• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا پرپھیلتا ہوا بدگمانی کا جال اور اسلامی تعلیماتِ حسن ظن

Updated: July 26, 2024, 2:25 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

انسان کی فطرت میں جلدبازی ہے اور وہ دوسروں کے تئیں فیصلہ کرنے اور بدگمان ہونے میں بھی دیر نہیں کرتا مگر یاد رہے کہ اسلام نے حسن ظن کی تعلیم دی ہے۔

Not only don`t be quick to form an opinion about someone, but also think about a message before you forward it. Photo: INN
نہ صرف یہ کہ کسی کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں جلدی نہ کریں بلکہ کسی میسج کو بھی آگے بڑھانے سے پہلے اس پر غور کرلیں۔ تصویر : آئی این این

یہ بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام میں ہر مسلمان کو ہر حال میں حسن ظن کی تعلیم دی گئی ہے۔ حسن ظن کہتے ہیں کسی کے متعلق اچھا گمان، اچھا خیال رکھنے کو۔ یعنی چند ظاہری اسباب کی وجہ سے ہم جلدبازی میں فیصلہ کرکے کسی کے متعلق کوئی غلط رائے نہ قائم کریں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ حضرتِ انسان دوسروں کی غلطی کی نشاندہی کے متعلق بڑے ہی عجلت پسند واقع ہوئے ہیں۔ یعنی انسان کا ذہن اکثر وہ عدالت ثابت ہوتا ہے کہ جہاں بنا کسی شنوائی اور صفائی کے ہی مقدمہ فیصل کردیا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے ذہن میں کسی کہانی، کسی ناول کی طرح دوخانے بنے ہوتے ہیں، اور جب ہم کسی کے متعلق جب بھی کوئی رائے قائم کرتے ہیں بہت جلد ان کو ان دو میں سے کسی ایک خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور آج تو ہمارے معاشرے میں یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر ہم دوسروں کے متعلق صحیح اور بہتر رائے سے زیادہ غلط اور منفی رائے قائم کرنے کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک میسج نظروں سے گزرا جس میں ایک سوال پوچھا گیا تھا: ’اگر تین دوست بیٹھے ہوں، اور ایک اٹھ کر چلا جائے تو باقی دو دوست کیا کریں گے ؟ اس سوال کا جواب تھا: اٹھ کر چلے جانے والے کی غیبت۔ ‘
 یہ چھوٹا سا ایک میسج ہمارے معاشرے کا اصلی چہرہ بے نقاب کرتا ہے کہ کس طرح اپنے قریبی لوگ بھی موقع ملتے ہی کردارکشی میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ بہت سیدھی سی ہے: ہمارے درمیان پھیلا ہوا بدظنی اور بدگمانی کا وہ وائرس ہے جس نے ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ سب نتیجہ ہے اسلامی تعلیمات سے دوری کا۔ سب سے پہلے تو اسلام نے چغلی اور غیبت کو سختی سے منع کیاہے ہی، اور ساتھ ہی میں دوسروں کے متعلق حسن ظن کی تعلیم دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :’’ اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ ‘‘ (الحجرات:۱۲) لیکن انسان اپنی فطرت میں بڑاجلد باز واقع ہوا ہے۔ اللہ عزوجل نے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا: انسان بڑا ہی جلد باز پیدا کیا گیا ہے۔ بس یہی فطرت انسان کی دوسروں کے متعلق فیصلہ کرنے کی بھی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کی باہمی محبت مسمار ہوتی چلی جارہی ہے اور بدظنی اور بدگمانی کا دور دورہ ہوچلا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: نفقہ ٔمطلقہ کی بابت مضمرات ِشریعت و انصاف کو سمجھئے!

بدگمانی کے اس چلن کی بات کریں تو ہمیں ایک اور بات کا احساس ہوتا ہے: ماضی میں اس بدگمانی کادائرہ مختصر تھا۔ بدگمانی ہونے کے مواقع بھی آج کے دور کی نسبتاً کم تھے اور اگر بدگمانی ہوبھی جاتی تو اس کو بڑے پیمانے پر عام نہیں کیا جاتا تھا۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی نے اپنی شعبدہ بازی سے انسانی زندگی کاقدیم تصورہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب انسان کی زندگی آن لائن اور آف لائن میں منقسم ہوچکی ہے۔ وہ اپنے دن کا ایک حصہ اس دنیا میں جینے کے ساتھ ساتھ آن لائن بھی گزارتا ہے چنانچہ بدظنی کے جو مسائل اس کو اپنی اصلی زندگی میں درپیش تھے وہ مختلف شکلیں اختیار کرکے آن لائن زندگی میں بھی نہایت ہی گھناؤنی شکل اختیار کررہے ہیں۔ 
 اس بات کو مثال کے طورپر ایسے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم نے کسی کو فون کیا۔ اب وہ شخص اگر فون نہ اٹھائے تو فوری طور پر ہمارے ذہن میں اس کے متعلق یہ خیال آنا شروع ہوتا ہے کہ آخر کیا بات ہے، میرا کال ریسیو نہیں کیا جارہا۔ کبھی شیطان یہ خیال ڈال دیتا ہے کہ سامنے والا شخص مغرور ہوگیاہےاس لئے کہ وہ ترقی کرگیا ہے یا فون کرنے والے کو حقیر جان رہا ہےیا اس کو نظر انداز کررہا ہے۔ بہرحال ہزار قسم کے منفی خیالات ذہن میں ابھر آتے ہیں جبکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سامنے والا خود معافی تلافی کرکے کوئی مجبوری ظاہر کردیتا ہے کہ وہ کیوں بروقت کال ریسیو نہ کرسکا۔ 
 یہ تو نہایت چھوٹی سی مثال ہوئی آن لائن زندگی میں بدگمانی کی۔ اب اس پر ہی قیاس کیجئے کہ کسی کو وہاٹس اپ کا میسج بھیجا جائے اور اگروہ کسی وجہ سے اس کو نہ پڑھے یا پڑھ لے اور جواب نہ دے تو کس طرح شیطان فوری طور پر ذہن میں بیشمار بدگمانیاں پیداکردیتا ہے۔ لوگ یہاں تک برا مان جاتے ہیں کہ فلاں شخص آن لائن تھا پھر بھی ہمارے میسج کا جواب نہ دیا۔ اسی طرح اگر کوئی فیس بک یا انسٹاگرام پرہمارے کسی پیغام کو پسند نہ کرے تو اس سے الگ ناراضگی۔ کوئی اگر صرف پسند کرے اور اس پرکوئی رائے زنی نہ کرے، کچھ لکھے نہیں تو اس سے الگ بدگمانی۔ حد تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی کو قرآن مجید کی آیات اور احادیث بھی احتیاط سے بھیجنی پڑتی ہیں اس لئے کہ مثلا اگر کسی کو نماز ترک کرنے پر وعید کی حدیث بھیج دی گئی، تو بسا اوقات جواب آتا ہے کہ کیا میں بے نمازی ہوں جوآپ نے یہ حدیث مجھے بھیجی ہے۔ حالانکہ بھیجنے والے کی نیت صرف ایک اچھی بات کسی اور تک پہنچانے کی ہوتی ہے۔ الغرض یہ کہ سوشل میڈیا پر بدظنی کی دکان خوب جم کر چل پڑی ہےکہ ایک طرف یہاں بہ آسانی لوگ ایک دوسرے سے بدظن ہوتے چلے جارہے ہیں اور دوسری طرف یہاں بدگمانی بہت تیزی سے پھیلتی چلی جاتی ہے۔ اس لئے کہ میسج کا دائرۂ کار سارا عالم ہوتا ہے تو ہم نہیں جانتے کہ کسی کے متعلق بدگمانی والا ایک پیغام کتنے ہزار وں اور لاکھوں لوگوں کو متاثر کرے گا۔ 
 بدگمانی کے اس عام ہوتے دور میں ہمیں سوشل میڈیا پر اسلام کی حسن ظن کی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان کو عام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس لئے کہ بدگمانی جہاں ایک طرف ہماری معاشرتی زندگی سے محبت کو کافو رکردیتی ہے وہیں ہماری نیکیوں پر بھی وہ رہزن کی طرح ڈاکہ ڈال دیتی ہے۔ اس کے بدلے اگر ہم اپنی آن لائن اور آف لائن دونوں زندگیوں میں اگر حسن ظن اور نیک گمانی پر عمل کرتے ہیں تو پھر اس سے وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں انسان ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے پر اپنی جان نچھاورکردیتے ہیں۔ جیساکہ عہد نبوی ؐ میں دیکھنے ملا تھا کہ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن لوگ آج جان جاتے وقت بھی پانی اپنے پیاسے بھائی کی طرف بڑھا رہے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK