زیرنظر مضمون میں سیرت النبیؐ کی جمع، تدوین اور اس کے مختلف مراحل، جہتیں اور مناہج کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ ایک مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو باعمل، باشرع اور بامقصد بنانے میں سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا کردارادا کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: January 06, 2025, 4:17 PM IST | Mohammad Ibrahim Khan | Mumbai
زیرنظر مضمون میں سیرت النبیؐ کی جمع، تدوین اور اس کے مختلف مراحل، جہتیں اور مناہج کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ ایک مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو باعمل، باشرع اور بامقصد بنانے میں سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا کردارادا کرتا ہے۔
’’(اے نبیؐ) ان سے کہو کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت قبول کرو۔ پھر اگر وہ آپ کی یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ ‘‘ (آل عمران:۳۲)
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک لا متناہی اور متلاطم سمندر ہے۔ علم سیرت محض ایک شخصیت کی سوانح عمری ہی نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب، ایک تمدن، ایک قوم، ایک ملت اور ایک الٰہی پیغام کے آغاز اور ارتقاء کی ایک انتہائی اہم، انتہائی دلچسپ اور انتہائی مفید داستان ہے۔ اس مضمون میں ہم سیرت النبیؐ کی جمع، تدوین اور اس کے مختلف مراحل، جہتیں اور مناہج کا مطالعہ کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ایک مسلمان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو باعمل، باشرع، اور بامقصد بنانے میں سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا کردارادا کرتا ہے۔
سیرت کی تعریف
سیرت کے لغوی معنی طریقۂ کار یا چلنے کی رفتار اور انداز کے ہیں۔ عربی زبان میں سیرت کے معنی کسی کا طرزِ زندگی (لائف اسٹائل) یا زندگی گزارنے کا اسلوب کے بھی ہیں مگر جلد ہی سیرت کا لفظ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حیات کے لئے مخصوص ہوگیا، اور آج دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں سیرت کا لفظ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسلامی علوم و فنون کی اصطلاح میں سیرت کا لفظ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل کے لئے استعمال کیا گیا جو آپؐ نے غیرمسلموں سے معاملہ کرنے اور جنگوں یا صلح اور معاہدات کے معاملات میں اپنایا۔ قدیم مفسرین، فقہا، محدثین اور سیرت نگاروں نے سیرت کے لفظ کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔
علم سیرت کا پس منظر اور مواخذ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دُنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو بہت سی دوسری اقوام سے واسطہ پڑا۔ بڑے بڑے علاقے فتح ہوئے۔ بڑی اقوام اسلام میں داخل ہوئیں۔ مختلف اقوام کے ساتھ جنگ اور صلح کے معاہدات کرنے پڑے۔ ان تمام معاملات میں مسلمانوں کو قدم قدم پر اس کی ضرورت پیش آئی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ، تفصیلی قوانین اور احکام و ہدایات ان کے سامنے ہوں۔ ہمارے نبیؐ نے مختلف اقوام اور قبائل سے معاہدے کئے، غیر مسلموں، مشرکین، یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی معاہدے ہوئے۔ نو مسلموں کو مراعات بھی دی گئیں۔ چارٹر اور منشور جاری کئے گئے۔ ان سب چیزوں کی بنیاد پر فقہائےاسلام نے جس قانون، نظام اورعلم کی تشکیل و بنیاد رکھی اور اس کیلئے سیرت اور ’سِیَرْ‘کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ جیسے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بارے میں معلومات جمع ہوتی گئیں ان کی تدوین کا کام بھی شروع ہو گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان معلومات کے دو حصے یا پہلو نمایاں ہوتے گئے۔ ایک حصہ وہ تھا جس میں تاریخی پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ اس حصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں مختلف واقعات کو ترتیب سے جمع کیا گیا تھا۔ یہ حصہ ’مغازی‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسرا پہلو یا حصہ وہ تھا جس میں قانون کا پہلو نمایاں تھا۔ جس میں فقہی رہنمائی اور ہدایات زیادہ نمایاں تھیں۔ وہ سیرت یا ’سِیَرْ، کے نام سے نمایاں ہوگیا۔ آج علم سیرت ایک وسیع اور جامع علم ہے جس کے بہت سے حصے اور شعبے ہیں۔ ان میں سے ایک حصہ ’مغازی‘ اور دوسرا ’سِیَرْ‘ کہلاتا ہے۔ ’مغازی‘ کا انداز تاریخی اور ’سِیَرْ‘ کا انداز قانونی ہے۔ ’مغازی‘ میں حیات مبارکہ کے دیگر پہلوؤں کی تفصیلات بھی شامل ہوتی گئیں۔ اس کا نام کہیں علم سیرت و مغازی اور کہیں علم مغازی و سیر رکھا گیا۔ وقت کے ساتھ بالآخر اس کا نام علم سیرت قرار پایا اور ’مغازی‘ اس کا ایک شعبہ بن گیا۔
سیرتِ پاکؐ کا اولین اور بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے۔ قرآن پاک شاید پہلی اور یقیناً آخری مذہبی کتاب ہے جس کواس کے نزول کے ساتھ تحریر کیا گیا، تو کہا جا سکتا ہے کہ جب قرآن پاک جمع ہورہا تھا اور اس کو مدون کیا جارہا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ سیرت بھی مدون ہورہی تھی۔ یہ تدوین سیرت کا آغاز تھا یعنی قرآن پاک کی تدوین اور جمع ایک طرح سے سیرت کی جمع اور تدوین کے مترادف تھی۔ سیرت کا دوسرا ماخذ احادیث صحیحہ ہیں۔ حدیث کی تدوین کی تاریخ بھی ایک اعتبار سے سیرت کی تدوین کی تاریخ ہے۔
گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو علم ہوگا کہ حدیث کی ہر کتاب میں سیرتؐ سے متعلق مستند اور ضروری مواد موجود ہے۔ علم ِ حدیث مسلمانوں میں روز اول سے ایک انتہائی محترم اور مقدس اور مقبول علم رہا ہے۔ ہر دور کی سعید روحوں اور بہترین دماغوں نے علم حدیث کی خدمت کی ہے۔ ان دو بنیادی مواخذ کے علاوہ کتب سیرت و مغازی، کتب تاریخ، کتب ادب/ ادبیات بھی مواخذ سیرت شمار ہوتے ہیں۔
علومِ سیرت
اس ضمن میں اس بات کو اپنے ذہن میں تازہ رکھنا چاہئے کہ تمام بانیانِ مذاہب میں رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ وہ واحد شخصیت ہے جو تاریخ میں غیرمتنازع مقام رکھتی ہے۔ آپؐ کی پوری زندگی دنیائے انسانیت کے سامنے ہے۔ ہمارے دین کی بنیاد قرآن مجید کے بعد احادیث نبوی پر ہے۔ اسی لئے محدثین نے اپنی تمام تر توانائیاں یہ جاننے پر خرچ کیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، افعال و اعمال اور تقاریر کس بنیاد پر ہیں ؟ کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز ہے۔ کون سی چیز سنت کا حصہ ہے اور کون سی چیز سنت کا حصہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس سیرت نگاروں کا زور اس پر ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی طرزِ عمل، شخصیت اور مختلف مواقع پر رویہ کیا تھا؟ اس لئے ان دونوں علوم کے مضامین میں فرق پایا جاتا ہے۔ بہت سے موضوعات ہیں جو حدیث کا حصہ ہیں اور سیرت کا بھی۔ کچھ موضوعات ایسے ہیں جو صرف حدیث کا حصہ ہیں اور کچھ ایسے کہ وہ صرف سیرت کا حصہ ہیں۔ مگرحدیث کی ہر بڑی کتاب میں سیرت کے بارے میں بیش قیمت معلومات اور مخصوص ابواب ہوتے ہیں۔ سیرت نگاروں نے اپنے کام کی ابتداء حلیۂ مبارک کی لفظی تصویرکشی سے کی، ساتھ ہی ساتھ ذاتی عادات و اطوار، ملنا جلنا، اٹھنا بیٹھنا وغیرہ کو ’شمائل سیرت‘ کے عنوان کے تحت مدون کیا۔
شمائل کے بعد دوسرا میدان حضورؐ کے خطبات یا تقاریر ہیں جو آپؐ نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمائیں۔ سیرت نگاروں نے انہیں ’خطبات ِسیرت‘ کے عنوان تلے جمع کیا ہے۔ ہمارے نبیؐ افصح العرب ہیں۔ آپؐ کی تقاریر میں فصاحت و بلاغت کا جو معیار تھا آج تک عربی زبان کا کوئی خطیب اس تک پہنچنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع اور مناسبت سے بہت سی دستاویزات تیار کروائیں، خطوط تحریر کروائے، ان تمام کو سیرت نگاروں نے ’وثائق سیرت‘ کے عنوان کے تحت جمع کیا ہے۔ سیرت پر جہاں تحقیقی اور عالمانہ کام ہوئے ہیں وہاں عوامی انداز میں بھی بہت کام ہوا ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اس کے لئے ’لوک سیرت‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کا اہم نمونہ میلاد نامے اورموالید ہیں۔ سیرت کا ایک اہم موضوع ’تعلیمات ِسیرت‘ بھی ہے۔ اس سے مراد سیرت کی وہ معلومات یا شعبے ہیں جن کا تعلق علم کی نشرو اشاعت اور تعلیم سے ہے۔ سیرت کا ایک اہم عنوان ’روحانیاتِ سیرت‘ ہے۔ اس میں بنیادی طور پر تزکیۂ نفس کے سلسلے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایات جمع کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی عنوانات کی ایک طویل فہرست ہے جن کے تحت حضورؐ کی حیات مبارکہ کو مدون کیا گیا ہے۔ ان میں ’ادبیاتِ سیرت‘، ’اجتماعیات سیرت‘، ’نفسیات سیرت‘، ’جغرافیہ ٔسیرت‘ اور ’مصادر سیرت‘ اہم ہیں۔
مناہج و اسالیب ِسیرت
علمائے کرام نے تدوین سیرت کے لئے مختلف طریقۂ کاراور عنوانات اپنائے ہیں۔ سیرت کے دستیاب ذخیرے پر نظر ڈالنے سے سیرت نگاری کے جو بڑے مناہج (Methodology) سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں :
(۱) محدثانہ اسلوب: یہ سیرت نگاری کا قدیم ترین اسلوب ہے۔ اس اسلوب پران شخصیات نے کام کیا ہے جو دراصل حدیث کے متخصص (Specialist ) تھے اور ان کی عمر کا بیش تر حصہ علم حدیث کے قواعد اور اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے علم حدیث کی تدریس میں گزرا۔
(۲) مؤرخانہ اسلوب: اس اسلوب میں جب سیرت نگار کسی واقعے کو بیان کرتا ہے تو اس سے متعلق تمام معلومات کو یکجا اور مرتب کرکے بیان کرتا ہے۔ مثلاً ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ میں مکہ مکرمہ سے روانگی سے لے کر مدینہ منورہ پہنچ کر حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مکان میں ٹھہرنے کی پوری تفصیل کا بیان موجود ہے۔
(۳) مؤلفانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے مختلف ماخذ اور کتب کو سامنے رکھ کر تصنیفی انداز، جس میں ایک مرتب اور مربوط کتاب لکھی جاتی ہے، اختیار کرکے سیرت پر کتابیں تیار کی جاتی ہیں۔
(۴) فقیہانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے واقعات پر اس طرح سے روشنی ڈالی جاتی ہے کہ ان سے کون کون سے فقہی احکامات نکلتے ہیں۔
(۵) متکالمانہ اسلوب: اس اسلوب میں علم کلام کے نقطۂ نظر سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو دیکھا جاتا ہے اور جو چیزیں علم کلام کے نقطۂ نظر سے اہم ہیں انہیں نمایاں کیا جاتا ہے۔ یہاں علم کلام سے مقصد یہ ہے کہ وہ علم یا فن جس میں اسلامی عقائد کو عقلی دلائل سے بیان کیا جائے اور دوسرے مذاہب کے عقائد کا عقلی انداز سے جائزہ لیا جائے اور عقلی دلائل کی بنیاد پر اسلامی عقائد کی برتری ثابت کی جائے۔
(۶) ادیبانہ اسلوب: اس اسلوب میں سیرت کے واقعات کو خالص ادبی اسلوب، نظم یا نثر میں مرتب کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ عامتہ الناس میں وہ لوگ جو سیرت پر تحقیقانہ کتابیں پڑھنے کی سکت نہیں رکھتے، ان کے لئے سیرت کے مواد میں ایسی ادبی چاشنی اور رنگ پیدا کردیا جائے کہ غیر متخصص شخص بھی سیرت کا مطالعہ کرنے پر آمادہ ہوجائے۔
(۷) مناظرانہ اسلوب: اس سے مراد وہ اسلوب تھا جو مسلمان مسالک یا مدارس فکر کے مناظروں کی وجہ سے وجود میں آیا۔ ان مناظروں کے نتیجے میں مسلمانوں میں مختلف رائے رکھنے والے لوگوں نے سیرت کے مختلف واقعات کی تعبیر اپنے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق کی۔
مطالعہ سیرت کی ممکنہ جہتیں
ڈاکٹر ٘محمود احمد غازی مرحوم اپنی تصنیف محاضرات سیرت میں مطالعۂ سیرت کے ایک ممکنہ مگر تشنہ پہلو کی نشاندہی کرتے ہیں جس پر یا تو کام نہیں ہوا یا بہت کم ہوا ہے، وہ ہے ’مستقبلیات سیرت۔ ‘ اس ضمن میں انہوں نے صحیح مسلم کی ایک غیر معمولی روایت کا ذکر کیا ہے۔ امام مسلم نے ایک روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر بن العاصؓ ایک جگہ تشریف فرما تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابیؓ آپ کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے یہ بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے: جب قیامت قائم ہوگی تو دنیا میں رومیوں کی کثرت ہوجائے گی۔ حضرت عمر بن العاصؓ نےیہ سن کر فرمایاکہ کیا کہہ رہےہو؟اس پراس صحابی نے جواب دیاکہ میں وہی بات کہہ رہا ہوں جو میں نے حضور ؐ سے سنی۔ انہوں نے دوبارہ اس بات کو دہرایا۔ جواباً حضرت عمر بن العاصؓ نے کہا کہ اہل روم میں چار خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی لئے وہ اکثر الناس ہوجائیں گے۔ جب وہ کسی فتنے کا شکار ہوتے ہیں تو بہت ٹھہراؤ کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور حوصلہ نہیں ہارتے۔ جب کسی مصیبت کا شکار ہوتے ہیں تو بہت جلد اس کے اثر سے نکل آتے ہیں۔ اگر کسی جنگ میں شکست ہوجائے تو دوبارہ بہت جلد حملے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ اپنے مسکین، ضعیف اور یتیم کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں اوراپنے بادشاہوں کو ظلم سے روکنے کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث ۲۸۹۸ )
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں اہل مغرب کو یا تو اہل روم کہا جاتا تھا یا بنی الاسفر کہا جاتا تھا۔ عام اسلامی اصطلاح یعنی زرد قوم کی اولاد۔ ذخیرۂ احادیث میں بنی الاسفر سے مراد اہل یورپ اور خاص طور سے روم کے باشندے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار تبصرے ہیں جو احادیث میں اہل یورپ اور مغرب کے بارے میں ملتے ہیں۔ ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ بھی اور رسول اللہ ﷺ بھی اہل مغرب کی ان خصوصیات سے واقف تھے اورمسلمانوں کو وقتاً فوقتاً متنبہ بھی کرتے رہتے تھے۔ ایک اور چیز جس کی جانب ڈاکٹر صاحب نے توجہ مبذول کروائی وہ یہ ہے کہ بہت سی احادیث اور سیرت کی کتابوں میں قدیم مذہبی اور آسمانی کتابوں کے حوالے بیان ہوئے ہیں۔ تورات میں یہ آیا ہے، انجیل میں یہ آیا ہے۔ ان میں سے کچھ چیزیں تو مستند احادیث میں بھی آئی ہیں اور کچھ روایات وہ ہیں جو تابعین کے ذریعے آئی ہیں۔ ایسی روایات کا بڑا حصہ ان تابعین کے ذریعے آیا ہے جو اسرائیلیات کی روایات کیا کرتے تھے۔ اگر اسرائیلیات کی روایات کو فی الحال چھوڑ دیا جائے اور صرف ان روایات کو لیا جائے جو احادیث صحیحہ میں آئی ہیں ور صحابہ اور مستند تابعین نے بیان کی ہیں، ان کا حوالہ قدیم کتابوں میں آج کس حد تک دستیاب ہے اور ان بیانات کی اپنی تاریخی حیثیت کیا ہے؟ اس پر ابھی تک کوئی مناسب تحقیق نہیں ہوئی ہے۔
یہ موضوع ابھی تشنۂ تحقیق ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مواد کا ازسرنو باقاعدہ مطالعہ کیا جائے اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے اس کا تقابل کیا جائے اور عوام الناس کواس سے روشناس کرایا جائے۔
مطالعہ ٔ سیرت کی ضرورت اور اہمیت
ہر مسلمان حضورؐ کی ذات کو قانون اور شریعت کا ماخذ سمجھتا ہے اور یہ بات مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ اگر کسی مسلمان کے لئے کوئی اسوۂ حسنہ ہے تو وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ یہ اسوہ ہم تک تین ذرائع سے پہنچا ہے۔ پہلا قرآن مجید، دوسرا حدیث وسنت، تیسرا ماخذ ہے سیرت مبارکہ۔ علامہ ابن قیم نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں جاننا یعنی سیرت کا علم حاصل کرنا ہرمسلمان کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات ہمارے لئے ہدایات اور رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ لہٰذا ہر وہ شخص جو اپنے لئے خیر خواہی اور نجات چاہتا ہے، ضروری ہے کہ آپؐ کی سیرت اور آپؐ کے معاملات سے آگاہی حاصل کرنے کا پابند اور مکلّف ہو۔ (زاد المعاد)
ہر مسلمان حضور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو قانون اور شریعت کا ایک ماخذ سمجھتا ہے۔ یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ رسولؐ اللہ کی اطاعت ہی میں نجات ہے:
’’اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے۔ ‘‘ (النور: ۵۴)
اگر کسی مسلمان کے لئے کوئی اسوۂ حسنہ ہے تووہ صرف رسولؐ اللہ کی ذات گرامی میں ہے۔ اللہ کی اطاعت اگر ہوسکتی ہے تو وہ صرف رسولؐ اللہ کی اطاعت کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ اسوۂ حسنہ کا انگریزی ترجمہ Role Model یا بہترین / واحد Role Model ہو سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ایک ایسا جامع رول ماڈل ہے کہ یہ مقام دنیا میں کسی اورشخصیت کو حاصل نہیں ہے۔ انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں انسانوں کے اجتماعی اور قومی مسائل کا حل بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ دنیا کی تمام اقوام اور ممالک کو جن مشکلات و مصائب سے واسطہ رہا ہے، ان میں سے ایک مشکل قوموں کی باہمی عصبیت اور دوسری چیز دولت مندوں، غریبوں اور بھوکوں کے درمیان کشمکش ہے۔ ماضی میں انسانیت کو جتنی مشکلات پیش آئیں، جتنی جنگیں ہوئیں اور جتنا خون بہا ہے شاید ۹۹؍ فیصد یا اس سے بھی زیادہ تباہی انہی دو مسائل کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے جب اپنے کام کا آغاز کیا تو عرب کے معاشرے میں یہ دونوں مشکلات مکمل طور پر موجود تھیں۔ قومی عصبیت تو قومی سطح پر ہوتی ہے جو بہرحال بڑی سطح ہے، عرب میں تو قبائل کی بنیاد پر بھی شدید عصبیتیں موجود تھیں۔ قبیلوں میں پھر مزید ذیلی شاخوں اور ان کے درمیان عصبیت پائی جاتی تھی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ صرف ۲۳؍ سال کے مختصر سے عرصے میں آپؐ نے ان عصبیتوں کو ختم کردیا۔ سیرتِ مطہرہؐ نے افراد کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور بھی گہرے اثرات چھوڑے۔
مطالعہ ٔ سیرت کی ’تہذیبی اہمیت‘
دنیا میں موجود اور گزشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک چیزبہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اسلام کی تہذیب ’جامع الحضارات‘ ہے یعنی اسلامی تہذیب میں تمام تہذیبوں کا خلاصہ آگیا ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی اسلامی تہذیب مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام تمام آسمانی مذاہب کا تسلسل ہے اور سب سے اہم یہ کہ اسلام سے پہلے اوربعد میں جو تہذیبیں ہیں ان میں نقطۂ وصل اسلامی تہذیب ہی ہے۔ اگر اسلامی تہذیب نہ ہوتی تو ماضی کی تہذیبوں کا جدید تہذیبوں سے ربط قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ اسلامی تہذیب کا ایک اور کردار یہ ہے کہ اگراسلامی تہذیب نہ ہوتی تو جدید تہذیبیں وجود میں نہیں آسکتی تھیں۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بھی اسلامی تہذیب مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اور اسے ’مجمع الحضارات‘ کہہ سکتے ہیں۔ ابن خلدون اپنی کتاب کے مقدمے میں کہتے ہیں کہ اسلام کا مرکز یعنی خانہ کعبہ زمین کا مرکز ہے۔ اسی لئے اسے ’ناف زمین‘ کہا جاتا ہے۔
مطالعہ ٔ سیرت کی ’علمی اہمیت‘
اسلام ایک نئے دور کا آغاز تھا اور اس نے ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ اس تہذیب کی بنیاد عالم گیریت اورمساوات بشر کے ساتھ ساتھ علمی اورفکری تبدیلی پر ہے۔ یہ تبدیلی انسانی سطح پر اسلام کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ یہ تبدیلی اپنے غیرمعمولی نتائج و ثمرات کے اعتبار سے انسان کی علمی اور فکری تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ انسان کی فکری تاریخ میں ایک Turning Point ہے۔ حضورؐ نے ایک خالص بدوی معاشرے کوایک ایسا عاقلانہ، عالمانہ اور مہذب معاشرہ بنادیا کہ جس نے مختصرعرصہ میں نہ صرف اپنے قرب و جوار بلکہ دنیا کے بیشترعلاقوں کو متاثر کیا۔ ہمارے نبیؐ کی سیرت اوراسلام کی تعلیمات نے توحید کا حقیقی مفہوم لوگوں کی رگ و پے میں اس طرح جاگزیں کردیا کہ بڑی سے بڑی گمراہی اور مصیبت بھی اہل ایمان کو متزلزل نہیں کرسکی۔ یہ نہ اسلام سے پہلے ہوا اور نہ بعد میں ایسی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ تمام اہل اسلام کو سیرت النبیؐ کا گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہئے اور اسی کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے نیز پیغام سیرت حتی المقدور پھیلانا چاہئے کہ یہی وقت کی آواز بھی ہے اور ضرورت بھی۔