اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی نہ عیش کدہ ہے اور نہ جہنم زار‘بلکہ امتحان ہے۔ یہ امتحان کبھی نعمت سے ہوتا ہے تو کبھی مصیبت سے۔
EPAPER
Updated: September 20, 2024, 3:55 PM IST | Malik Atta Muhammad | Mumbai
اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی نہ عیش کدہ ہے اور نہ جہنم زار‘بلکہ امتحان ہے۔ یہ امتحان کبھی نعمت سے ہوتا ہے تو کبھی مصیبت سے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی نہ عیش کدہ ہے اور نہ جہنم زار‘بلکہ امتحان ہے۔ یہ امتحان کبھی نعمت سے ہوتا ہے تو کبھی مصیبت سے۔ نعمت یعنی خوشی، نفع، عزت، صحت، اولاد، دولت، حکومت، فتح اور زندگی وغیرہ اور مصیبت یعنی غمی، نقصان، ہلاکت، ذلت، بیماری، اولاد کا نہ ہونا، غلامی، شکست، طوفان اور زلزلہ وغیرہ۔
اس امتحان و ابتلا میں سے ہرشخص اور قوم کو گزرنا ہوتا ہے۔ اس میں کسی کے لئے رعایت نہیں۔ انبیاء ؑجو خدا کے پیارے اور محبوب ہوتے ہیں، اُنہیں بھی اس آزمائش سے گزرنا پڑا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں پیدا ہوتے ہیں کہ باپ کا سایہ سر پر نہ تھا۔ چھ سال کے ہوتے ہیں تو والدہ ماجدہ وفات پاجاتی ہیں اور آٹھ سال کی عمر میں دادا کا سایہ اٹھ جاتا ہے۔ لڑکپن میں مکہ والوں کی بھیڑبکریاں چرائیں۔ نبوت کا زمانہ تو نہایت مشقت و ابتلاء کا دور تھا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم ؑکو چند باتوں میں آزمایاگیا (البقرہ:۱۲۴) آگ میں ڈالا گیا، وطن سے نکالا گیا، بیوی اوربچے کو جنگل میں چھوڑنے کا حکم ہوا اور اپنے پیارے بیٹے کو ذبح کرنے کا اشارہ ملا (الصفّٰت:۱۰۲)۔ حضرت یعقوب ؑکا بیٹا گم ہوجاتا ہے اور غم میں ان کی بینائی تک جاتی رہتی ہے (یوسف:۸۴)۔ حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ میں ۴۰ ؍ دن تک رہتے ہیں (الانبیاء:۸۷)۔ حضرت یوسف ؑکنویں میں ڈالے جاتے ہیں پھر بیچ دیئے جاتے ہیں اور بعد میں تقریباً نو سال تک جیل میں رہتے ہیں۔ (سورہ یوسف)
یہ رب کائنات کا مستقل دستور ہے اور اس میں سے ہر ایک کو گزرنا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نعمت دے کر بھی آزماتے ہیں۔ سیدنا دائود ؑ، سلیمان ؑکو حکومت عطا کی اور وہ اس میں اپنے رب کے شکرگزار بن کر رہے یعنی آزمائش میں کامیاب ہوئے۔ قومِ سبا اور دوسری قوموں کو بھی نعمتوں سے آزمایا۔ وہ کفرانِ نعمت کرکے ہلاک و برباد ہوگئیں۔
نعمت و ابتلا میں صحیح رویہ
ایک مسلمان کے لئے صحیح رویہ یہ ہے کہ نعمت پر شکر کیا جائے اور مصیبت پر صبر۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومنین کے مزے ہیں کہ اللہ جو فیصلہ کرتا ہے ان کیلئے اس میں خیر ہی ہوتی ہے۔ اگر مصیبت آئے اور وہ صبر کرتے ہیں تو ان کوثواب ملتا ہے اور اگر ان کو خوشی ملے تو شکر کرتے ہیں تو بھی ان کے لئے خیر ہوتی ہے اور یہ صرف مومنین کے لئے ہے۔ (بخاری، مسلم)
یہ بھی پڑھئے:پہاڑ: اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی نشانی
مومن نعمت پاکر آپے سے باہر نہیں ہوتا کیونکہ یہ اُس کا اپنا اکتساب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور مصیبت کو بھی وہ بڑے حوصلے سے برداشت کرتا ہے۔ مایوسی، پریشانی، شکوہ، شکایت اور خودکشی سے اجتناب کرتا ہے کیونکہ یہ سب چیزیں اُس کے مقدر میں ہیں (الحدید: ۲۲-۲۳) فی الحقیقت عقیدۂ تقدیر غم کو غلط کرنے والا ہے کہ دکھ آیا، ہلاکت و بربادی ہوئی اور زبان پر ہے: انا للہ وانا الیہ راجعون! بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اُسی کے پاس جانا ہے۔ ان الفاظ میں جادو ہے۔ یہ انسان کو سمجھاتے اور تسلی دیتے ہیں کہ دنیا فانی ہے صرف باپ، بیٹا، گھر اور مال نہ گیا، ہم سب کوہی ادھر جانا ہے اور وہاں جاکر اللہ تعالیٰ ان تمام نقصانات کی تلافی فرما دینگے اور اجرعظیم عطا فرمائینگے۔ اس دعا کے علاوہ ہم اپنی زبان میں بھی فوری ردعمل یوں ظاہر کرتے ہیں : ’’قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا‘‘، ’’ مولا تیری مرضی، ہم تیرے لکھے پر راضی ہیں۔ ‘‘ ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ہی غم غلط، دکھ دُور اور اپنوں کی جدائی پر صبر کا حوصلہ ملتا ہے۔
یہ خیال رہے کہ عقیدۂ تقدیر انسان کو بے عمل نہیں بنا دیتا بلکہ انسان کو غم و نقصان کو حوصلے سے برداشت کرنے کی قوت دیتا ہے اور آئندہ کے لئے اُسے سعی و جہد پر اُبھارتا ہے۔ اس کا ایمان ہوتا ہے کہ اُس کا رب قادر بھی ہے اور رحمٰن و رحیم بھی جو ماں سے ۷۰؍ گنا رحیم ہے۔ اُس کی رحمت تو خیر ہے ہی رحمت، لیکن زحمت میں بھی خیر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ (النساء:۱۹) جیسے حضرت یوسف ؑ کی مثال کہ کنویں میں جانا مصر جانے کا سبب بنا، اور مصر کے بازار میں بکنا عزیز ِ مصر کے گھر پہنچنے کا سبب بنا اور وہاں سے جیل میں ڈالا جانا مصر کی حکومت ملنے کا وسیلہ بنا۔
یہ صرف ایک مثال نہیں بلکہ ہر آدمی کی زندگی میں کئی ایسے لمحات آتے ہیں جنہیں وہ شر سمجھتا ہے لیکن بعد میں وہی بڑی خیر ثابت ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا جیسے موسیٰؑ اور خضر ؑکا قصہ (سورہ کہف)۔ دو باتوں کی حکمت تو آسانی سے سمجھ آتی ہے: کشتی کا تختہ نکالنے سے ملاح بادشاہ کی بیگار سے بچ گئے اور نیک آدمی کے یتیم بچوں کی دیوار بنانے سے اُن کا خزانہ محفوظ ہوگیا لیکن معصوم بچے کے مارنے کی علت عقل سے ماورا ہے کہ یہ بڑا ہوکر شریر بنے گا۔ (الکہف:۷۴، ۸۰-۸۱)۔ یہاں ہم مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور فیصلے پر راضی رہیں۔ یہ تکوینی امور ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں جن کے تحت دنیا میں ہر آن کوئی بیمار کر ڈالا جاتا ہے اور کوئی تندرست کیا جاتا ہے، کسی کو موت دی جاتی ہے اور کسی کو زندگی سے نوازا جاتا ہے، کسی کوتباہ کیا جاتا ہے اور کسی پر نعمتیں نازل کی جاتی ہیں۔ اس کے باوجود مصائب میں بے شمار خیر کے پہلو ہوتے ہیں۔ ایک مسلم کو ہمیشہ اُن پر نظر رکھنی چاہئے۔ اس طرح وہ اپنے قلب و ذہن کو پریشانی اور مایوسی سے پاک رکھ سکتا ہے۔ وہ شر میں بھی خیر تلاش کرے تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں وہ پہلے سے زیادہ حوصلہ سے قدم رکھ سکے اور ماضی کی پریشانیاں دل سے نکال کر آئندہ کے غم سے اپنے آپ کو پاک کرکے آج کو زیادہ خوب صورت و خوش نما بنا سکے اور بالآخر دونوں جہان میں سرخرو ہو سکے۔