• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسوۂ حسنہ ایک جامع تعبیر ہے، آپؐ کے اخلاق، معاملات اور معاشرت سبھی شامل ہیں

Updated: July 05, 2024, 3:24 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

اسوۂ حسنہ پر مشتمل نئے سلسلے میں آج دوسری قسط میں آپؐ کے خلق عظیم، مکارمِ اخلاق کی تعریف اور آپؐ کے مکارم اخلاق ملاحظہ کریں۔

A view of an entrance gate of the Prophet`s Mosque from where pilgrims are leaving. Photo: INN
مسجد نبویؐ کے ایک داخلی دروازے کا منظر جہاں سے زائرین نکل رہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

 جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر بھی لکھنے والوں نے خوب لکھا ہے اور آئندہ بھی لکھیں گے، اس کے باوجود سیرت طیبہ اور اسوۂ حسنہ پر لکھتے رہنے کی ضرورت قیامت تک باقی رہے گی۔ 
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہر شخص کو نہ اپنا آئیڈیل بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہر شخص کے طور طریقے اپنائے جاسکتے ہیں، در اصل قابل تقلید صرف وہ شخصیت ہوتی ہے جس کے اندر پانچ چیزیں پائی جاتی ہوں :
(۱) اس کی تاریخی حیثیت معروف ومسلّم ہو، کسی مجہول اور غیر معروف شخص کو اپنا مقتدا نہیں بنایا جاسکتا۔ 
(۲) اس کی شخصیت کے متعلق جو معلومات ہم تک پہنچی ہوں ان کے ذرائع مستند اور معتبر ہوں۔ 
(۳) اس کی شخصیت سب کیلئے قابل تقلید ہو، وہ کسی ذات، کسی خاندان اور کسی قبیلے تک محدود نہ ہو۔ نہ ہی وہ کسی خاص رنگ، نسل اور خطے کی نمائندگی کرتا ہو، بلکہ اس کی شخصیت آفاقی ہو۔ 
(۴) اس کی تعلیمات مکمل ہوں، اس نے زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی رہ نمائی کی ہو۔ 
(۵) اس کی تعلیمات محض فکر وخیال تک محدود نہ ہوں، بلکہ اس نے ان پر خود بھی عمل کرکے دکھایا ہو۔ 
یہ پانچ چیزیں اگر کسی شخصیت پر صادق آتی ہیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی شخصیت ہے۔ آپؐ کا ہر قول اور ہر عمل ہم تک معتبر اور صحیح ذرائع سے پہنچا ہے، آپؐ کی شخصیت ہر زمانے میں ہر حیثیت سے مسلّم رہی ہے، یہاں تک کہ دشمنوں نے بھی آپؐ کی شخصیت کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ آپؐ کسی ایک خطے کے نبی نہیں تھے، نہ کسی خاص قبیلے، کسی مخصوص ملک کے نمائندے تھے، آپؐ کی شخصیت پوری دنیا کے لئے تھی، اور رہتی دنیا تک کے لئے ہے۔ آپؐ کی تعلیمات ہر اعتبار سے مکمل ہیں، کوئی بڑی سے بڑی سی بات اور کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی ان تعلیمات کے دائرہ سے باہر نہیں رہی۔ آپؐ نے اپنی تعلیمات پر پہلے خود عمل کرکے دکھایا، بعد میں لوگوں سے ان پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا۔ 
 رسول اللہ ﷺ کا خلق عظیم
اسوۂ حسنہ ایک جامع تعبیر ہے، اس کے دائرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات بھی آتے ہیں، آپ ؐ کی معاشرت بھی آتی ہے، اور آپؐ کے اخلاق حسنہ بھی آتے ہیں۔ خود اخلاق بھی نہایت جامع اور مکمل تعبیر ہے۔ قرآن کریم نے آپؐ کے اسوۂ حسنہ کے تمام پہلوؤں کو نمایاں کرنے کے لئے یہی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔ مکّہ کے مشرکین دعوت توحید کے لئے آپؐ کی ان تھک جدوجہد کا مذاق اڑاتے ہوئے آپؐ کو (نعوذباللہ) دیوانہ اور مجنون کہا کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے پہلے تو قسم کھا کر مشرکین کے دعوے کی تردید کی اور پھر آپ ؐ سے فرمایا کہ آپ اپنے رب کی نعمت اور فضل کی وجہ سے ہرگز مجنوں نہیں ہیں، پھر فرمایا کہ آپؐ تو خلقِ عظیم پر ہیں۔ قرآن مجید میں آپؐ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا: ’’قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، آپ اپنے رب کے فضل سے (ہرگز) دیوانے نہیں ہیں، اور بے شک آپ کے لئے ایسا اَجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا، اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔ ‘‘ (سورہ القلم: ۱؍تا۴) 

یہ بھی پڑھئے: فتاوے: مشترکہ ھبہ، ایصال ثواب، وضو خانے کی ٹنکی میں گلہری کا گرنا

حضرت علیؓ نے خلقِ عظیم کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ خلقِ عظیم سے مراد وہ آداب ہیں جن کی تعلیم قرآن دیتا ہے۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے ارشاد گرامی کا مفہوم بھی یہی ہے، حضرت سعد بن ہشامؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ کی خدمت میں عرض کیا: ام المومنینؓ! مجھے، رسولؐ اللہ کے اخلاق کے بارے میں بتلائیے، حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بیٹے! کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، پڑھتاہوں ! یہ سن کر آپؓ نے فرمایا: رسولؐ اللہ کے اخلاق وہی ہیں جو قرآن میں ہیں، یعنی قرآن ہی آپؐ کا خُلق ہے، قرآن میں جو اخلاق بتلائے گئے ہیں اور جن کی تعلیم دی گئی ہے ان سب کا ہوبہو اور من و عن عملی نمونہ آپؐ کی شخصیت ہے۔ (صحیح مسلم:۱/۵۱۲) 
ایک مرتبہ آپؐ نے اپنی بعثت کا مقصد ان الفاظ میں بیان فرمایا: إنما بعثت لأتمم مکارم الاخلاق یعنی مَیں اس لئے بھیجا گیا ہوں تاکہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔ ‘‘ (مسند البزار: ۱۵/۳۶۴، رقم الحدیث: ۸۹۴۹)۔ واضح رہے کہ مکارم کا معنی ہےخوبی، حسن، محاسن، اچھے اوصاف، قابل تعریف کام وغیرہ۔ یہ عربی لفظ صیغہ جمع ہے۔ اس کا واحد ہے مکرمت۔ 
مکارمِ اخلاق کی تفصیل
اچھے اخلاق، یا مکارم اخلاق کون سے ہیں، ہر ذی شعور یہ بات جانتا ہے کہ اخلاق اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، مثال کے طور پر جھوٹ بولنا بری عادت ہے اس کے مقابلے میں سچ بولنا بہترین خصلت ہے، اسی طرح وعدہ خلافی کو برا کہا جاتا ہے اور ایفائے عہد کی تعریف کی جاتی ہے، چنانچہ جن عادتوں کو لوگ برا سمجھیں، جن سے لوگوں کو تکلیف پہنچے، جن عادتوں سے معاشرہ میں برائی پھیلے وہ سب برے اخلاق ہیں، اور ان کے مقابلے کے تمام اوصاف اچھے اخلاق ہیں، انہی کو قرآن کریم نے خلق عظیم کہا ہے اور رسولؐ اللہ نے ان کو مکارم اخلاق کا عنوان دیا ہے، گویا حلم، بردباری، عفو درگزر، رحم وکرم، ایفائے عہد، امانت، دیانت، حسن معاملت، سچائی، صبروقناعت، توکل، خوش روئی، نرم گفتاری، شفقت، محبت، غم خواری، ملنساری، سادگی، تواضع و انکساری وغیرہ یہ سب مکارم اخلاق کے دائرہ میں آتے ہیں۔ آپؐ کی ذات گرامی ان تمام اوصاف بلکہ ان کے علاوہ بھی جتنے اوصاف ہوسکتے ہیں ان سب کا جامع تھی، قرآن کریم نے ان میں سے بعض اوصاف پر روشنی بھی ڈالی ہے، مثلاً ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر (اے پیغمبر!) آپ نے اِن لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ آپ کے آس پاس سے ہٹ کر منتشر یا تتر بتر ہوجاتے۔ ‘‘ (آل عمران: ۱۵۹)
حضرت انسؓ نے اپنا پورا بچپن رسولؐ اللہ کے گھر میں گزارا، وہ فرماتے ہیں کہ میں دس برس تک آپؐ کی خدمت میں رہا، اس پوری مدت میں جو کام میں نے کیا اس پر آپؐ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا، اور اگر کوئی کام نہیں کیا تو اس پر آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔ (صحیح البخاری: ۸/۱۴، رقم الحدیث: ۶۰۳۸، صحیح مسلم: ۴/۱۸۰۴، رقم الحدیث: ۲۳۰۹) ۔ یہ تھا آپؐ کی نرم دلی اور شفقت۔ 
 حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے کبھی کسی کو نہیں مارا، نہ کسی خادم کو، نہ کسی عورت کو اگر کسی سے کوئی خطا سرزد بھی ہوئی تو اس کا انتقام نہیں لیا، اِلّا یہ کہ اس سے کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی ہوئی ہو اور شرعاً اس کو سزا دینا ضروری ہو۔ (صحیح مسلم:۴/۱۸۱۴، رقم الحدیث: ۲۳۲۸) 
آپؐ کے مکارمِ اخلاق
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ کا ذکر جمیل قرآن کریم کی متعدد آیات اور اس کے ساتھ ہی ساتھ لاتعداد روایات میں بھی موجود ہے۔ ایک حدیث قدسی بھی ہے جس میں آپ ؐ کے متعدد اوصاف حسنہ کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ 
صحیح بخاری میں حضرت عطاء رضی اللہ عنہ سے ایسی حدیث مروی ہے جو حضورؐاکرم کے اکثر اخلاق کریمہ کے لئے جامع ہے اور ان میں سے کچھ صفات عالیہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہیں :
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! بے شک ہم نے آپ کو حق پر گواہ بنا کر بھیجا، فرمانبرداروں کو بشارت دینے والا اور گمراہوں کو عذاب سے ڈرانے والا اور امتیوں کے لئے پناہ دینے والا بنایا ہے۔ ‘‘ (سورہ الاحزاب:۴۵)۔ أنت عبدی ورسولی ’’آپؐ میرے خاص الخاص بندے اور رسول ہیں۔ ‘ سمیتک المتوکل۔ ’’میں نے آپ ؐ کانام متوکل رکھ دیا ‘‘کیونکہ ہر معاملے میں آپؐ مجھ پر توکل کرتے ہیں۔ لیس بفظ ولا غلیظ۔ ’’نہ آپؐ درشت خو ہیں اور نہ سخت دل۔ ‘‘ ولا صخاب فی الأسواق۔ ’’نہ بازاروں میں شور وشغب کرنے والے ہیں۔ ‘‘ 
 ا سکے علاوہ بھی کئی محاسن بیان ہوئے جنہیں ذیل میں مفہوم کے ساتھ درج کیا جاتا ہے۔ 
 ولا یدفع بالسیئۃ السیئۃ۔ ’’برائی کا بدلہ برائی سے کبھی نہیں دیتے۔ ‘‘
 ولکن یعفو ویغفر۔ ’’بلکہ معاف فرماتے اور درگزرکرتے ہیں۔ ‘‘ گویا آپ ؐ حکمِ قرآنی : ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ۔ ’’برائی کا بدلہ بہت عمدہ طریقہ پر دیا کرو ‘‘ پرعمل پیرا ہیں۔ 
 ولا یقبضہ اللّٰہ حتی یقیم بہ الملۃ العوجاء، بأن یقولوا: لا إلہ إلا اللہ۔ ’’اللہ آپؐ کو اس وقت تک وفات نہیں دے گا جب تک گمراہ قوم کو آپؐ کے ذریعے سیدھے راستے پر نہ آجائے، یعنی جب تک یہ لوگ اسلام نہ لے آئیں۔ أسددہ لکل جمیل۔ ’’ہر عمدہ خصلت سے آپؐ کی تسدید یعنی درستی کرتا رہونگا۔ ‘‘
 وأہب لہ کل خلق کریم۔ ’’ہراچھی خصلت آپؐ کو عطا کرتارہوں گا۔ ‘‘
 وأجعل السکینۃ لباسہ والبر شعارہ۔ ’’میں اطمینان کو آپ ؐ کا لباس اور شعار (بدن سے چمٹے ہوئے کپڑوں کی طرح) بنا دوں گا۔ ‘‘ والتقوی ضمیرہ۔ ’’پرہیزگاری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ضمیر یعنی دل بنادوں گا۔ ‘‘ 
 والحکمۃ معقولہ۔ ’’حکمت کو آپ ؐ کی سوچی سمجھی بات بنادوں گا۔ ‘‘ 
 والصدق والوفاء طبیعتہ۔ ’’سچائی اور وفاداری کو آپ ؐ کی طبیعت بنادوں گا۔ ‘‘
 والعفو والمعروف خلقہ۔ ’’معافی اور نیکی کو آپؐ کی عادت بنادوں گا۔ ‘‘ 
 والعدل سیرتہ والحق شریعتہ والہدی إمامہ والإسلام ملتہ۔ ’’انصاف کو آپؐ کی سیرت، حق کو آپؐ کی شریعت، ہدایت کو آپؐ کا امام اور دین اسلام کو آپؐ کی ملت کا درجہ دوں گا۔ ‘‘أحمد اسمہ۔ ’’آپؐ کا نام نامی (لقب) احمد ہے۔ ‘‘ أہدی بہ بعد الضلالۃ۔ ’’آپ ؐ ہی کے ذریعے تو میں لوگوں کو گمراہی کے بعد سیدھاراستہ دکھاؤں گا۔ ‘‘
 وأعلم بہ بعد الجہالۃ۔ ’’جہالت ِ تامہ کے بعد میں آپؐ ہی کے ذریعے علم وعرفان لوگوں کو عطا کروں گا۔ ‘‘
 وأرفع بہ بعد الخمالۃ۔ ’’آپؐ ہی کے ذریعہ میں اپنی مخلوق کو پستی سے نکال کر بامِ عروج تک پہنچاؤں گا۔ ‘‘
 وأسمی بہ بعد النکرۃ۔ ’’آپ ؐ کی بدولت اپنی مخلوق کو جاہل وناشناس ِحق ہونے کے بعد بلندی عطا کروں گا۔ ‘‘
 وأغنی بہ بعد العلۃ۔ ’’لوگوں کے فقر وفاقہ میں مبتلا ہوجانے کے بعد میں آپؐ کے ذریعہ ان کی حالت کو غنا (یعنی فراغت) میں تبدیل کردوں گا۔ ‘‘
 وأؤلف بہ بین قلوب مختلفۃ وأہواء متشتتۃ وأمم متفرقۃ۔ ’’اختلاف رکھنے والے دلوں، پراگندہ خواہشات اور متفرق قوموں میں میں آپؐ ہی کے ذریعے الفت پیدا کروں گا۔ ‘‘
 واجعل أمتہ خیر أمۃ أخرجت للناس۔ ’’میں آپؐ کی امت کو بہترین امت قراردوں گا جو انسانوں کی ہدایت کیلئے ظہور میں لائی گئی ہو۔ ‘‘ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔ (اسوۂ رسول اکرمؐ: ۴۸-۵۱)۔ اس موضوع پر آئندہ مضامین میں بھی روشنی ڈالی جائیگی، ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ پیغام لوگوں تک پہنچایا جائے، نئی نسل کو آپؐ کے مکارم ِ اخلاق کے بارے میں بتایا جائے اور اُن سے عمل کی اُمید کی جائے۔ (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK