آن پاک کی دعوت اور اُس کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے: ’’اے انسانو! صرف اپنے اُس ربّ کی بندگی کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ ‘‘ (البقرہ:۲۱)
EPAPER
Updated: February 25, 2025, 3:56 PM IST | Syed Abul Ala Maududi | Mumbai
آن پاک کی دعوت اور اُس کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے: ’’اے انسانو! صرف اپنے اُس ربّ کی بندگی کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ ‘‘ (البقرہ:۲۱)
آن پاک کی دعوت اور اُس کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے:
’’اے انسانو! صرف اپنے اُس ربّ کی بندگی کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ ‘‘ (البقرہ:۲۱)
قرآن مزدوروں یا کاشت کاروں یا کارخانہ داروں کو نہیں پکارتا بلکہ انسانوں کو پکارتا ہے۔ اس کا خطاب انسان سے بحیثیت انسان ہے اور وہ صرف یہ کہتا ہے کہ اگر تم خدا کے سوا کسی کی بندگی، اطاعت، فرماں برداری کرتے ہو تو اسے چھوڑدو، اور اگر خود تمہارے اندر خدائی کا داعیہ ہے تو اُسے بھی چھوڑ دو کہ دوسروں سے اپنی بندگی کرانے اور دوسروں کا سر اپنے آگے جھکوانے کا حق بھی تم میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ تم سب کو ایک خدا کی بندگی قبول کرنی چاہئے اور اس بندگی میں سب کو ایک سطح پر آجانا چاہئے:
’’آپ فرما دیں : اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں۔ ‘‘
(آل عمران:۶۴)
یہ عالم گیر اور کُلی انقلاب کی دعوت ہے۔ قرآن نے پکار کر کہا ہے کہ ’’حکومت سوائے خدا اور کسی کی نہیں ہے‘‘ (الانعام :۵۷) کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ بذاتِ خود انسانوں کا حکمراں بن جائے اور اپنے اختیار سے جس چیز کا چاہے حکم دے اور جس چیز سے چاہے روک دے۔ کسی انسان کو بالذات امرونہی کا مالک سمجھنا دراصل خدائی میں اسے شریک کرنا ہے اور یہی بنائے فساد ہے۔ اللہ نے انسان کو جس صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے اور زندگی بسر کرنے کا جوسیدھا راستہ بتایا ہے، اُس سے انسان کے ہٹنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ لوگ خدا کو بھول جائیں اور نتیجتاً خود اپنی حقیقت کو بھی فراموش کردیں۔ اس کا نتیجہ لازمی طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض اشخاص یا خاندان یا طبقے خدائی کا کھلا یا چھپا داعیہ لے کر اُٹھتے ہیں اور اپنی طاقت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو اپنا بندہ بنالیتے ہیں۔ دوسری طرف اس خدافراموشی اور خود فراموشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک حصہ ان طاقتوروں کی خدائی مان لیتا ہے اور ان کے اس حق کو تسلیم کرلیتا ہے کہ یہ حکم کریں اور وہ اس حکم کے آگے سر جھکا دیں۔ یہی دُنیا میں ظلم و فساد اور ناجائز انتفاع کی بنیاد ہے۔ قرآن پہلی ضرب اسی پر لگاتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’ان لوگوں کا حکم ہرگز نہ مانو جو اپنی حد ِ جائز سے گزر گئے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔ ‘‘ (الشعراء: ۱۵۱-۱۵۲)
’’اُس شخص کی اطاعت ہرگز نہ کرنا جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہشاتِ نفس کا بندہ بن گیا ہے اور جس کا کام افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ ‘‘ (الکہف :۲۸)
’’خدا کی لعنت ہو اُن ظالموں پر جو خدا کے بنائے ہوئے زندگی کے سیدھے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور اس کو ٹیڑھاکرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ (ھود:۱۸-۱۹)
وہ لوگوں سے پوچھتا ہے:’’اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! (بتاؤ) کیا الگ الگ بہت سے معبود بہتر ہیں یا ایک اﷲ جو سب پر غالب ہے؟‘‘(یوسف : ۳۹)، یعنی یہ بہت سے چھوٹے بڑے خدا جن کی بندگی میں تم پسے جارہے ہو، اِن کی بندگی قبول ہے یا اُس خدائے واحد کی جو سب سے زبردست ہے؟ اگر اس خدائے واحد کی بندگی قبول نہ کرو گے تو ان چھوٹے اور جھوٹے خدائوں کی آقائی سے تمہیں کبھی نجات نہ مل سکے گی، یہ کسی نہ کسی طور سے تم پر تسلط پائیں گے اور فساد برپا کرکے رہیں گے:
’’یہ بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اُس کے نظامِ حیات کو تہ و بالا کرڈالتے ہیں اور اس کے عزّت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور ان کا یہی وتیرہ ہے۔ ‘‘(النمل :۳۴)
’’اورجب وہ اقتدار پا لیتا ہے تو زمین میں فساد پھیلاتا ہے، کھیتوں کو خراب اور فصلوں کو تباہ کرتا ہے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ (البقرہ:۲۰۵)
اسلام کی دعوتِ توحید و خدا پرستی محض اس معنی میں ایک مذہبی عقیدے کی دعوت نہ تھی جس میں اور دوسرے مذہبی عقائد کی دعوت ہوا کرتی ہے، بلکہ حقیقت میں یہ ایک اجتماعی انقلاب کی دعوت تھی۔ اس کی ضرب بلاواسطہ ان طبقوں پر پڑتی تھی جنہوں نے مذہبی رنگ میں پیشوا بن کر، یا سیاسی رنگ میں بادشاہ بن کر اور رئیس اور حکمراں گروہ بن کر، یا معاشی رنگ میں زمیندار اور اجارہ دار بن کر عامۃ الناس کو اپنا بندہ بنا لیا تھا۔ یہ کہیں علانیہ ارباب من دون اللہ بنے ہوئے تھے، دُنیا سے اپنے پیدائشی یا طبقاتی حقوق کی بنیاد پر اطاعت و بندگی کا مطالبہ کرتے تھے اور صاف کہتے تھے کہ’’میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جانتا۔ ‘‘ (القصص : ۳۸) اور ’’میں تمہارا سب سے بلند و بالا رب ہوں ‘‘ (النازعات : ۲۴)، اور ’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے‘‘ (البقرہ : ۲۵۸)، اور ’’کون ہے ہم سے زیادہ زورآور؟‘‘ (حم السجدہ :۱۵)، اور کہیں اُنہوں نے عامۃ الناس کی جہالت کو استعمال کرنے کے لئے بتوں اور ہیکلوں کی شکل میں مصنوعی خدا بنا رکھے تھے جن کی آڑ پکڑ کر یہ اپنے خداوندی حقوق بندگانِ خدا سے تسلیم کراتے تھے۔ پس کفروشرک اور بُت پرستی کے خلاف قرآن کی دعوت اور خدائے واحد کی بندگی و عبودیت کے لئے قرآن کی تبلیغ براہِ راست حکومت اور اس کو سہارا دینے والوں یا اُس کے سہارے چلنے والے طبقوں کی اغراض سے متصادم ہوتی تھی۔ اس وجہ سے جب کبھی کسی نبی ؑ نے صدا بلند کی، کہ اے برادرانِ قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے (الاعراف:۵۹)، تو حکومت ِ وقت فوراً اس کے مقابلے میں آن کھڑی ہوئی اور تمام ناجائز انتفاع کرنے والے طبقے اس کی مخالفت پر کمربستہ ہوگئے کیونکہ یہ محض ایک مابعد الطبیعی قضیہ کا بیان نہ تھا بلکہ ایک اجتماعی انقلاب کا اعلان تھا۔