ہمارے لئے حق کی راہ صرف یہ ہے کہ آقائے نامدار محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری انفرادی واجتماعی زندگی کیلئے پیشوا، قائد اور اسوہ اور نمونہ تسلیم کریں ورنہ تمام زندگی خدا کے ہاں رائیگاں شمار ہوگی۔
EPAPER
Updated: November 08, 2024, 3:28 PM IST | Naeem Siddiqui | Mumbai
ہمارے لئے حق کی راہ صرف یہ ہے کہ آقائے نامدار محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری انفرادی واجتماعی زندگی کیلئے پیشوا، قائد اور اسوہ اور نمونہ تسلیم کریں ورنہ تمام زندگی خدا کے ہاں رائیگاں شمار ہوگی۔
حضور نبی پاک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کوئی قصہ کہانی نہیں ہے، وہ محض ایک فرد کی داستان بھی نہیں ہے، بلکہ وہ فی الحقیقت ایک ایسے عظیم اور پاکیزہ انقلاب کی کہانی ہے جس کی مثال تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ اس انقلاب کی روداد کا مرکزی کردار نبی اکرمؐ کی شخصیت ہے۔ باقی تمام کردار، خواہ وہ ابوبکرؓ و عمرؓ ہوں یا عثمانؓ و علیؓ، جعفرؓ طیار ہوں یا سیدالشہدا جنابِ حمزہؓ، وہ حضرت بلالؓ ہوں یا عمارؓ و یاسرؓ، اور اسی طرح دوسرے محاذ پر ابوجہل ہو یا ابولہب، عبداللہ بن اُبی ہو یا کعب بن اشرف، خواتین میں سے حضرت خدیجہؓ ہوں یا جنابِ فاطمہؓ، حضرت عائشہؓ ہوں یا جنابِ اُم المساکین اور ان کے مقابل میں زوجۂ ابولہب ہو یا ہندہ جگرخوار… یہ تمام مرکزی کردار کے یا تو محب اور معاون ہیں، یا مخالف۔ ان مختلف کرداروں کے تعاون اور کشمکش کے نتیجے میں تاریخ کا وہ سنہری باب لکھا گیا جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنحضوؐر کی سیرتِ پاک رچی بسی ہوئی ہے اور مہاجرین و انصار میں اسی کا انعکاس دکھائی دیتا ہے۔ حضوؐر کی سیرت کو اس کشمکش سے الگ کر کے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔
نعوذ باللہ، حضوؐر نہ تو تارک الدنیا راہب تھے اور نہ ایک محدود اور بے ضرر سا دھرم یا مَت سکھانے آئے تھے۔ آپؐ کے ذمّے محض پرستش کے طریقے بتانے اور چند اخلاقی نصیحتیں اور سفارشیں کرنے کی ذمہ داری نہیں تھی، بلکہ قرآن کی توضیحات کے مطابق آپؐ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ خداپرستانہ حکمت اور پاکیزہ اخلاق سے آراستہ کرکے آپؐ ایک ایسی جماعت کھڑی کریں جو آپ ؐ کی قیادت میں بھرپور جدوجہد کر کے دین ِ برحق کو ہر دوسرے نظریے اور فلسفے اور مذہب کے مقابلے میں پوری انسانی زندگی پر غالب کردے۔ (انفال:۳۹)
بات کو سمجھنے کے لئے دو تین مواقع پر رسولِؐ برحق کے فرمائے ہوئے کلمات پر ہم نگاہ ڈالتے ہیں۔ ان کلمات کی شہادت یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنے کام کے حوصلہ شکن ابتدائی دور میں پورا شعور تھا کہ کیا کرنے چلے ہیں۔ دعوت کا کام شروع کرنے کے جلد ہی بعد خاندانِ بنوہاشم کو کھانے پر جمع کیا اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’جو پیغام مَیں تم تک لایا ہوں اسے اگر تم قبول کرلو تو اس میں تمہاری دُنیا کی بہتری بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی۔ ‘‘ پھر ابتدائی دورِ کشمکش میں مخالفین سے آپؐ نے فرمایا کہ ’’بس یہ ایک کلمہ ہے، اسے اگر مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیرنگین کرلو گے اور سارا عجم تمہارے پیچھے چلے گا۔ ‘‘ پھر ایک موقع پر رسولِ بشیرونذیر کعبے کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، خباب ابن الارتؓ نے جو قریش کے تشدد کا نشانہ بن رہے تھے، عرض کیا: حضوؐر، ہمارے لئے خدا کی مدد کی دعا نہیں فرمائیں گے؟ حضوؐر نے جواب دیا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ ہو گزرے ہیں کہ گڑھے کھود کر ان کے دھڑ مٹی میں داب دیئے جاتے اور پھر ان کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دوٹکڑے کر دیا جاتا۔ تیز لوہے کی بڑی بڑی کنگھیوں سے بحالت ِ زندگی ان کے گوشت اور کھالوں کی کترنیں ہڈیوں سے نوچ لی جاتیں لیکن یہ چیزیں ان کو دین و ایمان سے نہ پھیر سکیں۔ پھر فرمایا کہ ’’خدا کی قسم! اس کام کو اللہ تعالیٰ ایسی تکمیل ِ منزل تک پہنچائے گا کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک تنہا سفر کرے گا، اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف لاحق نہیں ہوگا۔ ‘‘
محمدیؐ انقلاب کی اساس کلمہ طیبہ پر تھی، یعنی اس کائنات کا اور تمام نوعِ انسانی کا ایک ہی الٰہ ہے۔ (البقرہ:۱۶۳) اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ عبادت صرف اُس کی ہوگی، حکم اور قانون صرف اس کا چلے گا۔ حاجات اس سے مانگی جائیں گی، دعائیں اس سے کی جائیں گی، نذریں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی، اعمال کا حساب کتاب لینے والا اور جزا سزا دینے والا وہ ہے۔ زندگی، موت اور صحت اور رزق اور امن اور عزت، سب کچھ اس کی طرف سے ہے۔ زندگی میں اور کوئی اِلٰہ نہیں ہوگا۔
اس انقلابی کلمے کا دوسرا جز یہ بتاتا ہے کہ آپؐ کو خدا نے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ آپؐ کو وحی کے ذریعے ہدایت اور ضلالت، نیکی اور بدی، حلال اور حرام کا علم عطا کیا ہے۔ آپؐ خدا کی طرف سے قیامت تک تمام مسلمانوں کے پیشوا اور قائد، معلم اور مزکی ّ اور اسوہ اور نمونہ قرار دیئے گئے ہیں۔ اس انقلابی کلمے کے بیج سے نظامِ عدل و رحمت کا وہ شجرۂ طیبہ ظہور میں آیا جس کی شاخیں فضائوں میں پھیل گئیں اور جڑیں زمین میں اُتر گئیں۔ جس کی چھائوں دُور دُور تک پھیل گئی اور جس کے فکری، تہذیبی اور اخلاقی برگ و بار کا کچھ حصہ ہرقوم اور معاشرے تک پہنچا۔
محمدی انقلاب کے حیرت انگیز پہلوئوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس نے آپؐ کے پیغام کو قبول کیا اس کی ساری ہستی بدل گئی۔ اس کے ذہن کی ساخت، اس کے افکارو جذبات، اس کا ذوق اور دلچسپیاں، اس کی دوستیاں اور دُشمنیاں، اس کے اخلاقی معیارات سب کے سب بدل گئے۔ چور اور ڈاکو آئے اور دوسرے لوگوں کے اموال کے نگہبان بن گئے۔ سود کھانے والے آئے اور اپنی کمائیاں خدا کے دین اور بندوں کی خدمت میں لٹانے لگ گئے۔ کبِر کے مجسمے آئے اور عاجزی کا نمونہ بن گئے۔ خواہشوں کے غلام آئے اور پل بھر میں دنیا نے دیکھا کہ وہ اپنی خواہشوں کو روندتے ہوئے ایک اعلیٰ نصب العین کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ اُونٹوں کے چرواہے انسانوں کے شفیق گلّہ بان بن گئے۔ لونڈیوں اور غلاموں کے پسے ہوئے طبقے سے وہ شجاع اور غیور ہستیاں نمودار ہوئیں جن پر دشمنوں نے ظلم و ستم کے تمام حربے آزما ئے مگر ان کا ضمیر بدلنے اور ان کے ایمان کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوئے۔
محمدیؐ انقلاب کے ان رضاکار سپاہیوں میں ڈسپلن اور ضبط و نظم ایسا بے مثال تھا کہ حالت ِ نماز میں اُن کو تحویل ِ قبلہ کا حکم ملا تو اُنہوں نے فوراً اپنے رُخ بیت المقدس سے کعبے کی طرف پھیر لئے، اُن کیلئے شراب حرام کی گئی تواُنہوں نے منہ کے ساتھ لگے ہوئے پیالے تک الگ کرکے پھینک دیئے، ان کی خواتین نے جب رسولِ پاکؐ کی زبان سے حکمِ حجاب سنا تو فوراً اپنے سروں اور سینوں اور زینتوں کو ڈھانپ لیا، ان میں سے اگرکسی مرد یا عورت سے خدا ورسولؐ کے احکام کے خلاف کوئی جرم سرزد ہوگیا تو اپنے جرم کے اقراری بن کر خود پیش ہوئے اور اصرار کیا کہ ان پر سزا نافذ کر کے انہیں حضوؐر پاک کر دیں۔ اُن سے چندہ طلب کیا گیا تو کسی نے گھر کا سارا سامان لا کے مسجد میں ڈھیر کر دیا، کسی نے سامان سے لدے ہوئے اُونٹوں کی قطاریں کھڑی کر دیں، اور کسی (مزدور، محنت کش) نے دن بھر کی محنت کی کمائی ہوئی چند کھجوریں پیش کردیں۔
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا احسان تہذیب ِ انسانی پر یہ ہے کہ آپؐ نے انسانوں کے تمام رشتوں اور رابطوں کو محکم بنیادوں پر استوار کیا، ایک دوسرے کی باہمی ذمہ داریاں واضح کیں، سب کے حقوق و فرائض متعین کئے اور اپنے نمونے کے معاشرے میں والدین اور اولاد، بھائی بھائی، بہن بھائی، میاں بیوی، استاد اور شاگرد، امیر اور غریب، پڑوسی اور ہم سفر، حاکم اور رعیت کے ربط و تعلق کو احسن شکل دی۔
افراد کے اندر واقع ہونے والے اس انقلاب کے نتیجے میں عرب کے معاشرے میں جو انقلاب واقع ہوا، وہ حیرت انگیز ہے۔ حضوؐر نے اسلامی ریاست کی بنیاد جب مدینہ میں رکھی تو زیادہ سے زیادہ وہ علاقہ ۱۰۰؍ مربع میل ہوگا۔ آٹھ نو سال کے قلیل عرصے میں یہ ریاست پھیل کر ۱۰، ۱۲ ؍لاکھ مربع میل تک وسیع ہوگئی جس میں کوئی طبقاتی کشمکش نہ تھی، جس میں نسب کے فخر اور نسل کی عصبیت کا خاتمہ ہوگیا، جس میں امیر و غریب اور عالم اور اَن پڑھ بھائی بھائی بن گئے، جس میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے، جس میں لوگ ایک دوسرے پر ظلم کرنے والے، سرکاری مال اور فرائض میں خیانت کرنے والے اور رشوتیں سمیٹنے والے نہ تھے، جس میں ہر کوئی دوسرے کے کام آتا تھا اور اپنے بھائی کو سہارا دیتا تھا۔ یہ بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر کی مہم تھی۔
یہ پاک اور پیارا محمدیؐ انقلاب اس طرح نہیں آیا کہ لوگوں پر جبرو تشدد کیا جا رہا ہو۔ اس انقلاب کا پیغام قبول کرانے کے لئے کسی کوقتل نہیں کیا گیا، کسی کو جیل میں نہیں ڈالا گیا، کسی کی پیٹھ پر تازیانے نہیں برسائے گئے بلکہ اس انقلاب کی روح محبت ِ انسانیت تھی اور حضوؐر نے بڑی شفقت سے معلّمانہ انداز پر پہلے مکہ میں ۱۳ سال تک اور پھر مدینہ میں ۱۰ ؍ برس تک کام کیا۔
مکہ کے دور میں آپؐ نے گالیاں سن کر، طعن و طنز کا ہدف بن کر، مارکھا کر اور تین سال تک شعب ِابی طالب میں خاندان سمیت نظربند رہنے کے باوجود نرمی اور پیار سے دعوت دی۔ آپؐ کے رفیق تپتی ریت پر لٹائے گئے، ان کے سینوں پر پتھر رکھے گئے، ان کی پیٹھوں کے نیچے دہکتے انگارے ٹھنڈے ہوگئے، کسی کے گلے میں رسّی ڈال کر گلیوں میں گھسیٹا گیا، کسی کو تازیانے مارمار کر ادھ موا کر دیا گیا اور کسی کو عذاب دے دے کر جان ہی لے لی گئی۔
پھر مدینہ میں آکر یہودیوں کی شرارتوں اور منافقین کی غداریوں کا سامنا کیا۔ یہاں تک کہ بار بار آپؐ کے قتل کی سازشیں کی گئیں جن سے حضوؐر بال بال بچے، مگر یہودیوں اور منافقوں کی ایک بڑی تعداد پوری آزادی کے ساتھ موجود رہی اور شرانگیزی کرتی رہی۔
میدانِ جنگ میں حضوؐر اگر مسلم قوت کو اُتارنے پر مجبور ہوئے تو اس وجہ سے کہ مخالف جاہلی قوت کے علَم بردار خود بار بار چڑھ کر آئے۔ بدر اور احزاب کی تین بڑی بڑی جنگیں مدینے کے دروازے پر لڑی گئیں۔ صرف ایک آخری جنگ جس کے پہلے مرحلے پر مکہ اور دوسرے میں حنین و طائف مفتوح ہوئے، اس وجہ سے ناگزیر تھی کہ دشمن کی جنگی قوت اور کارروائیوں کے یہ مراکز تھے۔ اگر انہیں قائم رہنے دیا جاتا، تو جنگوں کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک چلتا۔ کمال یہ ہے کہ جنگوں میں نبی ِؐ امن و رحمت نے ایک طرف ایسی تدبیریں اختیار کیں کہ دشمنوں کے کم سے کم افراد کا جانی نقصان ہو، دوسرے عرصۂ پیکار کیلئے بھی اعلیٰ درجے کے ضابطے نافذ کرکے دکھائے کہ خدا پرستوں کے انداز کیا ہوتے ہیں۔ نو (۹) سال کی تمام جنگی کارروائیوں میں دشمن کے ۷۵۹؍ افراد فوت ہوئے اور مسلمانوں کا کل جانی نقصان ۲۵۹؍ ہے۔ کیا دُنیا کا، اور خصوصاً آج کی مہذب دنیا کا کوئی انقلاب اتنے کم جانی نقصان کے ساتھ اتنے بڑے تغیر کی مثال پیش کرسکتا ہے؟
پس مطالعہ ٔ سیرتِ نبویؐ سے ہمارا مقصود یہ ہونا چاہئے کہ ہم حضوؐر کے پیغام، حضوؐر کے ذکر و عبادت، حضوؐر کے اخلاق، حضوؐر کی تنظیم، حضوؐر کے کارنامے، حضوؐر کے طریق کار اور حضوؐر کی حکمت عملی کو سمجھ کر اپنے آپ کو اس امر کیلئے تیار کریں کہ پہلے ہمارے اپنے اندر محمدیؐ انقلاب کا آغاز ہو اور پھرہم نہ صرف اپنے ملک اور معاشرے کو، بلکہ پوری نوعِ انسانی کو محمدیؐ انقلاب کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ مند کریں۔ ہمارے لئے حق کی راہ صرف یہ ہے کہ حضوؐر کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے پیشوا، قائد اور اسوہ اور نمونہ تسلیم کریں ورنہ تمام زندگی خدا کے ہاں رائیگاں شمار ہوگی۔