Inquilab Logo Happiest Places to Work

صحبت کی تاثیر مزاج پر نازک مگر گہری چھاپ چھوڑتی ہے

Updated: April 03, 2025, 11:03 PM IST | Md Tauqeer Rahmani | Mumbai

امام غزالیؒ کے بھائی احمد غزالیؒ کو ابتداء میں نامناسب صحبت کا سامنا تھا، جس کے اثرات ان کی شخصیت پر مرتب ہو رہے تھے۔ والدہ نے ان کی اصلاح کے لئے ایک حکیمانہ تدبیر اختیار کی۔

A person should consciously choose their companions and sources of influence. Photo: INN
انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی صحبت اور ذرائعِ اثر و نفوذ کو شعوری طور پر منتخب کرے۔ تصویر: آئی این این

امام غزالیؒ کے بھائی احمد غزالیؒ کو ابتداء میں نامناسب صحبت کا سامنا تھا، جس کے اثرات ان کی شخصیت پر مرتب ہو رہے تھے۔ والدہ نے ان کی اصلاح کے لئے ایک حکیمانہ تدبیر اختیار کی۔ ایک دن انہوں نے دونوں بھائیوں کو اپنے پاس بٹھایا اور ایک پلیٹ میں تازہ اور خوش رنگ سیب رکھ دیئے۔ مگر ان میں ایک سیب ایسا تھا جس پر ہلکی سی سڑن کے آثار نمایاں تھے۔ والدہ نے دانستہ اس سیب کو باقی صحت مند سیبوں کے ساتھ چھوڑ دیا۔ کچھ دنوں بعد جب پلیٹ دوبارہ دیکھی گئی، تو وہی ایک سڑا ہوا سیب دیگر سیبوں کو بھی خراب کر چکا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر والدہ نے دونوں بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’دیکھا بیٹا! ایک خراب سیب نے کیسے باقی سب کو متاثر کر دیا؟ صحبت کی تاثیر بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ اگر تم برے لوگوں کے قریب رہو گے تو ان کی برائیاں تم میں سرایت کر جائیں گی، چاہے تم کتنے ہی نیک کیوں نہ ہو۔‘‘ یہ بصیرت آموز مثال احمد غزالیؒ کے دل میں گھر کر گئی۔ اسی دن انہوں نے اپنی صحبت کو بدلنے کا پختہ عزم کیا اور اپنے راستے کو خیر و ہدایت کی طرف موڑ دیا۔ بعد میں وہ علم و عرفان کے ایسے آفتاب بنے جن کی روشنی تاریخ کے صفحات میں آج بھی جگمگا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: نبیؐ کی رفعت، نزول ِ قرآن، غفلت کا علاج اور اللہ کی پناہ حاصل کرنے کی دُعا

صحبت کی تاثیر انسانی مزاج پر ایک نازک مگر گہری چھاپ چھوڑتی ہے۔ صالحین کی معیت خیر کو جلا بخشتی ہے اور آدمی نیکی کو نہ صرف اختیار کرتا ہے بلکہ اس میں فخر محسوس کرتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر صحبت بدکاروں کی ہو تو شر کی سیاہی قلب و ذہن پر حاوی ہونے لگتی ہے، حتیٰ کہ آدمی برائی کو ہی خیر سمجھنے لگتا ہے۔ یہ وہ نازک لمحہ ہے جہاں عقل کی دیوی نیند میں چلی جاتی ہے اور جذبات کا طوفان راہنما بن جاتا ہے۔ جب کوئی فرد شر میں محو ہو جاتا ہے، تو وہ اپنے افعال کی قباحت سے ناآشنا ہو کر، اسے راہِ ہدایت گرداننے لگتا ہے۔ اگر کوئی اس کی اصلاح کی کوشش کرے تو بجائے سدھرنے کے، اس کی طبیعت سرکشی پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ پھر وہ ایسے افعال کا مرتکب ہوتا ہے کہ جن کا تصور بھی دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ اس کا شعور زنگ آلود ہو کر فطرت کے لطیف پیغام سے ناآشنا رہتا ہے۔ انجامِ کار وہ ایک ایسا بوجھ بن جاتا ہے جو نہ خاندان اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی معاشرہ اسے قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: قیامت کی ہولناکیاں، زندہ دفنائی گئی بیٹی کا سوال اور دس راتوں کی قسم کی تفصیل

اس کے برعکس، اگر کسی انسان کو نیک صحبت میسر آجائے تو اس کے فکری زاویے روشن ہونے لگتے ہیں، عقل اور وجدان کی دنیا میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے اور وہ کامیابیوں کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف اپنے خاندان کیلئے باعث ِ افتخار ہوتے ہیں بلکہ معاشرہ ان کے وجود سے روشنی پاتا ہے۔ وہ دوسروں کیلئے ایک ایسا معیار بن جاتے ہیں جس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ آج کی دنیا میں صحبت کا مفہوم بدل چکا ہے۔ اب دوستی اور مجلس کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ آلۂ مواصلات خیر کا وسیلہ بنتا ہے یا شر کا؟ اس کا دار و مدار اس کے استعمال پر ہے۔ موبائل اپنی ذات میں ایک بے جان وسیلہ ہے، لیکن اس کے استعمال کا طریقہ انسان کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ فیصلہ اب انسان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اسے فکری بالیدگی کا ذریعہ بناتا ہے یا فتنہ و فساد کا ہتھیار۔ یہاں تربیت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ اگر انسان کی نشوونما خیر کی بنیاد پر ہوئی ہے، تو وہ موبائل کو اپنی فکری ترقی، علمی استفادے اور اصلاحِ معاشرہ کے لئے استعمال کرے گا۔ مگر اگر اس کی تربیت میں کمزوری رہ جائے، تو یہی آلہ اس کے اخلاق کو کھوکھلا کر دے گا اور وہ ایک ایسی راہ پر نکل پڑے گا جہاں خیر کا چراغ بجھ جاتا ہے اور شر کی تاریکی غالب آ جاتی ہے۔ یہ حقیقت ازل سے مسلم ہے:’’صحبت ِ صالح ترا صالح کند، صحبت ِ طالح ترا طالح کند۔‘‘ لہٰذا، انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی صحبت اور ذرائعِ اثر و نفوذ کو شعوری طور پر منتخب کرے، تاکہ وہ خیر کی طرف مائل ہو اور اس کی ذات صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے خیر کا چراغ بن جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK