Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہر قیمت پر اُصولوں کی پاسداری نبی کریمؐ کے زریں اوصاف کا اہم حصہ تھی!

Updated: April 25, 2025, 4:52 PM IST | Maulana Amin Ahsan Islahi | Mumbai

آپؐ جب دُنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔

Just as his blessed life is a model and example for us as a worldly person and a teacher of morality, so too is it for us as a political expert and a perfect planner. Photo: INN
آپؐ کی حیات ِ مبارکہ جس طرح بحیثیت ایک مزکی ٔ نفوس اور ایک معلّمِ اخلاق کے ہمارے لیے اُسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح بحیثیت سیاست کے ماہر اور ایک مدّبرِ کامل کے بھی ہے۔ تصویر: آئی این این

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے لیے جو دین بھیجا، وہ جس طرح ہماری انفرادی زندگی کا دین ہے، اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا بھی دین ہے۔ جس طرح وہ عبادت کے طریقے بتاتا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے آئین بھی سکھاتا ہے، اور جتنا تعلق اس کا مسجد سے ہے، اتنا ہی تعلق اس کا حکومت سے بھی ہے۔ 
اس دین کو ـ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بتایا اور سکھایا بھی، اور ایک وسیع ملک کے اندر اس کو عملاً جاری و نافذ بھی کر دیا۔ اس وجہ سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ جس طرح بحیثیت ایک مزکی ٔ نفوس اور ایک معلّمِ اخلاق کے ہمارے لیے اُسوہ اور نمونہ ہے، اسی طرح حیثیت سیاست کے ماہر اور ایک مدّبرِ کامل کے بھی ہے۔ 
نئی شیرازہ بندی
اس امرِواقعی سے آپ میں سے ہرشخص واقف ہے کہ آپؐ کی بعثت سے پہلے عرب قوم سیاسی اعتبار سے ایک نہایت پست حال قوم تھی۔ مشہور مؤرخ علّامہ ابن خلدون نے تو ان کو ان کے مزاج کے اعتبار سے بھی ایک بالکل غیرسیاسی قوم قرار دیا ہے۔ ممکن ہے ہم میں سے بعض لوگوں کو اس رائے سے پورا پورا اتفاق نہ ہو، تاہم اس حقیقت سے تو کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا کہ اہلِ عرب اسلام سے پہلے اپنی پوری تاریخ میں کبھی وحدت اور مرکزیت سے آشنا نہ ہوئے، بلکہ ہمیشہ ان پر نراج اور انارکی کا تسلّط رہا۔ پوری قوم جنگ جُو اور باہم نبردآزما قبائل کا ایک مجموعہ تھی، جس کی ساری قوت و صلاحیت خانہ جنگیوں اور آپس کی لُوٹ مار میں برباد ہوتی تھی۔ اتحاد، تنظیم، شعور، قومیت اور حکم و اطاعت وغیرہ جیسی چیزیں، جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں، ان کے اندر یکسر مفقود تھیں۔ 
ایک خاص بدویانہ حالت پر صدیوں تک زندگی گزارتے گزارتے ان کا مزاج نراج پسندی کیلئے اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ ان کے اندر وحدت و مرکزیت پیدا کرنا ایک امرِمحال بن چکا تھا۔ خود قرآن نے ان کو قَوْمًا لُّدًّا (مریم:۹۷) کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، جس کے معنی جھگڑالو قوم کے ہیں، اور ان کی وحدت و تنظیم کے بارے میں فرمایا کہ: ’’اور اگر تم زمین میں جو کچھ ہے، سب خرچ کرڈالتے ہو تو بھی ان کے دلوں کو باہم نہ جوڑ سکتے۔ ‘‘ (الانفال:۶۳) لیکن، نبی کریم ﷺ نے ۲۳؍ برس کی قلیل مدت میں اپنی تعلیم و تبلیغ سے اس قوم کے مختلف عناصر کو اس طرح جوڑ دیا کہ یہ پوری قوم ایک بنیانِ مرصوص بن گئی۔ یہ صرف متحدو منظم ہی نہیں ہوگئی، بلکہ اس کے اندر سے صدیوں کے پرورش پائے ہوئے اسباب نزاع و اختلاف بھی ایک ایک کر کے دُور ہوگئے۔ یہ صرف اپنے ظاہرہی میں متحد اور مربوط نہیں ہوگئی بلکہ اپنے باطنی عقائد و نظریات میں بھی بالکل ہم آہنگ اور ہم رنگ ہوگئی۔ یہ صرف خود ہی منظم نہیں ہوگئی بلکہ اس نے پوری انسانیت کو بھی اتحاد و تنظیم کا پیغام دیا۔ اور اس کے اندر حکم و اطاعت دونوں چیزوں کی ایسی اعلیٰ صلاحیتیں اُبھر آئیں کہ صرف استعارے کی زبان میں نہیں بلکہ واقعات کی زبان میں یہ قوم شتربانی کے مقام سے جہاں بانی کے مقام پر پہنچ گئی اور اس نے بلااستثنا دُنیا کی ساری قوموں کو سیاست اور جہاں بانی کا درس دیا۔ 
اصلاحِ معاشرہ کی بنیاد
اس تنظیم وتالیف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک بالکل اصولی اور انسانی تنظیم تھی۔ اس کے پیدا کرنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو قومی، نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصبات سے کوئی فائدہ اُٹھایا، نہ قومی حوصلوں کی انگیخت سے کوئی کام لیا، نہ دُنیوی مفادات کا کوئی لالچ دلایا، نہ کسی دشمن کا ہوا ّ کھڑا کرکے لوگوں کو ڈرایا۔ دنیا میں جتنے بھی چھوٹے بڑے مدبّر اورسیاست دان گزرے ہیں، انہوں نے ہمیشہ اپنے سیاسی منصوبوں کی تکمیل میں انہی محرکات سے کام لیا ہے۔ اگر آپؐ بھی ان چیزوں سے فائدہ اُٹھاتے، تو یہ بات آپؐ کی قوم کے مزاج کے بالکل مطابق ہوتی۔ لیکن آپؐ نے نہ صرف یہ کہ ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا، بلکہ ان میں سے ہرچیز کو ایک فتنہ قرار دیا، اور ہرفتنے کی خود اپنے ہاتھوں سے بیخ کنی فرمائی۔ 
آپؐ نے اپنی قوم کو صرف خدا کی بندگی اور اطاعت، عالم گیر انسانی اخوت، ہمہ گیر عدل و انصاف، اعلائے کلمۃ اللہ اور خوفِ آخرت کے محرکات سے جگایا۔ یہ سارے محرکات نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ تھے۔ اس وجہ سے آپؐ کی مساعی سے دُنیا کی قوموں میں صرف ایک قوم کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ ایک بہترین اُمت ظہور میں آئی، جس کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے: ’’تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں (کی راہ نمائی) کے لئے مبعوث کیے گئے ہو، معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو۔ ‘‘ (آلِ عمران :۱۱۰) 
ہرقیمت پر اصولوں کی پاس داری
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اور حضوؐر کے تدبّر کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپؐ جن اصولوں کے داعی بن کر اُٹھے، اگرچہ وہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا: فرد، معاشرہ اور قوم کی ساری زندگی پر حاوی تھے، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ہرگوشہ ان کے احاطے میں آتا تھا۔ لیکن آپؐ نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کبھی کوئی لچک قبول نہیں کی، نہ دشمن کے مقابل میں، نہ دوست کے مقابل میں۔ آپؐ کا سخت سے سخت حالات سے سابقہ ہوا، ایسے سخت حالات سے کہ لوہا بھی ہوتا تو ان کے مقابل میں نرم پڑجاتا، لیکن آپؐ کی پوری زندگی گواہ ہے کہ آپؐ نے کسی سختی سے دب کر کسی اصول کے معاملے میں کوئی سمجھوتا گوارا نہیں کیا۔ 
اسی طرح آپؐ کے سامنے پیش کشیں بھی کی گئیں، اور آپؐ کو مختلف قسم کی دینی و دنیوی مصلحتیں بھی سمجھانے کی کوششیں کی گئیں مگر ان کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ آپؐ جب دُنیا سے تشریف لے گئے تو اس حال میں تشریف لے گئے کہ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی ہربات اپنی اپنی جگہ پر پتھر کی لکیر کی طرح ثابت و قائم تھی۔ دُنیا کے مدبّروں اورسیاست دانوں میں سے کسی ایسے مدبّر اور سیاست دان کی نشان دہی آپ نہیں کر سکتے، جواپنے دوچار اصولوں کو بھی دُنیا میں برپا کرنے میں اتنا مضبوط ثابت ہوسکا ہو، کہ اس کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے کسی اصول کے معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی، یا کوئی ٹھوکر نہیں کھائی۔ لیکن آپؐ نے ایک پورا نظامِ زندگی کھڑا کر دیا، جو اپنی خصوصیات کے لحاظ سے زمانے کے مذاق اوررجحان سے اتنا بے جوڑ تھا کہ وقت کے مدبرین اور سیاست کے ماہرین اس انوکھے نظام کے پیش کرنے کے سبب سے آپؐ کو نعوذباللہ دیوانہ کہتے تھے، لیکن حضوؐ ر نے اس نظامِ زندگی کو عملاً دُنیا میں برپا کرکے ثابت کردیا کہ جو لوگ آپؐ کو دیوانہ سمجھتے تھے، وہ خود دیوانے تھے۔ 
صرف یہی نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذاتی مفاد یا مصلحت کی خاطر اپنے کسی اصول میں کوئی ترمیم نہیں فرمائی، بلکہ اپنے پیش کردہ اصولوں کیلئے بھی اپنے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ اصولوں کیلئے جان اور مال اور دوسری تمام محبوبات کی قربانی دی گئی۔ ہر طرح کے خطرات برداشت کئے گئے، اور ہر طرح کے نقصانات گوارا کیے گئے، لیکن اصولوں کی ہرحال میں حفاظت کی گئی۔ اگر کوئی بات صرف کسی خاص مدت تک کیلئے تھی، تو اس کا معاملہ اور تھا۔ وہ اپنی مدت پوری کر چکنے کے بعد ختم ہوگئی یا اس کی جگہ اس سے بہتر کسی دوسری چیز نے لے لی۔ لیکن باقی رہنے والی چیزیں ہرحال اور ہر قیمت پر باقی رکھی گئیں۔ آپؐ کو اپنی پوری زندگی میں یہ کہنے کی نوبت کبھی نہیں آئی کہ میں نے دعوت تو دی تھی فلاں اصول کی، لیکن اب حکمت ِعملی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ پر فلاں (دوسری) بات بالکل اس کے خلاف اختیار کرلی جائے۔ 
اصولی سیاست
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست اس اعتبار سے بھی دُنیا کے لئے ایک نمونہ اور مثال ہے کہ آپؐ نے سیاست کو عبادت کی طرح ہرقسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا۔ آپ جانتے ہیں کہ سیاست میں وہ بہت سی چیزیں مباح بلکہ بعض حالات میں مستحسن سمجھی جاتی ہیں، جو شخصی زندگی کے کردار میں مکروہ اور حرام قرار دی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی کسی ذاتی غرض کیلئے جھوٹ بولے، چال بازی کرے، عہدشکنی کرے، فریب دے یا لوگوں کے حقوق غصب کرے، تو اگرچہ اس زمانے میں اقدار اور پیمانے بہت کچھ بدل چکے ہیں، تاہم اخلاق بھی ان چیزوں کو معیوب ٹھہراتا ہے اور قانون بھی جرم قرار دیتا ہے۔ 
 لیکن اگر ایک سیاست داں اور ایک مدبّر یہی سارے کام اپنی سیاسی پارٹی یا اپنی قوم یا اپنے ملک کیلئے کرے، تو یہ اس کے فضائل و کمالات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی میں بھی اس کے اس طرح کے کارناموں پر اس کی تعریفیں ہوتی ہیں اور مرنے کے بعد بھی انھی کمالات کی بناپر وہ اپنی قوم کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ سیاست کیلئے یہی اوصاف و کمالات عرب جاہلیت میں بھی ضروری سمجھے جاتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو لوگ ان باتوں میں شاطر ہوتے تھے وہ قیادت کے مقام پر آتے تھے۔ لیکن، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیاسی زندگی سے دُنیا کو یہ درس دیا کہ ایمان داری اور سچائی جس طرح انفرادی زندگی کی بنیادی اخلاقیات میں سے ہے، اسی طرح اجتماعی اور سیاسی زندگی کے لوازم میں سے بھی ہے۔ بلکہ آپؐ نے ایک عام شخص کے جھوٹ کے مقابلے میں ایک صاحب ِ اقتدار اور ایک بادشاہ کے جھوٹ کو جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، کہیں زیادہ سنگین قرار دیا ہے۔ آپؐ کی پوری سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اس میں وہ تمام مراحل آپؐ کو پیش آئے ہیں، جن کے پیش آنے کی ایک سیاسی زندگی میں توقع کی جاسکتی ہے۔ 
آپؐ نے ایک طویل عرصہ نہایت مظلومیت کی حالت میں گزارا اور کم و بیش اتنا ہی عرصہ آپؐ نے اقتدار اور سلطنت کا گزارا۔ اس دوران میں آپؐ کو حریفوں اور حلیفوں دونوں سے مختلف قسم کے سیاسی اور تجارتی معاہدے اور دشمنوں سے متعدد جنگیں کرنی پڑیں، عہدشکنی کرنے والوں کے خلاف جوابی اقدامات کرنے پڑے، قبائل کے وفود سے معاملے کرنے پڑے، آس پاس کی حکومتوں کے وفود سے سیاسی گفتگوئیں کرنی پڑیں، سیاسی گفتگوئوں کے لئے اپنے وفود ان کے پاس بھیجنے پڑے، اور بعض بیرونی طاقتوں کے خلاف فوجی اقدامات ناگزیر ہوئے۔ یہ سارے کام آپؐ نے انجام دیے، لیکن دوست اور دشمن، ہرشخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ آپؐ نے کبھی کوئی وعدہ جھوٹا نہیں کیا، اپنی کسی بات کی غلط تاویل کرنے کی کوشش نہیں فرمائی، کوئی بات کہہ چکنے کے بعد اس سے انکار نہیں کیا، اور کسی معاہدہ کی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔ آپؐ نے حلیفوں کا نازک سے نازک حالات میں بھی ساتھ دیا اور دشمنوں کے ساتھ بدتر سے بدتر حالات میں بھی انصاف کیا۔ یہ آپؐ ہی کا طرہ ٔ امتیاز تھا۔ 
 عالمی مدبّرین اور اہلِ سیاست کو اس کسوٹی پر جانچیں تو آپؐ کے سوا کسی کو بھی آپ اس کسوٹی پر کھرا نہ پائینگے۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سیاست میں عبادت کی سی دیانت اور سچائی قائم رکھنے کے باوجود حضوؐر کو اپنی سیاست میں کبھی کسی ناکامی کا تجربہ نہیں کرنا پڑا۔اب آپ اس چیز کو چاہے تدبّر سے تعبیر کریں یا حکمت ِ نبوت! 
(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK