• Thu, 16 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہم اسلام کی رسّی سے بندھے ہوئے ہیں اور ہمیں اس پر کوئی ندامت نہیں ہے

Updated: March 01, 2024, 4:23 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

سیرت النبیؐ کی اِس خصوصی سیریز میں بارگاہِ نبویؐ میں مختلف وفود کی آمد کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں بنی حارث بن کعب اور ہمدان کے قبیلے کے وفد کی آپؐ کی خدمت میں حاضری کی تفصیل ملاحظہ کیجئے۔

The lucky ones who reach the Prophet`s Mosque do not understand what holy place they have reached! Photo: INN
مسجد نبویؐ میں پہنچ جانے والے خوش نصیب سمجھ نہیں پاتے کہ وہ کس مقدس مقام تک پہنچ گئے ہیں! تصویر : آئی این این

بنی حارث بن کعب کا وفد
ربیع الاول یا جمادی الاول سن دس ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں چند حضرات صحابہؓ کو نجران کے قبیلۂ بنو الحارث بن کعب کی طرف اسلام کی دعوت دینے کیلئے روانہ کیا۔ آپؐ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ وہ تین دن تک انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہیں، اگر وہ تمہاری دعوت ٹھکرادیں تب ان سے قتال کریں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے نجران پہنچ کر ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، اور اپنے سواروں کو ہر طرف دوڑا دیا، یہ حضرات قبیلے کے ایک ایک شخص سے ملتے اور اس سے کہتے کہ اسلام لے آؤ، سلامت رہوگے، لوگوں نے اسلام لانے میں پس وپیش سے کام نہیں لیا، تقریباً پورا قبیلہ ہی مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ اس سے فارغ ہوکر حضرت خالد بن ولیدؓ نے نجران کے اطراف میں اپنے وفود بھیجے، یہ لوگ مختلف قبیلوں میں جاتے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت پیش کرتے، اگرو ہ اسلام قبول کرلیتے تو انہیں قرآن سکھلاتے اور شریعت کے احکام بتلاتے، اور اگر اسلام قبول کرنے سے انکار کردیتے تو انہیں اختیار دیتے کہ وہ جزیہ ادا کریں یا جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔
نجران میں قیام کے دوران حضرت خالد بن ولیدؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں ایک مکتوب روانہ کیا، اس مکتوب میں انہوں نے عرض کیا: ’’یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے خالد بن ولید کی جانب سے، یارسولؐ اللہ! آپؐ پر اللہ کی سلامتی ورحمت نازل ہو، میں آپؐ کی جناب میں اللہ رب العزت کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اما بعد! یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے مجھے بنی حارث بن کعب کی طرف اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تھا اور مجھے یہ حکم فرمایا تھا کہ جب میں ان لوگوں کے پاس پہنچوں تو تین دن تک ان سے قتال نہ کروں بلکہ اس دوران ان کو اسلام کی طرف بلاؤں، اگر وہ اسلام لے آئیں تو میں ان کے پاس قیام کرکے انہیں اسلامی تعلیمات سے روشناس کراؤں، انہیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول کی سنت کے بارے میں بتلاؤں، اور اگر وہ اسلام نہ لائیں تو ان سے جنگ کروں، میں یہاں آیا، میں نے تین روز تک ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم دیا تھا، میں نے ان کے پاس اپنے سواروں کو اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اے بنی حارث! اسلام لے آؤ، سلامتی کے ساتھ زندگی گزاروگے، چنانچہ ان لوگوں نے اسلام قبول کرلیا ہے، میں ان کے درمیان موجود ہوں، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی بتلا رہا ہوں، اور ان کو اسلام کی تعلیمات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں سکھا رہا ہوں، اب میں آپؐ کے جواب گرامی کا منتظر ہوں، یا رسولؐ اللہ! آپؐ پر اللہ کی سلامتی اور اس کی رحمت نازل ہو۔‘‘
حضرت خالد بن ولیدؓ کے خط کے جواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مکتوب گرامی تحریر کرایا: ’’اللہ کے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خالد بن ولید کے نام۔ تم پر اللہ کی سلامتی ہو، میں اس ذات کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، امابعد! تمہارا قاصد تمہارا خط لے کر میرے پاس آیا، اس خط میں تم نے یہ اطلاع دی ہے کہ بنی حارث بن کعب مسلمان ہوگئے ہیں، ان کے ساتھ جنگ کی نوبت نہیں آئی، انہوں نے دعوت اسلام قبول کرلی ہے اور اس بات کی گواہی دی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں، تم انہیں (جنت کی) خوش خبری سناؤ اور (رب کے عذاب سے) ڈراؤ، تم خود بھی یہاں آجاؤ اور تمہارے ساتھ ان کا وفد بھی یہاں آئے، والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ملتے ہی حضرت خالد بن ولیدؓ نے نجران کو خیر باد کہا اور بنی حارث کے ایک وفد کو لے کر مدینہ طیبہ پہنچے، اس وفد میں بنی حارث کے قیس بن الحصین ذوالغصہ، یزید بن عبد المدان، یزید بن المجمل، عبداللہ بن قرار زیادی، شداد بن عبد اللہ القنائی اور عمرو بن عبد اللہ الضبابی تھے، مدینے پہنچنے کے بعد انہوں نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کا شرف حاصل کیا۔ وفد کے لوگوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ کون لوگ ہیں، ایسا لگتا ہے گویا یہ لوگ ہند سے تعلق رکھتے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ بنی حارث بن کعب کے افراد ہیں، ان حضرات نے سلام پیش کیا، اور کلمۂ شہادت پڑھا، جواب میں آپؐ نے بھی کلمۂ شہادت پڑھا، پھر فرمایا: تم وہ لوگ ہو جنہیں مقابلے کے لئے کہا جاتا ہے تو بڑھ چڑھ کر حملہ کرتے ہو، یہ سن کر وہ لوگ خاموش رہے، آپ نے دوبارہ بھی یہی بات فرمائی، ان لوگوں نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا، آپؐ نے چار مرتبہ یہی بات کہی، چوتھی مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ کہا تب یزید بن عبد المدان نے عرض کیا: جی ہاں یارسولؐ اللہ! ہم ایسے ہی ہیں، جب ہمیں حملہ کرنے کاحکم دیا جاتا ہے تو ہم آگے بڑھ کر حملہ کرتے ہیں۔ انہوں نے چار مرتبہ یہی بات کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے دریافت فرمایا: تم اپنے دشمنوں پر کس طرح غلبہ پاتے ہو، انہوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم اپنے دشمنوں پر اس طرح غلبہ پاتے ہیں کہ ہم سب مل کر رہتے ہیں، ہم کسی پر ظلم کی ابتدا نہیں کرتے۔ آپؐ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔

یہ بھی پڑھئے: شاہانِ حمیر نے اپنے قبول اسلام کا ایک مکتوب آپؐ کی خدمت میں بھیجا تھا

اس ملاقات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس بن حصین کو قبیلۂ بنی حارث کا امیر مقرر فرمایا۔ یہ وفد شوال کے آخر یا ذی قعدہ کے شروع میں اپنے وطن واپس چلا گیا۔ ابھی چار مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمالیا۔ وفد کی واپسی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن حزم کو ان کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں کتاب وسنت کی تعلیم دیں اور ان سے صدقات وصول کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک تحریر بھی عنایت فرمائی، اس میں کچھ باتیں وہ تھیں جو پہلے بھی گزر چکی ہیں کہ صدقہ وزکوٰۃ کے کیا احکام ہیں، اور کتنے مال میں کتنی زکوٰۃ وصول کی جائے گی، اور کچھ احکام نئے تھے۔ اس میں لکھا ہوا تھا کہ ابن حزم وہاں جاکر لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں اور اس کے مطالب سمجھائیں، قرآن کریم کو وہی لوگ چھوئیں جو پاک ہوں، لوگوں کو ان کے حقوق بتلائیں اور ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں، حق کے معاملے میں ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں، اور ظلم کے معاملے میں ان پر سختی کریں، لوگوں کو حج کے احکام، فرائض، سنتیں اور فرامین خداوندی سکھلائیں، حج اکبر حج ہے اور حج اصغر عمرہ ہے، لوگوں کو چھوٹے کپڑوں میں نماز پڑھنے سے منع کریں، غصے کے وقت لوگوں کو قبائل کی طرف یا گروہوں کی طرف بلانے سے روکیں، انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں، لوگوں کو حکم دیں کہ وہ اچھی طرح وضو کریں، چہروں کو دھوئیں، ہاتھوں کو کہنیوں سمیت اور پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوئیں اور سروں کا مسح کریں، لوگوں کو حکم دیں کہ نماز وقت پر پڑھیں، رکوع وسجود مکمل طور پر خضوع و خشوع سے ادا کریں، صبح کی نماز اندھیرے میں، ظہر کی نماز زوال کے بعد پڑھیں، عصر اس وقت پڑھیں جب سورج زمین کی طرف جارہا ہو، مغرب رات کے آنے پر پڑھیں، ستاروں کے ظاہر ہونے تک اُسے مؤخر نہ کریں، عشاء کی نماز رات کے ابتدائی حصے میں پڑھیں، جب جمعہ کی اذان ہوجائے تو اس کی طرف جلدی کریں اور نماز کیلئے جاتے وقت غسل کریں ‘‘۔ (دلائل البیہقی: ۵/۴۱۱، ۴۱۲، طبقات بن سعد: ۱/۳۳۹، ۳۴۰) 
قبیلۂ ہمدان کا وفد
ہمدان بھی یمن کا ایک بڑا قبیلہ تھا، اس قبیلے کو اسلام کی دعوت دینے کیلئے بھی اولاً حضرت خالد بن ولیدؓ کو بھیجا گیا تھا، آپ نے وہاں چھ ماہ قیام کیا، مگر کسی ایک نے بھی اسلام قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ایک خط دے کر بھیجا، اور ان سے کہا کہ وہ خالد بن ولیدؓ کو واپس بھیج دیں، حضرت علیؓ نے قبیلے کے تمام افراد کو جمع کیا اور انہیں آپ ﷺ کا مکتوب گرامی پڑھ کر سنایا، تمام لوگ اسی دن اور اسی وقت مشرف بہ اسلام ہوگئے، حضرت علیؓ نے آپ ﷺ کو اس کی اطلاع دی، آپؐ یہ خبرسن کر بے حد مسرور ہوئے اور فرمایا السلام علی ھمدان۔ (ہمدان والوں پر اللہ کی سلامتی نازل ہو)
اسلام قبول کرنے کے بعد قبیلۂ ہمدان کا ایک وفد مدینہ طیبہ پہنچا۔ اس وفد میں مالک بن نمط ابو ثور، مالک بن الفیع، ضمام بن مالک سلمانی اور عمیرہ بن مالک خارفی شامل تھے۔ یہ لوگ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب آپؐ تبوک سے واپس تشریف لائے تھے، ان لوگوں نے یمن کے بنے ہوئے منقش کپڑے پہن رکھے تھے، ان کے سروں پر عدن کے عمامے تھے، یہ لوگ مہری اور ارجیبی اونٹوں پر المیس کی لکڑی کے کجاوے پر سوار تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مالک بن نمط نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمدان کے نمائندے دیہات اور شہروں سے تیز رفتار اور کم عمر اونٹنیوں پر سوار ہوکر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، ہم اسلام کی رسّی سے بندھے ہوئے ہیں، اور ہمیں اس پر کوئی ندامت نہیں ہے، ہم لوگ خارف، یام اور شاکر کے علاقوں سے آئے ہیں، جہاں اونٹوں اور گھوڑوں کی کثرت ہے، ہم نے اللہ کے رسولؐ کی دعوت قبول کرلی ہے، اور معبودان باطلہ کو چھوڑ دیا ہے، ہمارا یہ عہد اس وقت تک نہ ٹوٹے گا جب تک سلع پہاڑ اپنی جگہ قائم رہیں گے اور چٹیل میدانوں میں گھوڑے دوڑتے پھر یں گے۔ 
رسولؐ اللہ نے انہیں ایک تحریر بھی عنایت فرمائی، جس میں کچھ ہدایات تھیں۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے مالک بن النمط کو ہمدان کے ان علاقوں کا امیر مقرر فرمایا۔ (اسد الغابہ: ۵/۵۱، ۲۵، الاصابہ فی تمییز الصحابہ: ۶/۳۶)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK