• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشرتی برائیوں سے بچنے کا بہترین نسخہ نیک لوگوں کی صحبت ہے

Updated: September 20, 2024, 4:43 PM IST | Dr. Muhammad Tahir-ul-Qadri | Mumbai

دُنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور کمیونکیشن اِتنی وسیع اور تیز رفتار ہو گئی ہے کہ اُس کی وجہ سے کوئی بھی خبر سیکنڈز کے اندر اندر پوری دُنیا میں پھیل جاتی ہے۔

It is not possible to take all the conveniences of the modern age and throw them out of the house or to live in the forests and caves with a bed sack. Photo: INN
دورِ جدید کی تمام سہولتیں اُٹھا کے گھر سے باہر پھینکنا یا پھر بستر بوریا اُٹھا کر جنگلوں غاروں میں جا کر رہنا ممکن نہیں ہے۔ تصویر : آئی این این

دُنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور کمیونکیشن اِتنی وسیع اور تیز رفتار ہو گئی ہے کہ اُس کی وجہ سے کوئی بھی خبر سیکنڈز کے اندر اندر پوری دُنیا میں پھیل جاتی ہے۔ یوں خیر اور شر کے اَثرات بھی تیزتر ہو گئے ہیں۔ پچھلی صدیوں میں ایک شہر کے لوگ دُوسرے شہر کے حالات، کلچر، رہن سہن، اچھائی و برائی، نیکی و بدی سے آگاہ نہیں ہوتے تھے۔ لوگوں کا تعلق اپنے اپنے شہروں اور علاقائی ماحول تک رہتا تھا۔ اُس زمانے کے ہندوستان کے لوگوں کی خبر عالمِ عرب کو نہ تھی، عرب کے اَحوال کی خبر ہند کو نہیں تھی۔ وسطی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ ایک دُوسرے سے بے خبر ہوتے تھے۔ دُنیا میں ہونے والے ڈیولپمنٹ کے ماحولیاتی اَثرات علاقائی ہوتے تھے۔ بعض اَوقات آس پاس کے شہروں سے آگے کی خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ تب لوگوں کو خیر کی طرف بلانے والے اَفراد بھی اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر حلقات، خانقاہیں اور مراکز بنا کر دین کی تروِیج کا کام کرتے تھے۔ چونکہ ہر علاقے میں شر کا پھیلاؤ مقامی سطح تک رہتا تھا اِس لئے اُس کے علاج کے لئے مقامی سطح کی کوششیں ہی کارگر رہتی تھیں۔ 
 بیسویں صدی سے شروع ہونے والا ٹیکنالوجی کا حالیہ عروج دُنیا کو گلوبل ولیج بنا چکا ہے۔ جس طرح ایک زمانے تک لوگ اپنے قصبے، گاؤں یا شہر کی حد تک ایک دُوسرے سے اچھے اور برے اَثرات کو قبول کرتے تھے، اُسی طرح اَب پوری دُنیا ایک گاؤں بن گئی ہے اور لوگ پورے عالم کے اَثرات لیتے ہیں۔ جو کچھ آج کل امریکہ میں ہو رہا ہے یہاں بیٹھا شخص اُس کا فوری اَثر لے رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ، الیکٹرانک میڈیا، ٹی وی، کمپیوٹر، اِنٹرنیٹ اور موبائل تیزی سے مشرق و مغرب کو باہم ملا رہے ہیں۔ ایک چھوٹی سی اسکرین آپ کے سامنے ہے اور آپ اُسی پر ساری دُنیا کو دیکھ رہے ہیں کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔ خیر بھی اُسی پر آ رہا ہے اور شر بھی بلاروک ٹوک اُسی پر آ رہا ہے۔ اب ساری دُنیا کی معلومات، احوال اور اثرات سمٹ کر موبائل فون کی صورت میں آپ کے ہاتھ میں آ جاتے ہیں۔ آنے والے وقت میں ٹی وی کے مختلف چینلوں کے کنکشن لینے کی زحمت بھی ختم ہو جائے گی (بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو کہ وہ وقت آچکا ہے)۔ 
 ٹیکنالوجی کے فروغ سے جہاں اِنسانیت کو اُس کے خوشگوار اَثرات مل رہے ہیں اُس سے زیادہ تیزرفتاری کے ساتھ منفی اَثرات اور نقصان دِہ پہلو پھیل رہے ہیں۔ پرانے دَور میں والدین بچوں کو برے دوستوں کی صحبت سے بچانے کیلئے گھر سے باہر جانے سے روکتے تھے، اَب ہر قسم کی اچھی و بری صحبت اُنہیں گھر میں اسٹڈی ٹیبل پر میسر ہے۔ بچوں کے کمرے میں پڑا کمپیوٹر اُنہیں اچھے برے ہر قسم کے دوستوں سے چند سیکنڈز میں ملا دیتا ہے۔ بچوں کا کمپیوٹر اور موبائل ہی اُن کی صحبت ہے، اچھا اِستعمال کر لیں یا برا۔ یوں اَب گھر میں بیٹھ رہنے سے بری صحبت سے بچنا ممکن نہیں رہا، جو چاہیں سن لیں، دیکھ لیں، جس سے چاہیں بات کر لیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی سے جہاں ذرائع بڑھ گئے ہیں، وہاں برائی بھی اُتنی ہی طاقتور ہو گئی ہے۔ پرانے دَور میں لوگوں کو شر سے بچنے کیلئے تنہائی اور خلوت کا سبق دیا جاتا تھا، اَب خلوت خود جلوت ہو گئی ہے، تنہائی خود صحبت اور مجلس بن گئی ہے، کوئی بچ کے جائے تو کہاں جائے! اب صحبتِ بد سے پرانے اَنداز میں بچنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں، یہ قطعی عجیب اور غیر متوقع دور ہے۔ 
 دورِ جدید کی یہ تمام سہولتیں اُٹھا کے گھر سے باہر پھینکنا یا پھر بستر بوریا اُٹھا کر جنگلوں غاروں میں جا کر رہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اَب سوال یہ ہے کہ اِسی دُنیا میں رہتے ہوئے اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اَیسا کون سا طریقہ اپنایا جائے کہ ہم خود اور ہماری اگلی نسلیں صحبت ِ بد کے اَثرات سے بچ سکیں اور ہمارا دِین و اِیمان محفوظ رہے! اِس کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے، وہ یہ کہ ہر قسم کی صحبت ِ بد کے اَثرات کا اِزالہ صحبت ِ نیک کے ذریعے ہی ممکن ہے، اِس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ممکن نہیں۔ قرآنِ مجید میں اﷲ ربّ العزت نے فرمایا:
 ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔ اُن لوگوں کا نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔ ‘‘(الفاتحہ: ۵؍تا۷)
 قرآنی حکم کے مطابق صحبت ِ بد کے توڑ کے لئے صحبت ِ صالح کو اِختیار کر لیا جائے تو بری صحبت کے اَثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ جتنا صحبت ِ صالح طاقتور ہو گی اُسی قدر بندہ صحبت ِ بد کے اَثرات سے بچ سکے گا۔ جتنے مختلف اَقسام کے حملے دِین و اِیمان پر ہو رہے ہیں اُن تمام حملوں کے مقابلے کے لئے ایسی طاقتور نیک صحبت کی ضرورت ہے جو بری صحبت کے تمام حملوں سے بچا سکے۔ اگر ہم ایسی نیک صحبت اِختیار کر لیتے ہیں جس کے پاس دِفاع کی صورت تو ہے مگر ہتھیار صرف ایک ہی ہے۔ سو ہتھیاروں سے حملہ آور صحبت ِ بد کے مقابلے کے لئے ایک ہتھیار سے مقابلہ ممکن نہیں رہے گا۔ اِیمان پر حملے کئی اَقسام کے ہیں اِس لئے اُن سے بچانے کے لئے ایسی نیک صحبت کی ضرورت ہے جو ہر قسم کے حملوں سے بچا سکے۔ اگر صحبت ِ بد کا حملہ دِماغ پر ہو تو صحبت ِ نیک اُسے عقل و فہم کے ذریعے بچا سکے، اگر اُس صحبت کا اَثر ہمارے دِل پر ہو جائے تو جذباتی طریق سے بھی اُس سے بچاؤ کیا جا سکے، اگر اُس کے اَثرات ہمارے عمل پر ہو جائیں تو عملی طریق سے بھی بچاؤ کا سامان ہونا چاہیئے، اگر نفسیاتی حملہ ہو تو نفسیاتی سطح پر بھی اُس سے دِفاع کا سامان ملنا چاہئے، اگر اَخلاقی حملہ ہے تو اَخلاقی سامان ملنا چاہئے، اگر صحبت ِ بد کا حملہ روحانی نوعیت کا ہے تو روحانی علاج کا سامان بھی ہونا چاہئے، سماجی و معاشرتی اثرات ہو رہے ہوں تو سماجی و معاشرتی دِفاع ہونا چاہئے۔ الغرض آج کے دَور میں ہمہ جہتی حملوں کے مقابلے میں صحبت ِ خیر کے پاس ہمہ جہتی دِفاعی نظام ہونا چاہئے تاکہ صحبت ِ بد جس اَنداز سے بھی ایمان پر حملہ آور ہو وہ اُسے متعلقہ ہتھیار کے ساتھ تباہی سے بچا سکے۔ جس زمانے میں صرف ٹینک سے جنگ ہوتی تھی تب ٹینک کا جواب ٹینک سے دینا ممکن تھا، جب ائیرفورس کا زمانہ آ گیا تو ٹینک سے اُس کا حملہ روکنا ممکن نہیں رہا۔ اَب ضروری ہے کہ صحبت ِ صالح کے پاس ہر قسم کے حملوں سے دِفاع کا اِنتظام ہو جن سے اِس جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے دَور میں نئی نسلوں کو سابقہ پڑ رہا ہے اور اَیسی جامع اور ہمہ گیر نیک صحبت ہی ہمیں بری صحبت کے اَثرات سے بچا سکتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK