• Sat, 16 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ووٹ کی شرعی حیثیت

Updated: November 16, 2024, 3:15 PM IST | Mufti Muneebur Rehman | Mumbai

موجودہ دور کے علماء میں سے علامہ مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں ووٹ کی شرعی حیثیت پر بحث کی ہے اور انہوں نے ووٹ کو شہادت کا درجہ دیا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

موجودہ دور کے علماء میں سے علامہ مفتی محمد شفیعؒ نے اپنی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں ووٹ کی شرعی حیثیت پر بحث کی ہے اور انہوں نے ووٹ کو شہادت کا درجہ دیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
 ٭اسمبلیوں اور کونسلوں میں کسی امیدوار کو ووٹ دینا بھی ایک شہادت ہے جس میں ووٹ دینے والا اسی بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ امیدوار اپنی قابلیت اور دیانت و امانت کے اعتبار سے قومی نمائندہ بننے کے قابل ہے۔ 
 ٭اسی طرح امتحانات میں طلبہ کے پرچوں پر نمبر لگانا بھی ایک شہادت ہے۔ اگر جان بوجھ کر یا لا پروائی سے نمبروں میں کمی بیشی کردی تو یہ جھوٹی شہادت ہے، جوحرام اور سخت گناہ ہے۔ 
 ٭ قرآن کی رُو سے نمائندوں کے انتخاب کے لئے ووٹ دینے کی ایک اور حیثیت بھی ہے جس کو سفارش کہا جاتا ہے : گویاووٹ دینے والا یہ سفارش کرتاہے کہ فلاں امیدوار کو نمائندگی دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جو شخص کوئی نیک سفارش کرے تو اس کیلئے اس (کے ثواب) سے حصہ ہے، اور جو کوئی بری سفارش کرے تو اس کے لئے اس (کے گناہ) سے حصہ ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘ (النساء:۸۵)
 ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے کہ ووٹ دینے والا کسی امیدوار کو اپنی نمائندگی کے لئے وکیل بناتا ہے، اگر یہ وکالت قومی امور کی انجام دہی کے لئے ہے، توکسی نا اہل کو وکیل بنانا پوری قوم کے حقوق کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ 
  خلاصہ یہ کہ ووٹ کی تین حیثیتیں ہیں : ایک شہادت، دوسری شفاعت، اور تیسری مشترکہ حقوق میں وکالت۔ پس نااہل کو ووٹ دینا بیک وقت جھوٹی شہادت، بری سفارش اور ناجائز وکالت ہے، اس کے تباہ کن نتائج کا ذمے دار ووٹ دینے والا بھی ہوگا۔ نبیﷺ نے فرمایا: قاضیوں کی تین قسمیں ہیں : ایک جنت میں ہوگا اور دو جہنم میں ہوں گے۔ جنت میں وہ شخص ہوگا جس کو حق کا علم ہواور وہ اس کے مطابق فیصلہ بھی کرے۔ جس شخص کو حق کا علم ہے، مگر وہ فیصلے میں ظلم کرتاہے تو وہ جہنم میں ہوگا اور جو شخص بغیر علم کے لوگوں کے فیصلے کرے وہ بھی جہنم میں ہوگا (سنن ابودائود)
 پس جب ووٹرز کے پاس منصب ِ قضا آئے اور وہ عدل پر مبنی فیصلے نہ کریں تو اُن کا یہ توقع رکھنا عبث ہوگا کہ جس امیدوارکے بارے میں انہوں نے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ پر اور پوری قوم پر ظلم کیا ہے، وہ عدل کا علمبردار ہوگا، یہ ببول کا درخت لگاکر گلاب کے پھولوں یا انگور کے خوشوں کی تمنا کرنے کے مترادف ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK