الیکشن کے موقع پر ووٹ دینے سے پہلےغوروخوض ہونا چاہئے کہ آپ حق رائے دہی کا استعمال کس کے حق میں کرنے جارہے ہیں، اس میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔
EPAPER
Updated: May 10, 2024, 4:37 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
الیکشن کے موقع پر ووٹ دینے سے پہلےغوروخوض ہونا چاہئے کہ آپ حق رائے دہی کا استعمال کس کے حق میں کرنے جارہے ہیں، اس میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔
عرصہ پہلے اس حقیر کو دہلی آبروریزی سانحہ کے پس منظر میں ایک ایسے اجلاس میں شریک ہونے کا موقع ملا، جس میں متعدد اعلی تعلیم یافتہ اصحاب علم ودانش اور مختلف مذاہب کے نمائندے شریک تھے۔ مختلف حضرات نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق واقعہ کا تجزیہ کیا اورسدباب کی تدبیروں پر روشنی ڈالی۔ عام طور پر لوگوں کا خیال تھا کہ تعلیم کی کمی اور معاشی پسماندگی ایسے واقعات کاسبب بنتی ہے، اگر معاشرہ تعلیم یافتہ ہوجائے تو خیر وشر کی تمیز پیدا ہوگی، انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کے احترام کا جذبہ پیدا ہوگا اور ایسے ناگفتہ بہ حادثات وواقعات کا تدارک ہوسکے گا۔
جب اس حقیر کی باری آئی تو اس نے عرض کیا کہ تعلیم کی اہمیت اور شخصیت کی تعمیر میں اس کے مؤثر کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح معاشی ترقی بھی یقیناً خوش آئند ہے؛ لیکن یہاں مسئلہ ’’تعلیم و دَولت کے باوجود‘‘ کا ہے؛ کیونکہ اس وقت جرائم کی جو لہر پیدا ہو رہی ہے، اس میں اَن پڑھ لوگوں کے مقابلہ میں پڑھے لکھے لوگوں کا حصہ زیادہ ہے، غریبوں کے مقابلہ میں اہل ثروت جرائم کے ارتکاب میں زیادہ جری واقع ہوئے ہیں، جرائم کے سلسلے میں اعداد و شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ طلبہ و طالبات یہاں تک کہ اساتذہ و معلمات جرم کو انجام دینے میں پیش پیش ہیں، تعلیم یافتہ لوگ جرم کو انجام دینے میں ترقی یافتہ تیکنک کا استعمال کرتے ہیں، جو لوگ اعلیٰ مناصب پر ہیں، اونچی اونچی تنخواہیں پاتے ہیں، کرپشن کی دنیا میں انہی کے وجود سے بہار آرہی ہے، جو بے چارہ کم پڑھا لکھا یا غریب ہو، اس کی خواہشات بھی محدود ہوتی ہیں، اور اگر وہ چاہے بھی تو اسے کوئی رشوت نہیں دیتا، یہی وجہ ہے کہ جرائم دیہاتوں سے زیادہ شہر میں اور چھوٹے شہروں سے زیادہ بڑے شہروں میں انجام دیئے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ملک کی راجدھانی جرائم کی بھی راجدھانی بن گئی ہے؛ اس لئے ضرورت تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ قلب و ذہن کے تبدیل کرنے کی ہے۔
ریاستوں کی اسمبلیاں اور ملک کی پارلیمنٹ اعلیٰ ترین قانون ساز ادارے ہیں، یعنی انہیں پورے ملک کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، یہی ادارے لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرتے ہیں اور ان کیلئے قوانین بناتے ہیں لیکن صورت حال یہ ہے کہ بدقسمتی سے ان قانون ساز اداروں میں کتنے ہی ممبران وہ ہیں، جن پر قتل، اقدام قتل، زنا، اغواء، رنگ داری وغیرہ کے مقدمات درج ہیں، گزشتہ لوک سبھا کے پانچ سو تینتالیس (۵۴۳) میں سے ایک سو باسٹھ (۱۶۲) اراکین یعنی تیس فیصد پر کریمنل مقدمہ دائر تھا، ان میں سے (۷۶) یعنی چودہ فیصد مقدمات کا سامنا کررہے تھے۔ ریاستی اسمبلیوں کا کیا حال ہے اُس سے بھی عام طور پر لوگوں کی واقفیت ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اکثر پارٹیاں ایسی ہیں جن کا دامن بے داغ نہیں ہے، گویا ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے ایسے ادارے کرتے ہیں، جن کے اراکین کی ایک تہائی تعداد پر قاتل، زانی، چور، اُچکے اور غاصب و اغوا کنندہ ہونے کا سنگین الزام ہے۔
عام طور پر ایوان قانون میں ارکان کے درمیان کسی مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں ہوپاتا، حکومت کتنا ہی معقول قدم کیوں نہ اُٹھائے؟ اپوزیشن اس کی مخالفت کو اپنا فریضہ تصور کرتی ہے، اور اپوزیشن کی طرف سے کتنی ہی بہتر سے بہتر تجویز پیش کی جائے، حکومت اسے قبول کرنے کو اپنی اہانت تصور کرتی ہے؛ لیکن عوام دیکھتے ہیں کہ ایک موقع پر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں وسیع تر اتفاق رائے ہوجاتا ہے، اور وہ موقع ہوتا ہے ارکان کی یافت، سہولتوں اور فنڈ میں اضافہ کا، اس میں حزب اختلاف ہو یا حزب اقتدار، دونوں دوش بدوش کھڑے ہوکر بِل کو پاس کراتے ہیں، نہ اس پر بحث کی نوبت آتی ہے او رنہ اختلاف رائے کی؛ اس لئے ذرائع ابلاغ اس پر شور بھی نہیں مچاتے او ردبے پاؤں یہ سارا مرحلہ طے ہوجاتا ہے۔
جمہوری نظام کا ایک پہلو تو یہ ہےکہ عوام کی نمائندگی عوام ہی کے منتخب افراد کے ذریعہ ہو، یہ یقیناً ایک معقول اور مبنی برانصاف اُصول ہے؛ لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس نظام میں مقدار کی اہمیت ہوتی ہے، معیار کی نہیں، علامہ اقبالؒ کے بقول: ’’ جمہورت میں سرگنے جاتے ہیں، تو لے نہیں جاتے‘‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بدکردار شخص بھی اگر پیسے خرچ کرکے اور دھاندلی کا سہارا لے کر ووٹ کی زیادہ تعداد حاصل کرلیتا ہے تو وہ عوام کا نمائندہ بن جاتا ہے اور ملک وقوم کے لئے سیاہ و سفید کے فیصلہ میں شامل ہوجاتا ہے۔ معقول بات یہ ہے اور یہی اسلامی اُصول ہے کہ کسی شعبہ میں نمائندگی کیلئے ووٹ کے ساتھ ساتھ مطلوبہ معیار کو بھی ملحوظ رکھناچاہیے، اس کے بغیر کسی شخص کو کوئی ذمہ داری سونپی نہیں جاسکتی۔ قرآن مجید نے اس کے لئے ایک جامع اُصول ذکر کیا ہے کہ آپ کسی بھی کام کا ذمہ دار اس شخص کو بنائیے، جس میں دو باتیں پائی جاتی ہوں، ایک یہ کہ وہ اس کام کی صلاحیت رکھتا ہو، دوسرے : اس میں امانت ودیانت ہو (قصص:۲۶)۔ اس آیت میں قوی کا لفظ آیا ہے جس کا معنی طاقتور کا ہے لیکن طاقت صرف جسمانی طاقت ہی کا نام نہیں ہے؛ بلکہ اس میں علم، عمل، اخلاق و کردار اور انصاف پر اپنے آپ کو قائم رکھنے، گویا ہر طرح کی طاقت شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: پسماندہ طبقات سے ہمدردی اور اظہار ِیک جہتی
امین کے معنی ’’امانت دار‘‘کے ہیں، امانت کا تعلق صرف حفاظت کے لئے رکھے گئے مال ہی سے نہیں ہے؛ بلکہ انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ جو عبادتیں اللہ کی طرف سے فرض کی گئی ہیں، وہ اللہ کی طرف سے امانت ہیں، لوگوں کے جو حقوق ایک دوسرے کے ذمہ ہیں، وہ بھی ایک دوسرے کی امانت ہیں، حکومتوں پر رعایا سے متعلق جو ذمہ داریاں ہیں، یا رعایا پر حکومت کے تئیں جو فرائض ہیں، یہ سب امانت میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ امانت ان کے اہل کے حوالہ کیاکریں، (نساء:۵۸)۔ مشہور مفسر علامہ قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ یہاں امانت کا حکم تمام لوگوں کو ان کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے شامل ہے کہ جس کو جو ذمہ داری سونپی جائے، اس کے اندر اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی صلاحیت ہو۔ (تفسیر قرطبی:۵؍۲۵۶)۔ جو شخص کسی کام کا اہل نہ ہو، اس کو وہ ذمہ داری سونپ دی جائے، یہ خیانت ہے اور ذمہ داری جتنی اہم ہو، اس سے متعلق امانت داری بھی اسی طرح اہمیت کی حامل ہے، جس شخص سے قوم کے اجتماعی معاملات متعلق کئے جائیں، اس کی ذمہ داری دیگر لوگوں سے کہیں بڑھی ہوئی ہے کیونکہ اس کے فیصلوں کے گہرے اوردُور رس اثرات مرتب ہوں گے؛ اس لئے ذمہ داریوں کو براہ راست مشروط ہونا چاہئے امانت داری سے۔
اکثر اُمور میں اس بات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ ذمہ داری جس سے متعلق کی جائے، اس میں اس کی صلاحیت ہو، صرف اکثریت کی تائید کو کافی نہیں سمجھا جاتا، اگر کسی شہر کی اَٹھاون فیصد تعداد کسی کے حق میں ووٹ دے کر اسے ڈاکٹر کے عہدہ پر نامزد کردے؛ حالانکہ اس شخص نے میڈیکل تعلیم حاصل نہ کی ہو تو کیا اکثریتی ووٹ کی بناء پر اسے ڈاکٹر منتخب کرکے علاج کی ذمہ داری سونپ دی جائے گی؟
اسی طرح اگر کسی شخص کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ لوگوں کی امانتیں ڈبودیتا ہے اور کئی اسکینڈل کا مرتکب ہوچکا ہے تو کیا کسی شخص کو یہ بات پسند ہوگی کہ اپنا سرمایہ اس کے حوالہ کردے اور جس آدمی سے بار بار دھوکہ کھاچکا ہو، اس کے پاس سرمایہ کاری کا جو کھم مول لے؟ تو جیسے زندگی کے دوسرے مسائل میں صرف اکثریت کی رائے پر اعتماد نہیں کیا جاتا، جب تک کہ وہ شخص اس کام کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور دیانتدار نہ ہو، تو پھر قوم کے اجتماعی مسائل کے فیصلے کیسے ان لوگوں کے حوالہ کئے جاسکتے ہیں جونسبتاً زیادہ ووٹ حاصل کرلیں ؟
اسلام کا تصور یہ ہے کہ احکام خداوندی کی اطاعت اور انصاف کاقیام زندگی کے تمام مسائل میں ضروری ہے، خواہ اس کا تعلق دین سے ہو، یا بظاہر دنیا سے، چاہے اس کا تعلق افراد سے ہو یا عامۃ الناس سے، اگر کوئی مسلمان یہ سوچے کہ سیاست میں سب کچھ چلتا ہے تو وہ اسلام کی بنیادی فکر کو پامال کرتا ہے، اسلام سے پہلے عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ جنگ میں کوئی قانون نہیں چلتا، جس طرح بھی ممکن ہو، دشمن کو مغلوب کرو اور اسے نقصان پہنچاؤ لیکن رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے لئے بھی قوانین مقرر کئے، صحابہؓ نے اس پر عمل کیا اور دشمن کی زیادتی کے باوجود کبھی نقطۂ عدل کو نہیں چھوڑا۔ اس پس منظر میں تمام لوگوں کو خاص کر مذہبی قیادتوں اور ان میں بھی مسلمانوں کو اس بات کی جد وجہد کرنی چاہیے کہ سیاست کو اخلاق کے دائرہ میں لایا جائے، مسئلہ فرقہ پرستی کا ہو یا ذات پات کی تفریق کا، یہ سب اسی کی دین ہے کہ سیاست کا رشتہ اخلاق سے کٹ چکا ہے اور اس بات کو جائز سمجھ لیا گیا ہے کہ ظلم و زیادتی کے ذریعہ اپنے اقتدار کا محل تعمیر کیا جائے۔
ہمیں عوام میں بھی شعور پیدا کرنا چاہیے کہ وہ اپنا لیڈر منتخب کرنے اور اپنا سیاسی نمائندہ چننے میں صرف ذات پات، سیاسی یا مذہبی وابستگی پر نظر نہ رکھیں ؛ بلکہ ان کو اخلاق کی ترازو پر بھی تولنے کی کوشش کریں، ایسے لوگ جو جرائم پیشہ ہیں، جنھوں نے ظلم وجور کا بازار گرم کر رکھا ہے، جن کے ہاتھوں انسان کی جان، اس کی دولت او راس کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو، اقتدار کی کلید اس کے حوالے نہ کریں، اگر آپ کے ووٹ سے ایسے لوگ منتخب ہوئے تو آپ بھی ان کے جرائم میں شریک اور عنداللہ جواب دہ ہوں گے۔