیطان انسان کو لالچ اور خواہشات پر اکساتا ہی رہتا ہے۔ وہ انسان کا دن کا چین اور رات کا سکون تباہ کردیتا ہے اور اس کے دل و دماغ کو سازشوں کا اڈہ بنا دیتا ہے اور پھر زندگی بھر اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کےباوجود خواہشات کا تابع انسان یہی کہتا ہے کہ ’’بہت نکلے مرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے‘‘جبکہ دیکھا جائے تو یہ ساری مصیبتیں انسان خود اپنے اوپر لازم کرتا ہے، ورنہ دنیاوی زندگی تو بادشاہ کی بھی گزرجاتی ہےا ور فقیر کی بھی۔
عالمی شہرت یافتہ مصنف و عالم جبران خلیل جبران نے اپنی کتاب ’دمعۃ وابتسامۃ‘ میں ایک خیالی قصہ لکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایک جگہ سے گزررہا تھا تو میں نے ایک پنجرہ دیکھا، جس میں ایک مردہ پرندہ پڑا ہواتھا۔ اس پرندے کے پاس دو چھوٹے چھوٹے برتن تھے کھانا اور پانی کے لئے جو دونوں خالی تھے۔ میری سمجھ میں آگیا کہ بھوک اور پیاس کی وجہ سے اس پرندے کی موت واقع ہوئی ہے۔ لیکن مجھے اس پرندے کی موت پر بڑی حیرت بھی ہوئی کیونکہ یہ پنجرہ ایک کھیت میں رکھا ہوا تھا، اورپنجرے کے قریب سے ہی ایک ندی گزررہی تھی۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہ یہ پرندہ کھیت میں تھا جہاں اسے تاحیات اناج کافی ہونے والا اناج میسر تھا۔ اس کے قریب ایک ندی تھی، جس سے یہ پوری زندگی کام آنے والا پانی پی سکتا تھا۔ لیکن چونکہ اس کے اطراف ایک پنجرہ تھا یہ اسی میں قید ہونے کی وجہ سے مرگیا… بحیثیت مسلمان اس قصہ سے ملنے والے سبق پر اگر ہم غور کریں تو آس پاس کا کھیت اور ندی یہ اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جن کے متعلق قرآن مجید میں یہ اعلان کردیا گیا کہ تم اگر اللہ تعالی کی نعمتوں کو گننا چاہوگے تو ہرگز گن نہیں پاؤگے۔ وہ جو پرندہ ہے وہ انسانی دل ہے اور وہ جو پنجرہ ہے وہ نفسانی خواہشات اور کبھی نہ ختم ہونے والی آرزوئیں ہیں جن میں قید ہوکر انسان کی زندگی گزرجاتی ہے۔ اگر یہ خواہشات کا جالا نہ ہوتوانسان ہر حال میں خوش رہ لے، ہر مشکل میں مسکرالے اور ہر تکلیف میں صبر کرلے۔
افسوس کہ اتنی چھوٹی سی بات سمجھنے کے لئے انسان کے پاس وقت نہیں ہے۔ بلکہ جیسے جیسے وقت بیت رہا ہے، انسان کی تمناؤں اور خواہشات میں اضافہ ہوتا ہی جارہا ہے چنانچہ ہر انسان دیوانہ وار بھاگ دوڑ رہا ہے، حلال حرام کی تمیز بھول چکا ہے اور حقداروں کا حق مارنے سے بھی نہیں چوکتا۔ نتیجتاً معاشرہ ظلم وستم، ناانصافی اور بے اعتدالی کے ایک ایسے بھنور میں پھنس گیا ہےجس سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ آخرت، اور دنیاوی چین وسکون توتباہ ہو ہی رہا ہے، لیکن اس کی وجہ سے دنیا کی معیشت بھی بے اعتدالی کا شکار ہوچکی ہے، جس کی زد میں سب سے زیادہ غریب آرہے ہیں۔
مصر کے عربی مضمون نگار مصطفی لطفی المنفلوطی نےایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک مرتبہ اپنے کسی دوست سے ملنے جارہا تھا۔ راستے میں اسے ایک غریب شخص نظر آیا جو راستے کے کنارے پڑا بھوک کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔ پوچھنے پر اس شخص نے بتلایا کہ گزشتہ کل سے اسے ایک لقمہ بھی نصیب نہیں ہوا ہے، اور اب بھوک کی شدت برداشت نہیں ہورہی ہے۔ اس کی حالت زار پر افسوس کرکے جب المنفلوطی اپنے دوست کے گھر پہنچا تو دیکھتا ہے کہ اس کے پیٹ میں درد ہے اور تکلیف کی شدت کی وجہ سے وہ بستر پر کروٹیں بدل رہا ہے۔ المنفلوطی کے خیریت پوچھنے پر اس کا دوست کہتا ہے کہ آج دوپہر میں مجھے ایک جگہ دعوت تھی، کھانا لذیذ بنا تھا اس لئے میں نے کچھ زیادہ ہی کھالیااور اب بدہضمی کی وجہ سے میرے پیٹ میں شدید درد ہورہا ہے۔ مصنف ان دونوں کی حالت لکھنے کے بعد مضمون اس نکتے پر ختم کرتا ہے کہ دراصل اس دوست نے اس سڑک کنارے پڑے فقیر کے حصے کا کھانا کھا لیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں ہی مسائل کا شکار ہوگئے یعنی وہ غریب شخص بھوک سے تڑپ رہا ہے اور یہ امیر بدہضمی سے تکلیف میں ہے۔ اگر ہم غور کریں تو آج ساری انسانیت کا حال یہی ہےکہ کوئی مال کی کثرت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے اور کوئی مال کی قلت کی وجہ سے۔
اس بیماری کا علاج اسلام نے نہایت آسان بتا دیا جو کہ زہد یعنی دنیا سے بے رغبتی ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا میں موجود وسائل کی برابر تقسیم عمل میں آئے گی، بعض انسان دیگر انسانوں کا حق نہیں کھائیں گے، اور دنیا وی مال دولت، غذاوغیرہ کی منصفانہ تقسیم عمل میں آئے گی۔ n