Inquilab Logo Happiest Places to Work

دیدۂ بینا والوں کیلئے قوموں کی تباہی میں بھی بڑی عبرت ہے!

Updated: April 18, 2025, 2:36 PM IST | Faryal Ahmed | Mumbai

ہم لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارے قلب اور ذہن گروی ہیں ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جو ہر آن ہمارے اردگرد حادثے ہورہے ہیں، محض اتفاقی امر ہے کیونکہ ہم نے غفلت اور دور اندیشی کی دور بینیں لگا رکھی ہیں حالانکہ یہ سارے واقعات ہمیں عبرت اور نصیحت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

Whether it`s a flood or an earthquake, there`s a lesson for us, provided we have vision! Photo: INN
سیلاب ہوں یا زلزلے ، اس میں ہمارے لئے عبرت ہوتی ہے بشرطیکہ ہم دیدۂ بینا رکھتے ہوں!۔ تصویر: آئی این این

اللہ تعالیٰ نے انسان کو دھڑکنے والا دل، سوچنے والا دماغ، سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں دی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمادیا:
 ’’پس اے دیدہِ بینا والو! (اس سے) عبرت حاصل کرو۔ ‘‘(الحشر:۲)
 قارئین محترم! قرآن مجید تمام انسانوں کو بالعموم اور تمام مسلمانوں کو بالخصوص دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں۔ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے اللہ کی طاقت اور قدرت سے ہی ہورہا ہے۔ 
گزری ہوئی قومیں اپنے برے اعمال، اپنی نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے اللہ کے حکم سے ہی مٹی ہیں اور انہیں ایک دن دوبارہ زندہ ہوکر اپنے اعمال کی جزا و سزا کے لئے بھی کھڑا ہونا ہے۔ دنیا میں جن قوموں اور جن لوگوں نے اللہ جل شانہ کی نافرمانی کی ان کا انجام یقیناً اچھا نہیں ہوا۔ کوئی فرعون کوئی ہامان، کوئی قارون، کوئی شداد اور کوئی ابوجہل بچا اور نہ ہی ان کے نقش قدم پر چلنے والے اللہ جل شانہ کے فیصلوں سے بچ سکے۔ 
حضرت نوحؑکی قوم کا عبرتناک انجام
حضرت نوح علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے تقریباً ایک ہزار سال کی عمر دراز عطا کی اس طویل مدت عمر میں ہمیشہ اپنی قوم کو دین حق اور کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے۔ انہیں قوم کی طرف سے سخت ایذائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی قوم ان پر پتھرائو کرتی یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہوجاتے پھر جب ہوش آتا تو ان کے لئے دعا کرتے کہ یااللہ میری قوم کو معاف کردے۔ جب اس عمل پر طویل صدیاں گزر گئیں تو ان طویل مصائب کے بعد اس مرد خدا کی زبان پر یہ الفاظ آگئے:
’’نوح (علیہ لسلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! میری مدد فرما کیونکہ انہوں نے تجھے جھٹلادیا ہے۔ ‘‘(المومنون:۳۹)
دوسرے مقام پر حضرت نوح ؑنے عرض کیا تھا:’’اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا باقی نہ چھوڑ۔ ‘‘ (نوح:۲۶)
یہ دعا قبول ہوئی اور پوری قوم طوفان نوح میں غرق کردی گئی۔ نوح علیہ السلام کے بیٹے کا انجام بھی برا ہوا۔ باپ نے بیٹے کو نصیحت کی مگر اس بدبخت نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ کر جان بچالوں گا اور پھر وہ بھی ڈوبنے والوں میں ہوگیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:اپنوں کی محبت کی قدر کریں یا پھر عتابِ الٰہی کیلئے تیار رہیں!

خدائی کے دعویدار نمرود مردود کا انجام
نمرود نے کہا کہ میں خدا ہوں یعنی میں تمہارے لئے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں جانتا۔ متکبر بادشاہ تھا، سرکشی بغاوت اور کفر شدید نخوت و غرور سے بھرا ہوا تھا۔ اسی چیز نے اسے خدائی کے دعویٰ پر آمادہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے چار سو سال تک حکومت اور بادشاہت کی تھی۔ 
اللہ تعالیٰ نے اس جابر بادشاہ کے پاس ایک فرشتہ بھیجا جس نے اس کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کیا۔ دوبارہ دعوت دی پھر انکار کیا۔ سہ بار دعوت دی پھر انکار کیا۔ پھر فرشتے نے کہا تو بھی اپنا لشکر جمع کر میں بھی کرتا ہوں چنانچہ نمرود نے طلوع آفتاب کے وقت اپنا تمام لشکر جمع کیا، ادھر اللہ تعالیٰ نے ان پر مچھروں کا دروازہ کھول دیا۔ اس کثرت سے مچھر آئے کہ ان لوگوں کو سورج نظر بھی نہ آتا تھا۔ ان مچھروں نے نہ صرف ان کے خون بلکہ ان کے گوشت پوست تک کو کھالیا اور ان کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بناکر جنگل میں پھینک دیا۔ انہی مچھروں میں سے ایک مچھر نمرود بادشاہ کے نتھنوں میں گھس گیا اور آخر دم تک اس کے نتھنے میں رہا حتیٰ کہ اللہ نے اس مچھر کے ذریعے اس کو ہلاک کردیا۔ 
خدائی کے دعویدار فرعون کا عبرتناک انجام
دراصل فرعون کسی شخص کا ذاتی نام نہیں تھا بلکہ قدیم شاہان مصر کا لقب تھا۔ آج بھی صدر، و وزیراعظم، شاہ اور چانسلر جیسے الفاظ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز افراد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اس منصب میں کچھ ایسی تاثیر ضرور ہے کہ اس پر متمکن ہونے کے بعد دماغ گھومنے لگتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہی حکمراں بہکی بہکی باتیں اور خدائی دعوے کرنے لگتا ہے۔ 
جب زمین پر اکڑ کر چلنے والے فرعون اور نمرود اپنی تدبیروں کو عملی جامہ پہنارہے ہوتے ہیں تو ارض و سما کا خالق بھی تدبیر کررہا ہوتا ہے اور بالآخر اسی کی تدبیر غالب آکر رہتی ہے۔ باقی سب تدبیریں مکڑی کا جالا ثابت ہوتی ہیں۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ فرعون خود اپنے گھر میں موسیٰ کی پرورش کرتا ہے اور اس کی جوانی دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ یہ جوانی اس پر آسمانی بجلی بن کر گرنے والی ہے۔ یہ معجزہ کل بھی رونما ہوا تھا اور آج بھی رونما ہوسکتا ہے۔ اس کی رونمائی میں انسانی عقل کے اعتبار سے تاخیر ہوسکتی ہے مگر کائنات کا نظام چلانے والے کے ہاں یہ تاخیر نہیں ہوتی۔ مصر کے ستم زدوں کو برسہا برس فرعون کی ہلاکت کا انتظار کرنا پڑا اور جب خدائی کا وہ دعویدار بحکم خدا دریا کی بپھری ہوئی موجوں میں غرق ہوگیا تو آسمان سے اعلان کیا گیا:
 ’’(اے فرعون!) سو آج ہم تیرے (بے جان) جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کیلئے (عبرت کا) نشان ہوسکے۔ ‘‘ (یونس:۹۲)
فرعون کی نعش آج بھی قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے اور بصارت اور بصیرت رکھنے والے انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں۔ 
ہاتھی والے لشکر کا عبرتناک انجام
قرآن مجید کی سورہ الفیل میں ایک اہم واقعہ ارشاد فرمایا گیا ہے جو یقیناً باعث عبرت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہورہا ہے:
’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ ‘‘ (الفیل:۱)
اس سورہ میں اصحاب فیل کے واقعہ کا مختصر بیان ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کو مسمار کرنے کے قصد سے ہاتھیوں کی فوج لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کی تھی۔ حق تعالیٰ نے معمولی پرندوں کے ذریعے ان پر آسمانی عذاب نازل فرماکر نیست و نابود کرکے ان کے عزائم کو خاک میں ملادیا۔ 
قوم لوط کا انجام
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا گیا:
’’اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بے شک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل:۳۲)
 قوم لوط بے حیائی کے کاموں میں ملوث تھی۔ اس پر اللہ کا عذاب آیا۔ حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ نے ان سب کو جمع کرکے ان کے مکانات اور مویشیوں سمیت اونچا اٹھالیا یہاں تک کہ ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آسمان کے فرشتوں نے سن لیں پھر انہیں زمین پر الٹ دیا۔ ایک کو دوسرے کے ساتھ ٹکرادیا اور سب ایک ساتھ غارت ہوگئے۔ جو باقی رہ گئے تھے ان کے دماغ آسمانی پتھروں نے پھوڑ دیئے اور ان کی بستیاں بے نام و نشان کردی گئیں۔ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK