Inquilab Logo Happiest Places to Work

مطالب ِ قرآن کو سمجھنے کیلئے قرآن مجید کی تمثیلات میں تدبر کرنا ضروری ہے

Updated: April 11, 2025, 12:42 PM IST | Maulvi Muhammad Ayub Jirajpuri | Mumbai

قرآنی مباحث میں مثالوں کی جو اہمیت ہے اس کا اندازہ قرآن کے ہر طالب علم کو ہوگا۔ یہ مثالیں اپنے اندر بے شمار اسرار اور حقائق کا خزانہ رکھتی ہیں، جن کے سمجھنے کے بعد قرآنی اعجاز ِبلاغت کا کمال معلوم ہوسکتا ہے۔

The Holy Quran is the source of guidance for all humanity until the Day of Judgment. Photo: INN.
قرآن مجید تاقیامت ساری انسانیت کے لئے سرچشمہ ہدایت ہے۔ تصویر: آئی این این۔

تمثیل کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی غیرواضح اور غیرمحسوس حقیقت کو مخاطب کے فہم سے قریب تر لانے کیلئے کسی ایسی چیز سے تشبیہ دی جائے جو واضح اور محسوس ہو۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھو کہ جو چیز عام نگاہوں سے اوجھل ہوتی ہے تمثیل کے ذریعہ گویا اس کا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ بیان بڑی کثرت کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے کیونکہ جن حقائق سے وہ آگاہ کرنا چاہتا ہے وہ قریب قریب سب کے سب غیرمرئی اور غیرمحسوس ہیں۔ لہٰذا قرآن مجید کی تمثیلات کا مضمون بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں تدبر کرنا مطالب قرآن کو سمجھنے کے لئے نہایت ضروری ہے۔ 
(۱) قرآن، منافقین کے بارے میں کہتا ہے:
’’ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے (تاریک ماحول میں ) آگ جلائی اور جب اس نے گرد و نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا، اب وہ کچھ نہیں دیکھتے، یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے، یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں، اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے، یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اُچک لے جائے گی، جب بھی ان کے لئے (ماحول میں ) کچھ چمک ہوتی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں، اور اگر اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سلب کر لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘ 
(سورہ البقرہ: ۱۷؍تا۲۰)
اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کے حسب حال دو مثالیں بیان کی ہیں۔ ایک ناریؔ دوسری مائیؔ(آگ کی اور پانی کی)۔ غور کرو تو معلوم ہوگا کہ اس میں فلسفۂ ہدایت کی گہری حکمت پنہاں ہے۔ یہی دونوں چیزیں (آگ اور پانی) روشنی اور زندگی کا سرچشمہ ہیں۔ آگ روشنی کی اصل ہے اور پانی زندگی کی اصل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی وحی کے متعلق فرماتا ہے کہ اس کے اندر دلوں کیلئے زندگی اور نور ہے۔ اسی مناسبت سے اس کا نام اس نے روح اور نور رکھا ہے۔ اسے قبول کرنے والوں کو ’’احیاء‘‘ (زندہ) کہتا ہے جو روشنی میں ہیں، اور منکرین کو ’’اموات‘‘  (مردہ) بتاتا ہے جو تاریکی کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ یہاں منافقین کی حالت اس مناسبت سے بیان ہے کہ انہوں نے وحی الٰہی کو دلیل ِ راہ بنایا لیکن اپنی ہی خریدی ہوئی بدبختیوں کی بدولت اس پر قائم نہ رہ سکے۔ اسی لئے ان کو اس شخص کے مشابہ قرار دیا ہے جس نے آگ جلائی روشنی حاصل کرنے اور بہرہ مند ہونے کے لئے لیکن اس کی یہ کوشش نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ منافقین کی حالت اس سے بالکل ملتی جلتی ہے بایں طور کہ انہوں نے دائرۂ اسلام میں قدم رکھا، اس کی روشنی میں چلنا چاہا، فوائد حاصل کئے، اس کے دامن میں پناہ لی اور مسلمانوں میں مل گئے، لیکن چونکہ اس میل ملاپ کا محرک کوئی ایمانی جذبہ نہ تھا جس کا نور ان کے دلوں میں واقعتاً موجود ہوتا اس لئے اللہ نے اسلام کی یہ روشنی ان کے دلوں سے بجھا دی اور ان پر ظلمت و تاریکی کا پردہ ڈال دیا۔ ذرا قرآن کی اس حکمت پر بھی ایک نظر ڈالو کہ اس نے ذھب اللہ بنورھم (ان کی روشنی زائل کردی) کہا ہے بنارھم (یعنی ان کی آگ بجھا دی) نہیں کہا۔ آگ کی خاصیت روشنی بخشنا اور جلانا دونوں ہے۔ سو اللہ نے روشنی تو ان سے سلب کرلی اور جلانے کی تاثیر باقی رکھی اور ان کو تاریکیوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ یہی اس شخص کی صحیح تصویر ہے جس نے بینائی سے کام لیا، پھر آنکھوں پر خود ہی پٹی باندھ لی۔ معرفت و ہدایت کی سعادت حاصل کی پھر خود ہی انکار و تکذیب کی لعنت اوڑھ لی۔ حدودِ اسلام میں داخل ہوا پھر باطنی لحاظ سے آپ ہی آپ الٹے پاؤں پھر گیا اور ادھر کا رخ نہ کیا۔ اس کی وجہ ان کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ ’’وہ اب لوٹنے والے نہیں ہیں۔ ‘‘
اب ذراقرآن کی آبی تمثیل کے آئینہ میں بھی منافقین کی تصویر دیکھ لو۔ قرآن کہتا ہے کہ منافقین کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو چلتے چلتے زور و شور کی بارش میں گھر گئے ہوں، بادلوں کی ہمہ گیر تاریکی ان پر مسلط ہے، ہولناک بجلیوں کی کڑک چمک ہے، ضعف قلب اور سراسیمگی سے ان کا برا حال ہے۔ تاریکی میں کبھی کبھی رہ رہ کر بجلی چمکتی ہے تو اس کی مدد سے دوقدم چل لیتے ہیں لیکن جب زور کی بجلی کڑکتی اور کوندتی ہے تو ڈر کے مارے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ کہیں صاعقہ ٔ آسمانی (آسمان کی بجلی) آ نہ لے اور تارِ حیات ٹوٹ نہ جائے۔ بس اسی طرح ان منافقین کے لئے بھی رحمت ِ الٰہی کی وہ بارش جو قرآن کی صورت میں ہوئی، ان کی اپنی کمی ٔ عقل، ضعف ِدماغ اورقلت ِ علم و بصیرت کی وجہ سے زحمت بن گئی۔ قرآن کے احکام امر و نہی اور نفس پرستوں پر اس کی زجر و توبیخ ان کے لئے بجلی کی کڑک اور چمک بن گئے ہیں جن کی تاب لانا ان کے بس میں نہ تھا۔ ہلکی ہلکی بے ضرر تعلیمات کی روشنی میں تو وہ کچھ چل لیتے ہیں مگر جہاں آزمائش کے معاملات آجائیں یا جہاں تاویلات کی گنجائش نہ دے کر دو ٹوک فیصلہ کردینے والی آیت آجائے وہاں وہ سخت کشمکش اور پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ جب گمراہ اور بدعتی فرقوں کے سامنے قرآن کی کوئی صریح آیت پیش کر دی جاتی ہے تو وہ ایسے سٹپٹاتے ہیں کہ گویا بکریوں کے سامنے شیر آگیا، حالانکہ قرآن کی آیت تو فی نفسہ رحمت ہے، مگر ان کیلئے سخت مصیبت بن جاتی ہے۔ اس کی چکاچوند میں وہ راستہ بھول جاتے ہیں اور اس کی آواز ان کیلئے بجلی کا کڑکا بن جاتی ہے جس سے جان بچانے کیلئے انہیں کانوں میں انگلیاں ٹھونس لینی پڑتی ہیں۔ 
ان کی یہ حالت کیوں ہوتی ہے؟ صرف اس بنا پر کہ ان کی عقلو ں اور دلوں پر حق سے نامانوسیت اور بیگانگت کا پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے کمزور دل صفات ِ الٰہی کے روحانی بار کو اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس وجہ سے وہ اعراض و نفرت پر تل جاتے ہیں ۔ انہی کے مثل ان مشرکوں کا حال بھی ہے جن کے سامنے خالص مسئلہ ٔ توحید مبرہن (روشن اور واضح) ہوکر آجاتا ہے اور قطعی دلائل و نصوص ان کے مشرکانہ اوہام کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں تب بھی ان کے دلوں میں ایمان کی روشنی پیدا نہیں ہوتی بلکہ ان پر قرآن کی بات اتنی شاق گزرتی ہے اور وہ اس سے اس قدر وحشت کھاتے ہیں کہ اگر ان کا بس چلے تو اپنے کانوں کو بند کرلیں۔ اسی طرح اگر تم اصحابؓ سرور کونین ﷺ سے بھی دشمنی رکھنے والوں کو دیکھو گے تو انہیں بھی اسی مرض میں گرفتار پاؤ گے۔ جب خلفائے راشدین اور صحابہؓ کی حقانیت اور بزرگی ثابت کرنے والی صریح نصوص ان کے سامنے بے نقاب ہوکر آتی ہیں تو ان سے بڑھ کر کوئی چیز ان کیلئے سوہانِ روح نہیں ہوتی اور نہایت بے باکی کے ساتھ وہ ان حقائق کا انکار کردیتے ہیں۔ 
غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان تمام عوارضِ قلوب کو منافقین کی اس معنوی حالت سے ایک خاص مناسبت ہے جس کی مثال اللہ نے بیان فرمائی ہے۔ اسلئے کہ ان کے حالات اور اعمال بالکل انہی کے سے ہیں اور دلوں کی مشابہت ہی اعمال کی مشابہت کا باعث ہوتی ہے۔ ایک جماعت یا ایک فرد کے افعال و کردار میں اگر ہم رنگی ہے تو جان لو کہ اس کی کیفیت نفسی اور ان کی صورت روحانی میں بھی ضروری مشابہت ہے۔ 
(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK