اسلام میں دوسروں کی مدد کو عظیم نیکی اور سماجی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، جس کے لئے ایک مستقل نظام وضع کیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: March 07, 2025, 1:22 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
اسلام میں دوسروں کی مدد کو عظیم نیکی اور سماجی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، جس کے لئے ایک مستقل نظام وضع کیا گیا ہے۔
اسلام میں دوسروں کی مدد کو عظیم نیکی اور سماجی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، جس کے لئے ایک مستقل نظام وضع کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اس کی تلقین کی گئی ہے اور اسے عظیم اجر و ثواب کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ اسلام میں صدقہ، زکوٰۃ، خیرات اور ایثار جیسے احکامات اسی نظام کی عملی شکلیں ہیں، جو سماج میں ہمدردی، محبت اور باہمی تعاون کو فروغ دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ ‘‘ (مسلم) یہ تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ حقیقی کامیابی اور خوشی دوسروں کے کام آنے میں ہے، اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں ہے جہاں ضرورت مندوں کا خیال رکھا جائے اور ہر فرد ایک دوسرے کے لئے سہارا بنے۔
مذکورہ پس منظر میں اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسلام میں دینے اور مدد کرنے کا تصور محض مالی یا مادی تعاون تک محدود نہیں، بلکہ اس میں عزت و وقار کا مکمل خیال رکھنا بھی شامل ہے۔ قرآن و حدیث میں بارہا اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ کسی کی مدد اس انداز میں کی جائے کہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور وہ خود کو کمتر محسوس نہ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر۔ ‘‘ (البقرہ:۲۶۴) اسی لئے شریعت مطہرہ نے بھی اس بات کی ترغیب دی کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو کسی محتاج کو اس کی عزتِ نفس برقرار رکھتے ہوئے دیا جائے، حتیٰ کہ بعض روایات میں پوشیدہ صدقہ کرنے کو افضل قرار دیا گیا ہے۔ یہ تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ حقیقی احسان وہی ہے جو دوسروں کے دل میں محبت اور عزت کا احساس پیدا کرے، نہ کہ انہیں شرمندگی یا محتاجی کا احساس دلائے۔
یہ بھی پڑھئے:ماہِ رمضان المبارک کے اعمال کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ان کی ادائیگی کا خصوصی اہتمام کیجئے
یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ بعض لوگ ایک طرف تو نیکی کا کام کرتے ہیں، مگر دوسری طرف شیطان کے جال میں آ کر اپنی رعونت اور تکبر کے ذریعے اس نیکی کے اثر کو زائل کر دیتے ہیں۔ کسی کی مدد کرنا بلاشبہ ایک عظیم عمل ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ تحقیر، طعنہ یا احسان جتانے کا رویہ شامل ہو جائے تو یہ نہ صرف انسانیت کے خلاف ہے بلکہ شریعتِ اسلامیہ کی روح کے بھی منافی ہے۔ ہمیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی عظمت کا حسن صرف دینے میں نہیں، بلکہ دینے کے سلیقے میں پوشیدہ ہے۔ اگر کسی کی مدد اس طرح کی جائے کہ وہ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرے، تو یہ سخاوت نہیں بلکہ برتری جتانے کا ایک نیا انداز بن جاتا ہے۔ اسلام کی روح یہ ہے کہ حاجت مند کو اس کے وقار کے ساتھ سہارا دیا جائے، نہ کہ اس کی ضرورت کو اس کی عزت پر بھاری کر دیا جائے۔ ہمیں اپنے رویوں کا جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں ہمارا ہاتھ بلند ہونے کے باوجود کسی کا دل پست تو نہیں ہو رہا؟ کہیں ہماری مدد، ہمارے احسان کے بوجھ تلے کسی کی خودداری کو روند تو نہیں رہی؟ یاد رکھئے! حقیقی نیکی وہی ہے جو کسی کی ضرورت کو مٹانے کے ساتھ ساتھ اس کی خودداری کو بھی محفوظ رکھے، ورنہ ہماری خیرات، ہماری نفس پرستی کا ایک اور ملبہ بن کر رہ جائے گی۔
موجودہ دور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم سے کچھ افراد دینی خدمات انجام دینے والے اہلِ مدارس کے ساتھ وہ رویہ اختیار نہیں کرتے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ علماء اور طلباء وہ لوگ ہیں جو دینِ اسلام کے چراغ کو روشن رکھنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں، لیکن جب ہم ان کی مدد یا اعانت کرتے ہیں تو اکثر ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں جو ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دینی طبقہ ہمارامحتاج نہیں ہے، بلکہ ہم ان کے علم، تربیت اور ہنمائی کے محتاج ہیں۔ اس لئےہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا تاکہ ہم اہلِ مدارس کی مدد کرتے ہوئے ان کے وقار اور مقام کا مکمل لحاظ رکھ سکیں، ورنہ ہماری مدد نیکی کے بجائے ایک اخلاقی کمزوری میں تبدیل ہو جائے گی۔
ہم اس وقت رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں سانس لے رہے ہیں جس میں زمین پر رحمتیں برستی ہیں اور آسمان سے مغفرت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہر نیکی کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے، اور دلوں میں سخاوت کی ایک نئی روح پھونکی جاتی ہے۔ اس مہینے میں خیرات و صدقات کی بھی فضیلت بے حساب ہو جاتی ہے، کیونکہ یہ عمل صرف ضرورت مندوں کی حاجت روائی ہی نہیں، بلکہ دینے والے کے روحانی ارتقاء اور اللہ کی قربت کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ اس لئے اس وقت ہم تمام آداب کی رعایت کے ساتھ اپنا دست ِ تعاون دراز کریں اور اس عمل کو ایک بوجھ یا احسان کے طور پر نہیں، بلکہ ایک سعادت سمجھ کر انجام دیں تاکہ ہمارا ہر دیا ہوا سکہ اور ہر مدد کا لمحہ، دنیا میں آسانی اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بن جائے۔ n