آج جب دنیا ڈیجیٹل تشہیر اور سوشل میڈیا کی عارضی دلچسپیوں میں الجھ کر گہرائی سے محروم ہو چکی ہے، تو کتاب ہی وہ واحد شے ہے جو فکری نکھار، تہذیبی جاذبیت اور معنوی گیرائی کا مستند ذریعہ ہے۔
EPAPER
Updated: April 18, 2025, 2:19 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
آج جب دنیا ڈیجیٹل تشہیر اور سوشل میڈیا کی عارضی دلچسپیوں میں الجھ کر گہرائی سے محروم ہو چکی ہے، تو کتاب ہی وہ واحد شے ہے جو فکری نکھار، تہذیبی جاذبیت اور معنوی گیرائی کا مستند ذریعہ ہے۔
ایک ایسا کمرہ جہاں مکمل اندھیرا ہو، انسان اس کمرے میں داخل ہوتا ہے تو اسے نہ اپنی سمت کا پتہ ہوتا ہے، نہ دیواروں کا، نہ دروازوں کا۔ وہ اندھیرے میں ٹکریں مارتا ہے، گھبراہٹ محسوس کرتا ہے اور کبھی کبھار خود کو زخمی بھی کر بیٹھتا ہے۔ اب اسی کمرے میں آپ ایک چراغ روشن کرتے ہیں۔ وہ چراغ نہ صرف کمرے کو روشن کرتا ہے بلکہ آپ کو راستہ بھی دکھاتا ہے، دیواروں کی حدود کا پتہ دیتا ہے اور دروازے کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اب وہی انسان، جو اندھیرے میں ٹکرا رہا تھا، سکون سے حرکت کرتا ہے، ٹھوکر سے بچتا ہے اور اپنی منزل تک پہنچنے لگتا ہے۔
یہی حال علم کا ہےاور کتاب اس علم کا چراغ بھی ہے اور آئینہ بھی۔ چراغ اس لئے کہ یہ راستہ دکھاتی ہے، اور آئینہ اس لئے کہ انسان کو اس کی اصل حقیقت، اس کا چہرہ دکھاتی ہے۔ جس طرح چراغ کے بغیر اندھیرے میں بھٹکنا مقدر ہوتا ہے، اسی طرح کتابوں کے بغیر علم کی تلاش محض گمان بن کر رہ جاتی ہے۔ کتاب نہ ہو تو فکر اندھی، علم خام اور تہذیب ادھوری ہو جاتی ہے۔ علم کا سرچشمہ بظاہر سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات میں پوشیدہ معلوم ہوتا ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ علم کی اصل روح کتابوں کے اوراق میں مضمر ہے۔ انسان کی فکری تاریخ گواہ ہے کہ جس قدر انسان نے کتاب سے رشتہ مضبوط کیا، اسی قدر اس کی تہذیب نے رفعت پائی، اس کی سوچ نے گیرائی حاصل کی اور اس کے شعور نے وسعت اختیار کی۔ کتاب، محض کاغذ و قرطاس کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ وجود ہے؛ ایسا وجود جو خاموش رہ کر صدیوں کی صدا بن جاتا ہے، جو خامشی میں گفتگو کرتا ہے اور تنہائی میں ایک ایسا رفیق بن جاتا ہے جو کبھی بے وفائی نہیں کرتا۔ یہ جامد نظر آتی ہے، مگر حقیقتاً یہ ایک متحرک مدرس ہے، ایک متکلم فلسفی ہے، ایک سچے درویش کی مانند ہے جو ہر سوال کا جواب رکھتا ہے، بغیر کسی شکایت یا مطالبے کے۔
یہ بھی پڑھئے:آئیے جانیں کہ وقف قانون ۲۰۲۵ء کیوں گوارا نہیں !
جو شخص تحقیق کا طالب ہو، جس کے اندر جستجو کی چنگاری سلگ رہی ہو، وہ کتابوں کے دیار میں سکون تلاش کرتا ہے۔ اس کے قدم اکثر کتب خانوں کی سمت اٹھتے ہیں، اور اس کا سفر کبھی کبھی محض اس لئے ہوتا ہے کہ کسی نایاب کتاب کی زیارت نصیب ہو، کسی علمی مخزن سے فیض حاصل کیا جا سکے۔ یہ محبت ایک روحانی تعلق بن جاتی ہے، ایک ایسی نسبت جو تنہائی میں بھی انسان کو مستغنی بنا دیتی ہے۔ یہ کتابیں ہی ہیں جو انسان کو ماضی کی تہذیبوں سے جوڑتی، حال کی الجھنوں کو سلجھاتی اور مستقبل کیلئے فکری اساس فراہم کرتی ہیں۔ وہ اقوام جنہوں نے کتاب سے رشتہ جوڑا، دنیا کی قیادت کی؛ اور وہ جو اس سے منقطع ہوئیں، تاریخ کے حاشئے پر چلی گئیں۔
مطالعہ ایک روحانی ریاضت ہے؛ ایک ایسی مشق جو ذہن کو وسعت، فکر کو پرواز اور دل کو لطافت عطا کرتی ہے۔ دنیا کے ہر فکری رہنما، ہر مصلح اور ہر موجد کی زندگی میں مطالعہ ایک مستقل عبادت کی طرح شامل رہا ہے۔ یہی مطالعہ انسان کی داخلی کائنات کو روشن کرتا ہے اور اس کے وجدان میں نئے زاویے پیدا کرتا ہے۔ آج بھی، جب دُنیا ڈیجیٹل تشہیر اور سوشل میڈیا کی عارضی دلچسپیوں میں الجھ کر گہرائی سے محروم ہو چکی ہے، کتاب ہی وہ واحد شے ہے جو فکری نکھار، تہذیبی جاذبیت اور معنوی گیرائی کا مستند ذریعہ ہے۔ کتابیں سطحیت کے خلاف ایک بغاوت ہے؛ وہ انسان کو اس کی اصل پہچان دلاتی ہیں، اسے سوچنے، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کا سلیقہ عطا کرتی ہیں۔ کتاب سے محبت دراصل شعور سے محبت ہے، یہ علم سے وابستگی ہے، تہذیب سے نسبت ہے اور تمدن سے عہدِ وفا ہے۔ کتابیں صرف الفاظ کی ترتیب نہیں، یہ فکر کی تجسیم، احساس کی تجلی اور معرفت کا آئینہ ہیں۔ جو شخص ان سے دوستی رکھتا ہے، گویا وہ اپنے آپ سے اور اپنی حقیقت سے جڑتا ہے۔ کتابیں سکھاتی ہیں کہ خاموشی میں بھی روشنی ہو سکتی ہے، اور تنہائی میں بھی ایک انجمن آباد کی جا سکتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ علم کبھی مر نہیں سکتا، بشرطیکہ اس کا قاری زندہ ہو۔ n