• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

رحمۃ للعالمین ؐکی سیرت ِطیبہ اور محاسن و فضائل کا بار بار اعادہ کرنے کی ضرورت ہے

Updated: September 20, 2024, 5:08 PM IST | Dr. Fawad Fakhruddin | Indonesia

عام طور پر ماہِ ربیع الاوّل میں اسوۂ حسنہ کا خوب ذکر کیا جاتا ہے لیکن یاد رہنا چاہئے کہ یہ آپؐ کے یومِ ولادت تک محدود نہ رہے بلکہ بار بار اس کے اعادہ و تکرار کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ وہ انمٹ آثار ہیں جو امتوںاور قوموں کی زندگی کے میدانِ عمل میں فلاح و بہبودی سے متمتع کرتے ہیں۔ اسلام نے اس ربانی تعلیم اور صحیح فکر کی طرف تمام دنیا کو دعوت دی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کی بہتری اور سلامتی بھی اسی میں ہے کہ زمامِ حیات اسی صالح قائد کے ہاتھ میں دے دی جائے۔

A true believer is one who obeys the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) throughout his life. Lest it happen that we forget the teachings of the Prophet after the passing of the 12th day of Rabi`ul Awwal. Photo: INN
حقیقی مومن وہ ہے جو تاحیات نبی کریمؐ کی اطاعت کرتا رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ۱۲؍ربیع الاول کا دن گزرنے کے بعد تعلیمات ِ نبویؐ کو فراموش کردیں۔ تصویر : آئی این این

 سرورِ کائنات ﷺ جس روز دین حق کا پیغام لے کر دنیا میں تشریف لائے ہیں وہ دنیا کے اندر نئی روشنی کے ظہور کا روز تھا۔ اس نئی روشنی کی برکت تھی کہ اس نے انسان کو وہ عقیدہ اور تصور دیا جو سراسر مکارم اخلاق اور فضائل و محاسن کا مجموعہ تھا اور تسامح، رواداری اور رذائل سے اجتناب کی دعوت تھی۔ اس عطیہ نے انسانیت کے وجود کو افراط و تفریط کے گرداب سے نکال کر اعتدال پر فائز کیا۔ عورت کو، جو انسانی معاشرہ میں انتہائی پستی کے مقام پر گر چکی تھی، عزت و تکریم کے اعلیٰ مراتب سے ہمکنار کیا۔ جمہوریت کو رواج دے کر حقوق انسانی کی حد بندی کردی جو اس سنہری اصول پر قائم تھی کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی سفید فام کو سیاہ فام پر کوئی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ 
  اسلام کے ظہور نے دنیا کے نقشےپر ایک نئے تمدن اور ایک نئی تہذیب کو جنم دیا۔ دنیا کا فرسودہ نظام بدل کر رکھ دیا۔ دستور زندگی کی طرح ڈالی۔ انسانوں کے اندر ایک ایسی روح پھونک دی جس نے فرد اور جماعت کے درمیان الفت و محبت، اخوت و تعاون کے جذب ِ مقناطیسی کو نشوونمابخشی۔ شوریٰ فی الامر پر مملکت کی بنیادیں استوار کیں اور دین میں اکراہ و اجبار کی کوئی گنجائش نہ رکھی۔ ’’تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین‘‘ کہہ کر گویا اس بات کا اعلان کردیا کہ اسلام کی اطاعت کا قلاوہ گلے میں ڈالنے کے لئے ہر انسان کو اختیار اور آزادی حاصل ہے۔ کسی شخص کو اس لئے نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا کہ وہ کافر ہے۔ الغرض اس طرح کے دوسرے اصول اس امر کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ اسلام روادارانہ نظریات کا حامل ہے اور ایک ایسے جہانِ نو کی ایجاد اس کے پیش نظر ہے جو بغض و عداوت کی آلودگیوں سے مبرا اور تعصب و تنگ نظری کے جذبات سے پاک ہو اور نوع انسانی کے لئے امن و سلامتی کا گہوارہ ثابت ہوسکے۔ 
  اس مبارک گھڑی میں جس چیز کا بار بار اعادہ کرنے کی ضرورت ہے وہ آقائے نامدار ﷺ کی سیرت طیبہ اور آپؐ کے محامد و فضائل ہیں۔ یہ معلوم کیا جائے کہ دعوت ِ دین کو پھیلانے میں آپؐ نے کس طرح انتھک کوششیں کیں۔ گھر بار کو خیرباد کہہ کر کس طرح سفر و غربت کی صعوبتوں سے دوچار رہے، دشمن جنگ و جدال پر اتر آئے تو ان کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور بہت سے معرکے سر کئے، قوم کی طرف سے ایذائیں دی گئیں تو صبر و شکیب کے ساتھ انہیں سہا۔ یہ تمام واقعات آپؐ کے فضائل حسنہ اور اعلیٰ کردار کی شہادت دیتے ہیں۔ خود ذات ِ خداوندی نے آپ ﷺ کی تعریف میں فرمایا ہے:
 ’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۵۹)
 اس پر اکتفا نہ کرتے ہوئے مزید فرمایا:
 ’’بے شک آپ انسانی اخلاق کے بلند مدارج پر فائز ہیں۔ ‘‘  (القلم:۴)
 اسلام دنیا کے سامنے بے شمار مفید اور گرانقدر اصول لے کر آیا ہے۔ اس نے انسانوں کا ایک گروہ تیار کردیا جس کی اساس اعلیٰ انسانی اخلاقیات پر قائم تھی اور اس عقیدے پر قائم تھی جسے کائنات کے فرمانروا نے اپنی بشری مخلوق کے لئے انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام بنا کر بھیجا ہے۔ اس میں ہر اس چیز کی وضاحت کردی جس کی انسانوں کو اس جہانِ بے ثابت میں ضرورت لاحق ہوسکتی ہے اور ان تمام اعمال کا نقشہ پیش کردیا ہے جو آخرت کی زندگی میں سلامتی و نجات کے ضامن ہوسکتے ہیں۔ 
  آنحضرت ﷺکی اس یادگارِ دوام آثار میں ہمارے لئے جو منفعت بخش پہلو ہیں وہ آپؐ کا عمل اور آپؐ کا اسوہ ہیں، جو آپؐ کی ذاتی زندگی سے لے کر خاندانی اور قومی زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ آپؐ کا یہی اسوہ ہماری عزت و سرخروئی کے لئے دنیا میں ہماری قوت کی بقا کے لئے بیش قیمت اور نایاب سرمایۂ وراثت ہے۔ آپؐ کے اسوہ حسنہ اور آپؐ کی تعلیم کا خلاصہ چند نکات میں عرض کرنے کی کوشش ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:
دعوت حق کی تبلیغ
 دعوت ِ حق کو خلق خدا تک پہنچانے میں آپؐ نے کوشش کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ نہایت صبر اور بردباری کے ساتھ اس پیغام کو پہنچایا۔ یہ جدوجہد کسی دنیوی غرض اور ذاتی مفاد کی خاطر نہ تھی بلکہ خالص خدا کے لئے تھی۔ اسی بات کی تشریح کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا تھا:
 ’’بخدا اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ پر سورج لا رکھیں اور بائیں ہاتھ پر چاند کہ میں اس کام سے باز آجاؤں، تو بھی میں کبھی نہیں باز آؤں گا، یہاں تک کہ اللہ اس دین کو غالب کردے یا میری جان جاتی رہے۔ ‘‘
 دنیوی مال و متاع سےہمیشہ آپؐ نے بے اعتنائی اختیار فرمائی۔ جب آپؐ کے سامنے سونے کے پہاڑ بھی پیش کئے گئے تو آپؐ نے لینے سے انکار کردیا اور شرف و کرامت کی زندگی بسر کرنے کیلئے معمولی کفاف پر اکتفا کیا۔ 
 تواضع اور رواداری
  آپؐ کی پوری حیات مبارکہ میں ہمیں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ آپؐ نے کبھی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر رکھنے کی کوشش کی ہو، بلکہ آپؐ کی مجلس غرباء و مساکین اور معمولی حیثیت کے لوگوں کے ساتھ رہتی تھی اور جس طرح رؤسا اور سرداروں کے ساتھ آپؐ کا سلوک تھا اسی طرح عام افراد کے ساتھ بھی آپؐ کا مساویانہ طرز عمل تھا۔ آپؐ کی روادارانہ تعلیم کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ وہ قریش جو ہمیشہ آپؐ کے جانی دشمن رہے، آپؐ کو ایذائیں دیتے رہے، آپؐ کے رفقاء اور ساتھیوں کو آپؐ سے توڑنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے آپؐ کو ترک وطن پر مجبور کردیا، ان تمام سختیوں اور ایذارسانیوں کے باوجود وہی قریش ڈفتح مکہ کے دن جب گرفتار ہوکر آپؐ کی بارگاہ میں آتے ہیں تو آپؐ کی زبان مبارک سے ان کے حق میں یہ کلمات جاری ہوتے ہیں :
 ’’جاؤ، تم آزاد ہو۔ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ۔ اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘ تاریخ عفو و درگزر کی ایسی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ 
 عام مساوات
 آپؐ نے جس باہمی مساوات اور طبقاتی کشمکش کے استیصال کا درس دیا اس کی عملداری اس قدر ہمہ گیر تھی کہ آپؐ کا گھر اور خاندان بھی اس میں شامل تھا۔ آپؐ کے قبیلہ کے کسی فرد کو دوسروں پر کسی درجہ کوئی فضیلت و برتری حاصل نہ تھی۔ اس سلسلہ میں آپؐ کا وہ ارشاد مبارک بہت مشہور ہے جو آپؐ نے اپنی لخت ِ جگر حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:
 ’’اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہ! اپنے لئے نیک عمل کرلو۔ میں اللہ کی گرفت سے تمہیں ذرّہ بھر نہیں بچا سکتا۔ ‘‘
  اسی طرح دوسرے افراد ِ خاندان کو مخاطب ہوکر آپؐ نے فرمایا تھا:
 ’’اے محمدؐ کی آل! ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے پاس نیک اعمال لے کر آئیں اور تم حسب و نسب لے کر۔ عمل کرو، میں اللہ کی گرفت سے تمہیں بالکل نہیں بچا سکتا۔ ‘‘
 عام انسانی مساوات کی تشریح کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا:
 ’’حقوق میں تمام انسانوں کو برابر رکھو۔ اس طرح کہ اپنے بیگانوں کی طرح اور بیگانے اپنوں کی طرح ہوں۔ ‘‘
 اسلامی اور انسانی اخوت
  یہ وہ تعلیم تھی جس نے قوم کی منتشر صفوں میں اتحاد و الفت کے روح پرور گلشن کھلا دیئے اورمدت سے بچھڑے ہوؤں کو گلے ملا دیا۔ اخوت اسلامی کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر ہے:
 ’’بات یہی ہے کہ اہلِ ایمان (آپس میں ) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ‘‘  (الحجرات:۱۰)
 اسی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا:
 ’’اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۰۳)
  اسی نازک آبگینہ کی حفاظت کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آپس میں ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ کسی کو دوسرے کے خلاف بھڑکاؤ اور نہ آپس میں بغض رکھو اور نہ آپس میں کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع کرے اور تم (اللہ کے بندو) بھائی بھائی بن جاؤ۔ ‘‘
 عالمگیر انسانی برادری کے قیام کی دعوت دیتے ہوئے قرآن کریم نے بیان کیا ہے:
 ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سارے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو، یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔ ‘‘ (سورہ نساء:۱)
اعتماد علی النفس
آنخضرت ﷺ کی تعلیم و تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ آپؐ قوم کے اندر اعتماد علی النفس اور خودداری کی اعلیٰ صفات کو اجاگر کرنا چاہتے تھے تاکہ ایک طرف ہر فرد بذاتِ خود قوت کی چٹان بن جائے اور دوسری طرف پوری امت قوت و طاقت کا ایک ایسا ہمالہ بن جائے جو حوادث کے ہجوم اور جنگجوؤں کی شعلہ باری کے موقع پر دوسروں کے سامنے تعاون اور امداد کی جھولی پھیلانے کے بجائے اپنی ذات پر اعتماد کرنے والی اور اپنی مدد آپ کرنے والی ہو۔ 
  یہ ہے مختصر اور سرسری خلاصہ جو پیغمبرؐ انسانیت کی تعلیم میں ہمیں ملتا ہے اور آپؐ کے یومِ ولادت پر ہی نہیں، بار بار اس کے اعادہ و تکرار کی ہمیں ضرورت ہے۔ یہ وہ انمٹ آثار ہیں جو امتوں اور قوموں کی زندگی کے میدانِ عمل میں فلاح و بہبودی سے متمتع کرتے ہیں۔ اسلام نے اس ربانی تعلیم اور صحیح فکر کی طرف تمام دنیا کو دعوت دی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کی بہتری اور سلامتی بھی اسی میں ہے کہ زمامِ حیات اسی صالح قائد کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ جس قوم نے اپنی زندگی کی گاڑی اس فکر و عقیدے کے خطوط پر چلائی ہے اور اسلام کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے وہ عزت و شوکت اور تہذیب و تمدن کے بالاترین مدارج پر جاگزیں ہوئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK