اسلام کی تاریخ میں دو راتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک وہ رات جس میں نبی عربی محمد ﷺ پرقرآن کا نزول شروع ہوا ۔ دوسری وہ رات جس میں آپؐ کو معراج نصیب ہوئی۔ پہلی رات کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے کہ اُس میں نوع انسانی کے لئے وہ روشن ہدایت نامہ بھیجا گیا جو باطل کی تاریکیوں میں حق کا نور صدیوں سے پھیلا رہا ہے اور قیامت تک پھیلاتا رہے گا
مسجد اقصیٰ میں نماز کا ایک منظرجبکہ عقب میں گنبد صخریٰ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔ فائل فوٹو
اسلام کی تاریخ میں دو راتیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک وہ رات جس میں نبی عربی محمد ﷺ پرقرآن کا نزول شروع ہوا۔ دوسری وہ رات جس میں آپؐ کو معراج نصیب ہوئی۔ پہلی رات کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے کہ اُس میں نوع انسانی کے لئے وہ روشن ہدایت نامہ بھیجا گیا جو باطل کی تاریکیوں میں حق کا نور صدیوں سے پھیلا رہا ہے اور قیامت تک پھیلاتا رہے گا لیکن دوسری رات کی اہمیت بعض دینیاتی بحثوں میں گم ہوکر رہ گئی ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس رات میں انسانیت کی تعمیر کے لئے کتنا عظیم الشان کارنامہ انجام پایا۔ آج اس مبارک رات کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہمیں دیکھنا چاہئے اس میں ہمارے لئے کیا پیغام ہے۔
معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اُس وقت نبی کریم ﷺ کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ۱۲؍ سال گزر چکے تھے۔ باوجود اس بات کے کہ آپؐ کے مخالفین نے آپؐ کا راستہ روکنے کے لئے سارے ہی جتن کر ڈالے تھے، پھر بھی آپؐ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا جس میں دوچار آدمی آپؐ کے ہم خیال نہ بن چکے ہوں۔ خود مکہ میں ایسے مخلص لوگوں کی ایک مختصر جماعت آپؐ کے گرد جمع ہوگئی تھی جن سے زیادہ سرگرم اور فداکار حامی، دنیا کی کسی تحریک کو کبھی نہیں ملے۔ اور مدینہ میں دو طاقتور اور خودمختار قبیلوں کی اکثریت آپؐ پر ایمان لا چکی تھی۔ اب وہ وقت قریب آگیا تھا کہ آپؐ مکہ سے مدینہ منتقل ہوجائیں ، تمام ملک کے منتشر مسلمانوں کو اپنے پاس سمیٹ لیں اور اُن اصولوں پر ایک ریاست قائم کردیں جن کی اب تک آپؐ تبلیغ فرماتے رہے تھے۔ یہی وہ موقع تھا جب آپؐ کو معراج کا سفر پیش آیا۔
اس سفر سے واپس آکر جو پیغام آپؐ نے دیا وہ قرآن مجید کی ۱۷؍ویں سورہ، سورہ بنی اسرائیل میں آج تک لفظ بہ لفظ موجود ہے۔ اس کو دیکھئے اور اس کے تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھئے تو آپ کو صاف معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کے اصولوں پر ایک نئی ریاست کا سنگ ِ بنیاد رکھنے سے پہلے وہ ہدایات دی جارہی ہیں جن پر نبی اور اصحاب ِ نبی کو آگے کام کرنا تھا۔
اس پیغام میں معراج کا ذکر کرنے کے بعد سب سے پہلے بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی گئی ہے۔ مصریوں کی غلامی سے نکل کر بنی اسرائیل نے جب آزاد زندگی شروع کی تھی تو خداوند عالم نے اُن کی رہنمائی کے لئے کتاب عطا فرمائی تھی اور تاکید کردی تھی کہ میرے سوا اب اپنے معاملات کی تکمیل کسی اور کے ہاتھ میں نہ دینا۔ مگر بنی اسرائیل نے خدا کی اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفرانِ نعمت کیا اور زمین میں مصلح بننے کے بجائے مفسد و سرکش بن کر رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے ایک مرتبہ ان کو بابل والوں سے پامال کرایا اور دوسری مرتبہ رومیوں کو ان پر مسلط کردیا۔ اس سبق آموز تاریخ کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ صرف قرآن ہی وہ چیز ہے جو تمہیں ٹھیک ٹھیک راستہ بتائے گی۔ اس کی پیروی میں کام کروگے تو تمہارے لئے بڑے انعام کی بشارت ہے۔
دوسری اہم حقیقت جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ ہر انسان خود اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے۔ اس کا اپنا ہی عمل اس کے حق میں فیصلہ کن ہے۔ سیدھا چلے گا تو آپ اپنا بھلا کرے گا۔ غلط راہ پر جائے گا تو خود ہی نقصان اٹھائے گا۔ اس شخصی ذمہ داری میں کوئی کسی کا شریک نہیں ہے اور نہ کسی کا بار دوسرے پر پڑ سکتا ہے۔ لہٰذاایک صالح معاشرے کے ہر ہر فرد کو اپنی ذاتی ذمہ داری پر نگاہ رکھنی چاہئے۔ دوسرے جو کچھ بھی کررہے ہوں، اس سے پہلے اسے یہ فکر ہونی چاہئے کہ وہ خود کیا کررہا ہے۔
تیسری بات جس پر متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخرکار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اُس کے بڑے لوگوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے خوشحال اور مالدار اور صاحب ِ اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں۔ ظلم و ستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔
پھر مسلمانوں کو وہ بات یاددلائی گئی ہے جو قرآن میں بار بار دہرائی جاتی رہی ہے کہ اگر تمہارے پیش نظر صرف یہی دنیا اور اس کی کامیابیاں اور خوشحالیاں ہوں تو یہ سب کچھ تمہیں مل سکتا ہے مگر اس کا آخری انجام بہت برا ہے۔ مستقل اور پائیدار کامیابی جو اس زندگی سے لے کر دوسری زندگی تک کہیں نامرادی سے داغدار نہ ہونے پائے، تمہیں صرف اسی صورت میں مل سکتی ہے جب کہ تم اپنی کوششوں میں آخرت اور اُس کی بازپرس کو پیش نظر رکھو۔ دنیا پرست کی خوشحالی بظاہر تعمیر کی شان رکھتی ہے مگر اس تعمیر میں ایک بہت بڑی خرابی کی صورت مضمر ہے۔ وہ اخلاق کی اس فضیلت سے محروم ہوتا ہے جو صرف آخرت کی جوابدہی کا احساس رکھنے ہی سے پیدا ہوا کرتی ہے۔ یہ فرق تم دنیا ہی میں دونوں طرح کے آدمیوں کے درمیان دیکھ سکتے ہو۔ یہی فرق بعد کی منازلِ حیات میں اور زیادہ نمایاں ہوجائے گا یہاں تک کہ ایک کی زندگی سراسر ناکامی اور دوسرے کی سراسر کامیابی بن کر رہے گی۔
ان تمہیدی نصیحتوں کے بعد وہ بڑے بڑے اصول بیان کئے گئے ہیں جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونی تھی۔ یہ ۱۴؍ اصول ہیں اور میں انہیں اسی ترتیب سے آپ کےسامنے بیان کرتا ہوں جس طرح وہ معراج کے اس پیغام میں بیان کئے گئے ہیں :
(۱) خدائے واحد کے سوا کسی کی خداوندی نہ مانی جائے۔ وہی تمہارا معبود ہو، اسی کی تم بندگی اور اطاعت کرواور اسی کے حکم کی پیروی تمہارا شعار رہے۔ اگر اس کے علاوہ کسی اور کا اقتدار ِ اعلیٰ تم نے تسلیم کیا، خواہ وہ کوئی غیر ہو یا تمہارا اپنا نفس، تو آخر کار تم قابل مذمت بن کر رہو گے اور اُن برکتوں سے محروم ہوجاؤگے جو صرف خدا کی تائید سے حاصل ہوا کرتی ہیں۔
(۲) انسانی حقوق میں سب سے اہم اور مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہئے۔ معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہئے جس میں اولاد والدین سے بے نیاز اور سرکش نہ ہو بلکہ اُن سے نیک سلوک کرے، اُن کا احترام ملحوظ رکھے اور بڑھاپے میں ان کی وہی نازبرداری کرے جو کبھی بچپن میں وہ اس کی کرچکے ہیں۔
(۳) اجتماعی زندگی میں تعاون، ہمدردی اور حق شناسی و حق رسانی کی روح جاری و ساری رہے۔ ہر رشتہ دار اپنے دوسرے رشتہ دار کا مددگار ہو۔ ہر محتاج انسان دوسرے انسانوں سے مدد پانے کا حقدار ہو۔ ایک مسافر جس بستی میں بھی جائے اپنے آپ کو مہمان نواز لوگوں کے درمیان پائے۔ معاشرت میں حق کا تصور اتنا وسیع ہو کہ ہر شخص تمام انسانوں کے حقوق اپنے اوپر محسوس کرے جن کے درمیان وہ رہتا ہے۔ ان کی کوئی خدمت کرے تو یہ سمجھے کہ وہ ان کا حق ادا کررہا ہے نہ کہ احسان کا بوجھ ان پر لاد رہا ہے، اور اگر کسی خدمت کے قابل نہ ہو تو معذرت کرے اور خدا سے فضل مانگے تاکہ وہ دوسروں کے کام آسکے۔
(۴) لوگ اپنی دولت کو غلط طریقوں سے ضائع نہ کریں ۔ فخر اور ریا اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فق و فجور کے خرچ اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہادیں، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ حقیقت میں شیطان کے بھائی ہیں اور ایک صالح معاشرے کا فرض ہے کہ ایسے بے جا صرف ِ مال کو اخلاقی تربیت اور قانونی پابندیوں کے ذریعے سے روک دے۔
(۵) لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہئے کہ وہ نہ تو بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ معاشرے کے افراد میں توازن کی ایک ایسی صحیح حس پائی جانی چاہئے کہ وہ بجا خرچ سے بھی باز نہ رہیں اور بے جا خرچ کی خرابیوں میں بھی مبتلا نہ ہوں۔
(۶) خدا نے اپنے رزق کی تقسیم کا جو نظام قائم کیا ہے، انسان اپنی مصنوعی تدبیروں سے اُس میں دخل انداز نہ ہو۔ اس نے اپنے سب بندوں کو رزق میں مساوی نہیں رکھا بلکہ ان کے درمیان کم و بیش کافرق رکھا ہے اور اس کے اندر بہت سی مصلحتیں ہیں جن کو وہ خود ہی بہتر جانتا ہے۔ لہٰذا ایک صحیح معاشی نظام وہی ہے جو خدا کے مقرر کئے ہوئے اِس طریقہ سے قریب تر ہو۔ فطری نامساوات کو ایک مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا یا نامساوات کو فطرت کی حدود سے بڑھا کر ناانصافی کی حد تک پہنچا دینا، دونوں یکساں غلط ہیں۔
(۷) نسلوں کی افزائش کو اس ڈر سے روک دینا کہ اگر کھانے والے بڑھ جائیں گے تو معاشی ذرائع تنگ ہوجائیں گے، یا تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑے گا، ایک بہت بڑی غلطی ہے۔
جو لوگ اس اندیشے سے آنے والی نسلوں کو ہلاک کرتے ہیں وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ رزق کا انتظام ان کے ہاتھ میں ہے۔ حالانکہ رازق وہ خدا ہے جس نے انسانوں کو زمین میں بسایا ہے۔ پہلے آنے والوں کے بھی رزق کا سامان اسی نے کیا تھا اور بعد کے آنے والوں کے لئے بھی وہی سامان کرے گا۔ جتنی آبادی بڑھتی ہے خدا اسی نسبت سے معاشی ذرائع بھی وسیع کردیتا ہے۔ لہٰذا لوگ خدا کے تخلیقی انتظامات میں بے جا دخل اندازی نہ کریں اور کسی قسم کے حالات میں بھی ان کے اندر ’’نسل کشی‘‘ کا میلان پیدا نہ ہونے پائے۔
(۸) زنا عورت اور مرد کے تعلق کی بالکل ایک غلط صورت ہے۔ اس کو نہ صرف بند ہونا چاہئے بلکہ معاشرے کے اندر اُن اسباب کا بھی سدباب کیا جانا چاہئے جو انسان کو اس کے قریب لے جاتے ہیں۔
(۹) انسانی جان کو اللہ نے قابل احترام ٹھہرایا ہے۔ کوئی شخص نہ اپنی جان لینے کا حق رکھتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی جان۔ خدا کی مقرر کی ہوئی یہ حرمت صرف اسی صورت میں ٹوٹ سکتی ہے جب کہ خدا ہی کا مقرر کیا ہوا کوئی حق اُس کے خلاف قائم ہوجائے۔
(۱۰) یتیموں کے مفاد کی اُس وقت تک حفاظت ہونی چاہئے جب تک وہ خود اپنے بل بوتے پر کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوجائیں۔ ان کے مال میں ایسا تصرف نہ ہونا چاہئے جو خود ان کے مفاد کیلئے بہتر نہ ہو۔
(۱۱) عہد و پیمان خواہ افراد ایک دوسرے سے کریں یا ایک قوم دوسری قوم سے کرے، بہرحال ایمانداری کے ساتھ پورے کئے جائیں۔ معاہدوں کی خلاف ورزی پر خدا کے ہاں بازپرس ہوگی۔
(۱۲) ناپ اور پیمانے اور اوزان ٹھیک رکھے جائیں اور لین دین میں صحیح تول تولی جائے۔
(۱۳) تم کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کے صحیح ہونے کا تمہیں علم نہ ہو۔ اپنی سماعت اور بینائی اور اپنی نیتوں ، خیالات اور ارادوں کا تمہیں خدا کو حساب دینا ہے۔
(۱۴) زمین میں جباروں اور متکبروں کی چال نہ چلو۔ تم نہ اپنی اکڑ سے زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ اپنے غرور میں پہاڑوں سے سربلند ہوسکتے ہو۔
یہی وہ اصول تھے جن پر آپﷺ نے مدینہ پہنچ کر اسلامی معاشرے اور ریاست کی تعمیر فرمائی۔ n