• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نئے (مجوزہ) وقف قانون کی شقیں اور وقف بورڈ پر اعتراضات کی حقیقت قسط ۲

Updated: October 02, 2024, 4:43 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اس مجوزہ قانون کے مطابق ریاستی وقف بورڈ کے ارکان منتخب ہونے کے بجائے ریاستی حکومت کی جانب سے نامزد ہونگے۔

Protests are ongoing by Muslims across the country due to the implications of the proposed endowment law. Photo: INN
مجوزہ وقف قانون کے مضمرات کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ تصویر : آئی این این

(۴) اس مجوزہ قانون کے مطابق ریاستی وقف بورڈ کے ارکان منتخب ہونے کے بجائے ریاستی حکومت کی جانب سے نامزد ہونگے، چیف ایکزیکٹیو افسر کے تقرر میں بھی وقف بورڈ کے پینل کی سفارش کو ختم کر دیا گیا ہے، اس طرح وقف جائیداد کے انتظام میں حکومت کا عمل دخل یا مداخلت کافی بڑھ گئی ہے۔ 
(۵) کلکٹر کو وقف میں ذمہ دارانہ حیثیت دے دی گئی ہے اور یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ وقف جائیدادپر حکومت کے قابض ہونے کی صورت میں یہ مقبوضہ جائیداد اب وقف جائیدادیں نہیں رہیں گی، یہ اختیار مکمل طور پر کلکٹر کو دے دیا گیا ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ کوئی جائیداد سرکاری جائیداد ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں کلکٹر کی رائے حتمی ہوگی، کلکٹر کے اس فیصلے کے بعد مال گزاری کے ریکارڈ میں ضروری تبدیلی کی جائیگی اور حکومت وقف بورڈ کو اپنا ریکارڈ درست کرنے کی ہدایت دیگی، جو کہ کلکٹر کی رائے کے مطابق ہوگی، اس کے علاوہ جب تک کلکٹر اپنی رائے نہیں دیتا، اس جائیداد کو وقف جائیداد تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ (دفعہ:۳۔ سی)
رجسٹر یشن کی درخواست ملنے پر بورڈ اس درخواست کو کلکٹر کو پیش کرے گا، کلکٹر کو اس درخواست کے صحیح اور جائز ہونے کے فیصلے کا اختیار ہوگا، (دفعہ: ۳۶) اگر کلکٹر کی رائے میں یہ جائیداد کلی یا جزوی طور پر متنازع ہے یا سرکاری جائیداد ہے تو اس جائیداد کو بطور وقف رجسٹر نہیں کیا جائیگا، یہ معاملہ پھر بعد میں عدالت سے طے ہوگا۔ (دفعہ: ۳۶، ۷ اے) 
عجیب بات ہے کہ وقف املاک مسلمانوں کی ہیں مگر اس میں تصرف کا اختیار کلکٹر کو ہے، اور صورتحال یہ ہے کہ وقف کی اکثر جائیدادیں جن پر ناجائز قبضہ ہے، وہ حکومت یا حکومت کے کسی ادارے کے زیر استعمال ہیں، اور کلکٹر صاحب حکومت کے تنخواہ دار ملازم ہیں، کیا ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ جو مقدمات حکومت اور وقف بورڈ کے درمیان ہونگے، وہ ان میں انصاف کر سکیں گے؟ بظاہر یہ بات عملاََ ناممکن سی محسوس ہوتی ہے، اسی طرح وقف بورڈ سے اس کا وقف رجسٹریشن کرنے کا اختیار چھین لیا گیا ہے اور یہ اختیار اب مرکزی حکومت کو دے دیا گیا ہے۔ (دفعہ: ۳۶) 
کلکٹر کو مطلق اختیارات دینے کے نتیجے میں کلکٹر کو اب یہ اختیار ہوگا کہ وہ وقف کی نوعیت کو بدل کر ان کے سرکاری جائیداد ہونے کا حکم دیدے اور مال گزاری کے ریکارڈ بھی بدل دے، اسی طرح کلکٹر اور انتظامیہ کو یہ مطلق اختیار ہوگا کہ وہ کسی غیر متنازع وقف جائیداد کو متنازع بنا دے۔ موجودہ ایکٹ کی دفعہ ۴۰؍ کے تحت بورڈ کو وقف جائیدادوں کی نوعیت، ان کے بارے میں معلومات اور رجسٹریشن وغیرہ سے متعلق حاصل تمام اختیارات کو چھین لیا گیا ہے اور یہ سارے اختیارات کلکٹر کے سپرد کر دئیے گئے ہیں۔ 
(۶) موجودہ قانون وقف کی دفعہ ۷؍ میں ہے کہ اگر اوقاف کی فہرست میں درج کسی وقف جائیداد کے بارے میں شبہ ہو تو متعلقہ فریق ایک سال کے اندر ٹربیونل کو درخواست دے سکتا ہے۔ اس عرصے کے بعد کسی نئے دعویٰ پر غور نہیں کیا جائے گا، مجوزہ ترمیم میں اس کو ہٹا دیا گیا ہے اور ٹربیونل کے فیصلہ کے حتمی ہونے کو بھی ختم کر دیا گیا ہے، اس کے بجائے اس شرط کا اضافہ ہے کہ فہرست کی اشاعت کے بعد دو سال تک دعویٰ دائر کیا جا سکتا ہے، اس سے انتشار پیدا ہوگا، غلط دعوؤں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور تنازعات بڑھیں گے۔ 
(۷) موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ۴؍۳۳ کے تحت وقف کے تنازعات کا تصفیہ کرنے کیلئے ٹربیونل بنایا گیا ہے اور اس کے فیصلہ کو حتمی قرار دیا گیا ہے؛ مگر مجوزہ ترمیمی بل ۲۰۲۴ء میں اسے ختم کرنے کی تجویز ہے، اس سے وقف کی جائیداد کا تحفظ مشکل ہو جائے گا اور ناجائز قبضہ باقی رہے گا، اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے کہ نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کو ماحولیات سے متعلق معاملات پر اٹھاریٹی نہ مانا جائے، یا انکم ٹیکس ایپلیٹ ٹریبونل (آئی ٹی اے ٹی) کو ٹیکس سے متعلق معاملات پر اتھاریٹی یعنی فیصل نہ مانا جائے۔ 
(۸) بل میں تحریر ہے کہ جو شخص گزشتہ کم سے کم ۵؍ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہو، صرف وہی وقف قائم کر سکتا ہے، یہ پوری طرح شریعت کے خلاف ہے۔ اسلام کی نظر میں جو شخص آج اسلام قبول کرے، وہ بھی اسی طرح مسلمان ہے، جیسے ۵۰؍ سال پہلے مسلمان ہونے والا شخص۔ یہ پانچ سال تک ایک مسلمان کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ (دفعہ: ۳)
(۹) موجودہ وقف ایکٹ کی دفعہ ۱۰۷؍ کے تحت اوقاف کی جائیداد کو’’ لمیٹیشن ایکٹ ‘‘ سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا؛ تاکہ وقف کی جائیداد پر قدیم و جدید سارے قبضے ختم کرائے جا سکیں، مجوزہ ترمیمی بل میں اسے بھی حذف کرنے کی تجویز ہے، گویا اس طرح قدیم غاصبانہ قبضہ کو جواز فراہم کیا جا رہا ہے، اور اس طرح کا فرق دوسرے مذہبی اداروں میں بھی پایا جاتا ہے، مثلاََ تمل ناڈو اور تلنگانہ میں ہندو مذہبی اور خیراتی انڈومینٹس ایکٹ میں بھی اس طرح کی گنجائش ہے۔ 
(۱۰) ہندوستان میں بہت سے مسلمان بادشاہوں، نوابوں اور زمینداروں نے اپنی غیر مسلم رعایا کیلئے وقف کیا ہے، اسی طرح بہت سے ہندو راجاؤں اور حکمرانوں نے اپنی مسلمان رعایا کیلئے مسجدوں اور قبرستانوں وغیرہ پر وقف کیا ہے، مجوزہ ایکٹ کی دفعہ ۱۰۴؍ کے تحت وہ جائیدادیں جو کسی غیر مسلم نے عطیہ (وقف) کی ہوں اور بطور مسجد، قبرستان اور مسافر خانہ استعمال ہو رہی ہیں، کو ختم کر دیا گیا ہے؛ لہٰذا غیر مسلموں کے یہ عطایا وقف کے دائرہ سے باہر نکل جائینگے اور بہت سے اوقاف متنازع بن جائینگے۔ 
(۱۱) موجودہ ایکٹ کی دفعہ ۱۰۸؍ کے تحت ’’ اوور رائڈنگ ایکٹ ‘‘ ہے، یعنی اگر دوسرے قوانین سے وقف قانون کا تعارض ہو تو وقف قانون لاگو ہوگا، ترمیمی بل ۲۰۲۴ء میں اسے بھی ختم کرنے کی تجویز ہے چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ وقف ایکٹ ایک اسپیشل قانون ہے اور مسلمہ قانونی اصول اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر کوئی اسپیشل قانون کسی جنرل قانون سے ٹکراتا ہے تو اس صورت میں اسپیشل قانون کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، یہ صرف وقف ایکٹ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ اصول دیگر اسپیشل ایکٹس پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ 
بعض پراعتراضا اور وپیگنڈہ:
موجودہ وقف ایکٹ پر فرقہ پرستوں کی طرف سے کچھ اعتراضات کئے جاتے ہیں، جن میں بعض تو محض پروپیگنڈہ ہیں، اور بعض غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ یہاں مثال کے طور پر ان کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے:
(۱) ’’وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد پر دعویٰ کرنے کے مطلق اور حتمی اختیارات دئیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں وقف جائیدادیں تقریباََ ۶؍ لاکھ ایکڑ پر محیط ہیں اور مسلمان ملک کے تیسرے سب سے بڑے زمین کے مالک ہیں۔ ‘‘ مولانا نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ نے اس کی بڑی عمدہ وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں : ’’ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں تمام وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ ۶؍ لاکھ ایکڑ ہے، اس کا موازنہ اگر ہندو انڈومینٹ سے کیا جائے تو تمل ناڈو میں کم و بیش ۷۸؍ ہزار اور آندھرا پردیش میں ۶۸؍ ہزار ایکڑ زمین انڈومینٹ کے پاس ہے جبکہ پورے بھارت میں وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے۔ زمین کو وقف قرار دینا کوئی خفیہ عمل نہیں ہے، اس کا پورا پروسیجر وقف ایکٹ میں مذکور ہے، وقف صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی جائیداد کا مالک ہو۔ اسے اپنی ملکیت کے دستاویزات وقف بورڈ میں جمع کروانے ہوتے ہیں، اس کے بعد عوام کو اعتراضات داخل کرنے کیلئے نوٹس جاری کیا جاتا ہے، حکومت ایک سروے کمشنر مقرر کرتی ہے، جو زمینوں کی جانچ کرتا ہے اور ان کے وقف کی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد یہ اعلان ریاستی گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص اس نوٹیفیکیشن کو ایک سال کے اندر وقف ٹربیونل میں چیلنج کر سکتا ہے۔ ‘‘
اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سات لاکھ ستر ہزار گاؤں ہیں، اگر مان لیا جائے کہ ان میں سے نصف تعداد میں کم یا زیادہ مسلمان بھی بستے ہیں تو ایسے گاؤں کی تعداد تین لاکھ پچاسی ہزار ہوتی ہے، مسلمان جہاں بھی آباد ہوتے ہیں، وہاں کم از کم ایک قبرستان ہوتا ہے، عیدگاہ ہوتی ہے اور نماز کیلئے مسجد ہوتی ہے۔ اگر قبرستان اور عید گاہ کیلئے ایک ایک ایکڑ اور مسجد کیلئے نصف ایکڑ یعنی اوسطاََ ڈھائی ایکڑ فی آبادی زمین فرض کی جائے تو اس کی مقدار تو نو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو ایکڑ زمین ہونی چاہئے، جیسا کہ ہندو بھائیوں کے یہاں مندر، مٹھ، شمشان گھاٹ وغیرہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھیں تو چھ لاکھ ایکڑ زمین کوئی بڑا رقبہ نہیں ہے اور پھر سرکار کی دی ہوئی نہیں ہے؛ بلکہ خود مسلمانوں کی ہے۔ 
(۲) ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ’’حکومت ہر ۱۰؍ سال میں تمام وقف جائیدادوں کا سروے کراتی ہے، اس کے اخراجات کون ادا کرتا ہے، ٹیکس دہندہ!اکثریتی برادری کو یہ اخراجات کیوں برداشت کرنے چاہئیں ؟‘‘اس سلسلے میں عرض ہے کہ ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے کہ ایک طبقہ کی ضرورت پر اسی طبقہ کی رقم خرچ ہو۔ برادران وطن کی مذہبی تقریبات پر، یاتراؤں، میلوں اور بالخصوص کمبھ پر بہت بڑی رقم خرچ ہوتی ہے، اور اس رقم میں ملک کے تمام شہریوں کا ٹیکس بالواسطہ شامل ہوتا ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے بڑے ٹیکس دہندگان میں اچھی خاصی تعداد میں مسلمان تاجر بھی شامل ہیں، جیسے: عظیم پریم جی، یوسف علی مالک لؤلؤ، شاہد بلوچ بانی شاپر اسٹاپ، شاہد بَلوا، فلمی دنیا اور اسپورٹس سے جڑے ہوئے مسلمان اداکار، اداکارائیں اور کھلاڑی وغیرہ، اور آج تو پانی کا ایک بوتل لیا جائے تو اس میں بھی ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ ان اخراجات میں مسلمانوں کے ٹیکس کی رقم بھی شامل ہوتی ہے؛ اس لئے یہ اعتراض قطعاً بے جا اور غلط ہے۔ 
(۳) یہ بھی تأثر دیا جا رہا ہے کہ ’’وقف کی جائیداد کا فیصلہ یک طرفہ طور پر وقف ٹریبونل کر دیتا ہے اور کسی بھی جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے سکتا ہے۔ ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ وقف ٹربیونل کی حیثیت سِول عدالت کی ہے، جس کا اعلیٰ افسر ڈسٹرکٹ جج ہوتا ہے، اگر وقف کی جائیداد پر کوئی شخص، ادارہ یا سرکار قابض ہو تو اس میں کیس چلتے ہیں، فریقین اپنا ثبوت پیش کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں ٹریبونل فیصلہ کرتا ہے۔ اگر فیصلہ پر کوئی ایک فریق مطمئن نہیں ہو تو وہ ہائی کورٹ جا سکتا ہے، اور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مطمئن نہ ہو تو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے؛ اسلئے یہ کہنا کہ وقف ٹربیونل کی مدد سے وقف بورڈ جائیداد کو وقف قرار دیتا ہے، جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ 
(۴) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’وقف ایکٹ کے سیکشن ۸۳؍ کے تحت وقف ٹربیونل کو شریعت کے مطابق چلایا جاتا ہے، ایک غیر مسلم کو اسلامی قانون کے تحت چلائے جانے والے ٹریبونل سے انصاف حاصل کرنے پر مجبور کیوں جا رہا ہے؟‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ وقف ٹریبونل حکومت کے مقرر کئے ہوئے دو قانونی و انتظامی ماہرین اور ایک احکام شریعت کے ماہر پر مشتمل ہوتا ہے، جو مسائل بورڈ کے زیر تولیت اوقاف کے استعمال سے متعلق شرعی نوعیت کے ہوتے ہیں، ان کو شریعت کے مطابق حل کیا جاتا ہے، مثلاً یہ بات کہ ایک زمین مسجد پر وقف ہے، کیا اس کی زائد آمدنی قبرستان پر یا تعلیمی مقاصد کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے؟ اس کیلئے شریعت کے معتبر ماہرین کی رائے سے فیصلہ ہوگا، اور دوسرے مسائل جیسے وقف بورڈ اور کسی مسلم یا غیر مسلم فریق کے درمیان تنازع، تو ان کو قانون ِملکی کے مطابق فیصل کیا جاتا ہے؛ اس لئے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وقف ٹریبونل غیر مسلم فریق پر شریعت کے قانون کو لاگو کرتا ہے، اور یہ بھی کہنا درست نہیں ہے کہ ہندو انڈومینٹ کے معاملات میں شاستروں کا علم رکھنے والے کسی ہندو رکن کا ہونا لازم نہیں ہے؛ بلکہ دوسری مذہبی املاک کے بارے میں بھی اس طرح کا قانون موجود ہے، جیسے تلنگانہ ہندو انڈومینٹس ایکٹ ۱۹۸۷ء کے مطابق ایک اضافی کمشنر لازمی طور پر ہندو ہونا چاہئے۔ 
 (۵) ایک بات بار بار کہی جارہی ہے کہ ’’تمل ناڈو کے ضلع چندورائی میں ایک مکمل ہندو گاؤں، جس میں ۱۵۰۰؍ سال سے زیادہ پرانا ایک ہندو مندر ہے، کو وقف جائیداد قرار دے دیا گیا ہے۔ ‘‘ 
یہ خبر جس طرح چلائی جا رہی ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ اراضی چھ سو ایکڑ پر مشتمل ہے اور وقف بورڈ تمل ناڈو کے بیان کے مطابق یہ زبانی وقف ہے، جو چھ سو سال پہلے وقف کیا گیا تھا، اور جس مندر کو پندرہ سو سال پہلے کا بتایا جا رہاہے، وہ سو سال سے کچھ عرصہ پہلے کا ہے، یہاں پانچ سو تا چھ سو مکانات کی ایک آبادی بس گئی ہے، جو زیادہ تک غیر مسلم بھائیوں پر مشتمل ہے، وقف بورڈ نے اپنے ریکارڈ کی بنیاد پر بیان دیا تھا لیکن اس نے معاملہ کو حکومت کے حوالے کر دیا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کر دے اسے منظور ہے۔ اس پہلو کا سچائی کے ساتھ ذکر نہیں کیا جا تا۔ 
(۶) معترضین بار بار یہ بات اٹھاتے ہیں کہ ’’موجودہ قانونِ وقف وقف بورڈ کو کسی بھی زمین پر دعویٰ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ‘‘ سوال یہ ہے کہ کیا وقف بورڈ کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے؟ اور کیا صرف وقف بورڈ کے کسی دعویٰ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی صاحب ِحق پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ کس زمین پر اپنا حق پیش کر سکتا ہے اور کس پر نہیں ؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی شخص دعویٰ کرے تو قابل قبول ثبوت کے بغیر دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا، اور مقدمہ قبول کرنے کے بعد بھی جب تک کوئی بات ثبوت وشہادت سے ثابت نہ ہو جائے، اس دعویٰ پر مہر نہیں لگائی جاتی ہے اور اس دعویٰ کا نفاذ نہیں ہوتا ہے؛ اس لئے یہ صرف پروپیگنڈہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK