اسلامی معاشرے میں مسجد اور امام کا کردار بہت اہم رہاہے۔ اگر امام مسجد سے صحیح نہج پر دینی خدمات انجام دےتو ہر محلہ اور محلّے کا ہر فرد دین دار بن سکتا ہے، لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ نہ مسجدانتظامیہ کو اس کی فکر ہے، نہ ائمہ کو۔ انتظامیہ پنج وقتہ جماعت اور جمعہ کے ایک رسمی سے بیان پر خوش ہے اور ائمہ بہ طور پیشہ وقت گزار رہے ہیں، الا ما شاء اللہ۔
مساجد اور صالح و باصلاحیت ائمہ مسلمانوں کی اہم دینی ضروریات میں سے ہیں۔ تصویر : آئی این این
اسلامی معاشرے میں مسجد اور امام کا کردار بہت اہم رہاہے۔ اگر امام مسجد سے صحیح نہج پر دینی خدمات انجام دےتو ہر محلہ اور محلّے کا ہر فرد دین دار بن سکتا ہے، لیکن یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ نہ مسجدانتظامیہ کو اس کی فکر ہے، نہ ائمہ کو۔ انتظامیہ پنج وقتہ جماعت اور جمعہ کے ایک رسمی سے بیان پر خوش ہے اور ائمہ بہ طور پیشہ وقت گزار رہے ہیں، الا ما شاء اللہ۔ خطیر رقم سے بنائی گئی مسجد کی بڑی اور عالی شان عمارتیں چند منٹوں کے لئے آباد ہوتی ہیں اور بس۔ مساجد اور صالح و باصلاحیت ائمہ مسلمانوں کی اہم دینی ضروریات میں سے ہیں، ان کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے ان کی ضروریاتِ زندگی کا پورا خیال رکھنا امت پر ضروری ہے۔ ان کی اقتصادی اور معاشی حالت کو بہتر کئے بغیر ان سے توقعات وابستہ کرنا دیوانے کے خواب سا ہے۔
اکثر مسجدوں کا حال یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے ائمہ و مؤذن اور خدام کا حق الخدمت اتنا کم طے کیا جاتا ہے جتنا ٹرسٹی صاحب اپنی فیملی کے ساتھ کسی اچھے ہوٹل میں بیٹھ کر ایک دو وقت کا کھانا کھا جاتے ہیں۔ پھر ایک مرتبہ تنخواہ طے ہو جانے کے بعد سالہا سال اس میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ وقتاً فوقتاً مہنگائی کی شرح بڑھتی رہتی ہے اور یہ تنخواہیں وہیں کی وہیں رہتی ہیں۔ اس تنخواہ سے ان کی بنیادی ضرورتیں بہ مشکل پوری ہوتی ہیں، اگر کوئی غمی خوشی کا موقع پیش آ جائے تو کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھئے: الزام تراشی بہت بڑا گناہ ہے
مختصر یہ کہ مساجد کے ائمہ، مؤذن اور خدام کی تنخواہیں ان کی صلاحیتوں، ضرورتوں اور مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے طے ہونی چاہئیں اور وقتاً فوقتاً ان میں معقول اضافہ بھی کیا جانا چاہئے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں کہ قیامت کی ایک نشانی اور رحمۃ للعالمین ﷺ کی یہ پیشین گوئی آپ کے ذریعے سچ ثابت ہو جائےگی کہ ’’لوگوں کو کوئی نماز پڑھانے والا نہیں ملےگا۔ ‘‘
ایک دوسرے کو امامت کے لئے دھکیلیں گے
’ابوداؤد‘ اور ’ابن ماجہ‘ میں ہے؛حضرت خرشہ بن حر فزاریؓکی بہن حضرت سلامہ بنت حرؓکہتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسجد والے آپس میں ایک دوسرے کو امامت کے لئے دھکیلیں گے، انہیں کوئی امام نہ ملے گا جو ان کو نماز پڑھائے۔ غلبۂ جہل کے علاوہ مستقل ائمہ کی ناقدری بھی اس کا سبب ہو سکتی ہے، اس سے ڈرنا چاہئے۔
افضل شخص کو آگے بڑھانا اس میں داخل نہیں
یہ الفاظ دراصل آخری زمانے میں ظہورِ جہل و فسق سے کنایہ ہیں، مطلب یہ ہے کہ قربِ قیامت میں ایسے جاہلوں اور ایسے نااہل لوگوں کا غلبہ ہوگا کہ کوئی امامت کے لائق نہیں ہوگا، امامت سے ہر کوئی اپنے آپ کو بچانا چاہےگا، ایک دوسرے سے کہےگا کہ تم نماز پڑھاؤ میں اس کا اہل نہیں، دوسرا کہےگا کہ نہیں تم پڑھاؤ میں اس لائق نہیں۔ واضح رہے کہ کوئی شخص اگر کسی کو افضل و اولیٰ سمجھ کر امامت کے لئے آگے بڑھائے اور خود نماز پڑھانے سے گریز کرے، تو وہ اس میں داخل نہیں، کیوں کہ وہ تو دوسرے کو افضل جان کر اپنے کو امامت سے پیچھے ہٹا رہا ہے۔ (مظاہرحق جدید)
کام زیادہ لینا اور اجرت کم دینا
اکثر مساجد میں ائمہ، مؤذن اور خدام سے کام زیادہ لیا جاتا ہے اور اجرت بہت کم دی جاتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓفرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔ (ابن ماجہ) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (یعنی یہ حدیثِ قدسی ہے): تین آدمی ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن میں لڑوں گا: (۱)ایک وہ شخص جس نے میرا واسطہ دے کر عہد کیا، پھر بےوفائی کی (۲)دوسرے وہ شخص جس نے کسی آزاد کو بیچ دیا اور اس کی قیمت کھائی (۳)تیسرے وہ شخص جس نے کسی مزدور کو کام پر رکھا، اس سے کام پورا لیا اور مزدوری نہ دی۔ (بخاری)
سابق مفتیِ اعظم گجرات، حضرت مفتی سید عبدالرحیم لاجپوریؒ تحریر فرماتے ہیں : مزدوری پوری نہ دینے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں کہ اس کی مزدوری مار لے اور پوری نہ دے، بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ جتنی اجرت اس کا م کی ملنی چاہئے اتنی نہ دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے کہ کم سے کم اجرت پر کام لے لے۔ فقہائے کرام ؒ نے تصریح کی ہے: ویعطی بقدر الحاجۃ والفقہ والفضل ان قصر کان اللہ علیہ حسیباً یعنی متولی اور مدرسے کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد و مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ وصلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں، باوجود گنجائش کے کم دینا، بری بات ہے، اور متولی و مہتمم خدا کے یہاں جواب دہ ہوں گے۔ (فتاویٰ رحیمیہ)
تنخواہ لینے والے کو امامت کا ثواب ملےگا؟
بعض لوگوں کو یہ اشکال ہوتا ہے کہ امام نے جب امامت کی تنخواہ لے لی تو اسے ثواب کیوں کر ملےگا؟ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : امامت کی تنخواہ لینا جائز ہے۔ اگر یہ نیت ہے کہ اگر مجھ کو اس سے زیادہ کہیں روپیہ ملا تو میں اس کو چھوڑ کر اس کو اختیار کرلوں گا، تب تو ثواب نہ ملے گا، اور اس کو اجرتِ محضہ کہا جائے گا، اور اگر یہ نیت رہے کہ زیادہ کے لئے بھی اس کو نہ چھوڑوں گا، تو ثواب ضائع نہ ہوگا، اور اس کو اجرت نہ کہا جائے گا، بلکہ نفقۂ حبس وکفایت، مثلِ رزق قاضی کہا جائے گا۔ (امدادالفتاوی)
تنخواہ لینے والا امام بہتر ہے یا نہ لینے والا
البتہ اگر کوئی للہ امامت کرے اور اہل بھی ہو تو سونے پہ سہاگا۔ مفتیِ اعظم گجرات، سیدی حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں : امام اعلم، اقرء اور اورع ہونا چاہئے یعنی شرعی مسائل کا علم زیادہ رکھتا ہو اور قرآن شریف صحیح پڑھتا ہو اور متبعِ شریعت و پابندِسنت ہو، اب اگر دو آدمی مذکورہ اوصاف میں برابر ہیں اور ان میں سے ایک تنخواہ لیتا ہےجب کہ دوسرا نہیں لیتا تو اس صورت میں جو تنخواہ نہ لیتا ہو تو اس کو امام بنانا بہتر ہے۔ باقی اگر کسی امام میں امامت کے لیے مطلوبہ اوصاف مفقود ہیں یا کمی ہے، تو محض اس بنا پر کہ وہ تنخواہ نہیں لیتا، اس کو بہتر نہیں کہہ سکتے۔ (محمودالفتاویٰ مبوب)