• Sat, 28 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آپؐ نےہرمشکل موقع پرجس عزم واستقلال کا مظاہرہ فرمایاوہ آپؐ ہی کےشایانِ شان تھا

Updated: September 28, 2024, 5:06 PM IST | Irshad-ur-Rahman | Mumbai

زیرنظر سطور میں اُسوہ حسنہؐ سے ایسی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو ایک طرف ایک مومن کیلئے روزمرہ معاملات اور پریشانیوں میں نمونہ ہیں، تو دوسری طرف ان میں حق و باطل کی کشمکش میں اہل حق کیلئے رہنمائی کا سامان موجود ہے۔

Madinah. Photo: INN
مدینہ۔ تصویر: آئی این این

 انسان کو زندگی میں بے شمار مصائب و مشکلات اور تکالیف و شدائد سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی تکلیف سے انسان کا دل متاثر ہوتا ہے، کوئی انسان کے بدن کو تکلیف دیتی ہے، کسی سے انسان مالی طور پر خسارے کا شکار ہوتا ہے، کسی سے اولاد کے معاملے میں اسے تکلیف پہنچتی ہے اور کوئی اس کے اہل خانہ و شریک حیات کے بارے میں اس کی دل آزاری کا باعث بنتی ہے۔ غرض انسان کو ایک نہیں کئی پہلوئوں سے مصائب اور تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ تکلیفیں اور مصیبتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔ جو شخص ان آزمائشوں پر صبر کرے اور ان کے تقاضوں پر پورا اُترے، اللہ تعالیٰ اس کو دنیا و آخرت میں بلند مقام سے نوازتا ہے۔ البتہ آزمائشوں میں ثابت قدم رہنا اور ان میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سامنے سرتسلیم خم رکھنا بلند ہمت لوگوں کا کام ہے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ نے امن و امان، صحت و سلامتی، جان و مال اور آل اولاد میں کمی کر کے اہلِ ایمان کی آزمائش کرنے کا ذکر کیا ہے:
’’ اورہم ضرو ر تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے، انہیں خوش خبری دے دو۔ اُن پر اُن کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔ ‘‘ (البقرہ:۱۵۵؍ تا ۱۵۷)
دوسری جگہ مال و جان کے ساتھ دشمنانِ دین اور مشرکین کی طرف سے زبانی اذیتوں کے پہنچنے کا ذکر یوں کیا گیا:
’’ (اے مسلمانو!) تمہیں ضرور بالضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا، اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک (طعنے) سننے ہونگے، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقوٰیٰ اختیار کئے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں سے ہے۔ ‘‘ (آلِ عمران :۱۸۶)
مذکورہ دونوں آیات کی بہترین تفسیر بھی قرآنِ حکیم ہی کے اندر موجود ہے۔ جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ قرآنِ حکیم نے جس اسلوب میں کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جان و مال، بیوی بچوں اور رزق اور امن و امان میں کمی کر کے ہر طرح سے آزمایا، اور جب آپ ان تمام آزمائشوں میں کامیاب ٹھہرے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بلند ہمتی اور صبر و ثبات کو دنیا کے لئے یادگار بنا دیا اور ان کو دنیا کا امام بنایا اور ان کی فردِ واحد کی حیثیت ہی میں ان کو امت قرار دیا۔ 
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے۔ آپؐ کو نبوت و رسالت کی گراں بار ذمہ داری سے پہلی بار آگاہ کیا گیا تو اس راہ کی مشکلات کا اندازہ آپؐ کو اسی وقت ہو گیا تھا جب ورقہ بن نوفل نے یہ کہتے ہوئے حسرت و افسوس کا اظہار کیا تھا کہ: ’’کاش! میں اس وقت جوان ہوتا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو یہاں سے نکال دے گی۔ ‘‘ ورقہ کی یہ بات واقعتاً سچ ثابت ہوئی کہ جس روز اللہ کے رسولؐ نے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف آنے کی دعوت دی اسی روز سے قوم کی نادانیوں اور ایذائوں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ آپؐ کی راہ روکی گئی، آپؐ کو جھٹلایا گیا، آپؐ کو ٹھٹھہ اور تضحیک سے رسوا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قریش کی ایذائوں کا ہدف بنے تھے اس وقت آپؐ کے رفقا ءکو ابھی ان مصیبتوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ رسولؐ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’مجھے اللہ کے معاملے میں اس قدر ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ کسی اور کو اس قدر نہیں ڈرایا گیا۔ مجھے اللہ کے معاملے میں جس قدر اذیت سے دوچار کیا گیا کسی اور کو نہیں کیا گیا۔ میرے اوپر تیس تیس دن رات ایسے بھی آتے رہے کہ میرے اور بلال کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہ ہوتا تھا جس کو کوئی جان دار کھا سکے، سوائے اس معمولی شے کے جو بلال اپنے ہاتھ میں چھپائے ہوتے۔ ‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: ۲۴۷۲)
یہ اس ذات کی کیفیت ہے جس کو قرآن نے تمام جہانوں کیلئے رحمت قرار دیا ہے، انسانیت کا محسن بتایا ہے، لوگوں کی ہدایت و نجات کے لئے اپنی جان کو ہلکان کرنے والا کہا ہے۔ اس شخصیت سے روا رکھے جانے والے سلوک کا تذکرہ تو دلوں کے خون کو منجمد کر دیتا ہے مگر عقل و فراست اور زبان و بیان میں امتیازی شان رکھنے کا دعویٰ کرنے والے اہل مکہ کو دیکھئے کہ وہ انسان بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں جو ان کے نزدیک پاکیزہ ترین اور صادق و امین ہے۔ بات زبانی ایذارسانی تک محدود رہتی تو تاریخ انسانی کے کاتبوں کیلئے اسے نظر انداز کرنا شاید ممکن ہوجاتا مگر معاملہ عددی قوت کو بروئے کار لا کر تلوار زنی اور نیزہ بازی تک پہنچ گیا۔ تیرہ (۱۳) برس تک قریش مکہ کی ایذائوں کا ہدف بنے رہنے کے بعد بالآخر جب مظلومانہ جذبات سے بھرے دل کے ساتھ یہ رحیم و کریم انسان مکہ کو خیرباد کہتا ہے اور بے سروسامانی کے عالم میں مدینہ چلا جاتا ہے تو یہ کشمکش مسلح جنگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر معاملہ ایذا رسانی، جلائو گھیرائو اور سب وشتم سے آگے بڑھ جاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بقیہ زندگی اسی کشمکش میں گزرتی ہے۔ ایک کے بعد دوسری آزمائش اور دوسری کے بعد تیسری اور پھر یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ 
رب کی کبریائی کا پیغام لے کر جو شخص بھی آیا اس کے ساتھ دشمنی روا رکھی گئی۔ انسانی تاریخ کے گزشتہ دور کی شہادت بھی یہی ہے اور ماضی قریب اور عہد رواں کی گواہی بھی یہی ہے۔ تاریخ نے ان کرداروں کی مساعی و مشکلات کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ سیکڑوں صفحات پر محیط ہے۔ آج کے داعی اور داعیانہ کرداروں کو بھی بعینہٖ انہی حالات سے سابقہ ہے جو مذکورہ بالا افراد کو تھا۔ یقیناً وہ سب اپنے اپنے وقت کیلئے نمونہ تھے، لیکن ان سب میں بہترین اسوہ وہی ہے جس کو قرآنِ مجید نے بہترین کہا ہے، یعنی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ!

یہ بھی پڑھئے:فتاوے: سود کے پیسے اور تاوان، طلاق کا مسئلہ، قصداً ترک جمعہ

ان سطور میں اسی اُسوہ حسنہؐ سے ایسی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو ایک طرف مومن کیلئے روزمرہ معاملات اور مصائب اور پریشانیوں میں نمونہ ہیں، تو دوسری طرف ان میں حق و باطل کی کشمکش میں اہل حق کے لئے رہنمائی کا سامان موجود ہے۔ آیئے دیکھیں کہ رسولؐ اللہ نے ایسے حالات میں مصائب و مشکلات کو کس طرح انگیز کیا اور ان کو اپنی دعوت کے لئے کیسے ممدو معاون بنایا۔ 
اجر اور انعام کی بشارت
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب کے وعدے اور گناہوں پر بخشش کی خوشخبریاں مومنوں کیلئے بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے آپؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’انبیاء کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی، پھر ان سے کم درجہ لوگوں کی۔ آدمی کی آزمائش اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو آزمائش بھی سخت ہوتی ہے، اور اگر دین میں نرم ہو تو اس کی دینی کیفیت کے مطابق ہی آزمائش بھی ہوتی ہے۔ ‘‘ (ترمذی)
مومن کا یہ ایمان ہے کہ دین کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و تکالیف بہترین دروس اور مفید تجربات ہیں جو اس کی شخصیت کو آزمائش کی بھٹی سے گزار کر کندن بنا دیتے ہیں اور اس کے ایمان کو جلا بخشتے ہیں، اس سے زنگ کو کھرچ ڈالتے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ اس مومن کی مثال جس کو کسی آزمائش سے دکھ پہنچے اس لوہے جیسی ہے جس کو آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ اس کے کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے اور اصل لوہا باقی رہ جاتا ہے۔ 
دعا اور گریہ و زاری
اپنے مقصد کو حاصل کرنے اور مصیبتوں تکلیفوں سے نکلنے کیلئے دعا سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ یہ مومن کا ہتھیار ہے۔ رسولؐ اللہ نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اللہ سے مدد و استعانت طلب کرے۔ آپؐ نے دعا کا مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی عبادت ہے۔ یہ عبادت کا مغز ہے۔ دعا میں غفلت اور تساہل سے آپؐ نے منع فرمایا۔ 
مصیبتوں اور تکلیفوں کے مواقع پر رسولؐ اللہ مخصوص دعائیں فرمایا کرتے تھے۔ ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے جب کوئی معاملہ بڑا اہم ہو جاتا تو آپؐ آسمان کی طرف چہرہ بلند کر لیتے، اور گڑ گڑا کر دعا کرنا مقصود ہوتا تو یَاحَیُّ یَا قَیُّوْمُ کہتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ اکرم کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپؐ یوں دعا کرتے: یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ(ترجمہ: اے زندہ اور قائم ذات! میں تیری رحمت کے واسطہ سے تیری مدد کا طالب ہوں )۔ 
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ مصیبت کے موقع پر یوں دعا کرتے: لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ العَظِیْمِ، لَا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ (ترجمہ: اللہ بزرگ و برتر رب کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں، ساتوں آسمان و زمین کے رب اور عرشِ کریم کے رب، اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں !) (بخاری، مسلم)
رسولؐ اللہ شدائد و مصائب کے مواقع پر دعا کے ذریعے اللہ کی مدد اور نصرت طلب فرمایا کرتے تھے۔ طائف سے واپسی پر اور غزوئہ بدر کے موقع پر آپؐ کی دعائیں آج بھی رہنمائی کرتی ہیں۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو گہرے زخم آئے تھے، رسولؐ اللہ بھی اس موقع پر زخمی ہوئے اور آپؐ کو بھی دشمن کے سخت حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا صدمہ بھی اسی غزوے میں آپؐ کو پہنچا۔ اپنے زخموں اور چچا کی شہادت کے صدمے کی شدت سے قریب تھا کہ آپؐ بے ہوش ہو جاتے، آپؐ نے اس نازک اور اندوہناک صورتِ حال میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و توصیف بیان فرمائی۔ 
غزوۂ احزاب (خندق) کے موقع پر جب دشمن نے مسلمانوں کا محاصرہ سخت کردیا تو اللہ کے رسولؐ مشرکین کے خلاف دعا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا فرمائی: ’’ اے اللہ، کتاب کے نازل کرنے والے، جلد حساب لینے کی قدرت رکھنے والے! ان لشکروں کو شکست سے دوچار کر دے۔ اے اللہ ان کو شکست دے دے اور ان کے قدم اکھاڑ دے۔ ‘‘
 دعا عظیم عبادتوں میں سے ایک ہے۔ انسانی عقل، ذہانت و فطانت کی کتنی ہی بلندیاں کیوں نہ سر کر لے، بہرحال وہ متزلزل ہونے سے مبرا نہیں۔ مومن پر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہ تفکر و تدبر سے عاجز ہو جاتا ہے۔ اس کیلئے اس کے سوا کوئی راستہ نہی ہوتا کہ وہ اللہ کے سامنے دست دعا دراز کر دے۔ پھر ادھر دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہاتھ نیچے آتے اور دعا کے الفاظ کا سلسلہ ختم ہوتا ہے تو اُدھر اللہ رب العالمین کی طرف سے قبولیت کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK