اسلام ، سلامتی والا مذہب ہے ،قرآن کا پیغام واضح ہے: ’’جس نے ناحق کسی ایک جان کو قتل کیا تو اس نے معاشرے کے تمام لوگوں کو قتل کردیا‘‘ چنانچہ ایسے لوگوں کا اسلام یا مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں!
EPAPER
Updated: April 25, 2025, 3:24 PM IST | Riyaz Firdousi | Mumbai
اسلام ، سلامتی والا مذہب ہے ،قرآن کا پیغام واضح ہے: ’’جس نے ناحق کسی ایک جان کو قتل کیا تو اس نے معاشرے کے تمام لوگوں کو قتل کردیا‘‘ چنانچہ ایسے لوگوں کا اسلام یا مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں!
کشمیر کے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے انسانیت شرمندہ ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف کام کر رہے ہیں ؟ مسافروں کو گولی مار رہے ہیں ؟ ایک جوڑا جس کی نئی نئی شادی ہوئی ہے، جس عورت کے پاس شوہر کے علاوہ کوئی نہیں ہے، اس کے شوہر کو قتل کر کے اسے بیوہ کر دیا۔ کوئی اپنے پورے گھر کو اکیلے پالتا تھا، وہ سیاحوں کو بچانے گیا تو اسے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اب اس کے گھر کا کیا ہوگا؟جو بچے یتیم ہوگئے ہیں، وہ جب بڑے ہو کر اپنے والد کے بارے میں پوچھیں گے تو ماؤں کے پاس کیا جواب ہوگا؟
یہ ظالم اور قاتل، کشمیریوں کے بھی دوست نہیں ہیں، کیا وہ نہیں جانتے کہ ان کے اس سفاکانہ فعل سے کشمیریوں کی زندگی پر کتنے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے ؟ ان کے کاروبارِ زندگی اور معمولات ِ زندگی کا کیا حشر ہوگا؟
شریعت محمدی ﷺ کے ماننے والوں، اور ایمان لانے والوں کو بے گناہ انسانوں کے قتل سے کوئی مطلب اور سروکار ہی نہیں ہے، ایسے لوگ نہ مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان، یہ ظالم ہیں، ان کا ٹھکانہ اللہ کے یہاں جہنم ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق ایسے لوگوں کو صرف اور صرف سزائے موت ہی ملنی چاہئے۔ ظالموں کا اخروی عذاب تو اپنی جگہ، دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ظالموں کی گرفت فرماتا ہے، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا’’بے شک اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے اور جب اس کی پکڑ فرما لیتا ہے تو پھر اسے مہلت نہیں دیتا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:اور اسی طرح آپ کے رب کی پکڑ ہوا کرتی ہے جب وہ بستیوں کی اس حال میں گرفت فرماتا ہے کہ وہ ظالم (بن چکی) ہوتی ہیں۔ بیشک اس کی گرفت دردناک (اور) سخت ہوتی ہے۔ ‘‘(سورہ ہود:۱۰۲)(بخاری، کتاب التفسیر، باب وکذلک اخذ ربک۔ الخ، الحدیث:۲۶۸۶)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مظلوم کی بد دعا سے بچو، یہ آگ کی چنگاریوں کی مانند آسمان کی طرف اٹھتی ہے۔ “(اسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ )
آپ ﷺ نے مظلوم کی بد دعا کو تیزی سے اوپر اٹھنے کی وجہ سے چنگاریوں کے ساتھ تشبیہ دی یا پھر اس لئے کہ یہ ایک ایسے دل سے نکلی ہوتی ہے جو ظلم و جور کی آگ سے دہک رہا ہوتا ہے اور یہ پردوں کو ایسے چیرتی ہوئی نکلتی ہے کہ گویا چنگاری ہو۔ اللہ پاک ہمیں ظلم سے اور ظالم کا ساتھ دینے سے بچائیں۔ آمین۔
سورہ مائدہ، آیت نمبر ۳۲؍ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ ‘‘
دوسری جگہ فرمایا گیا:
’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘
(سورہ الممتحنہ:۸)
اللہ تعالیٰ نے قتل نفس کو گناہ کبیرہ اور جرم عظیم قرار دیا ہے۔ اسے اس قدر عظیم جرم قرار دیا کہ گویا اس مجرم نے تمام موجودہ انسانی نسل کو قتل کردیا۔ پھر جس عمل کے ذریعے ایک شخص کی جان بچ جائے تو گویا اس شخص اور اس عمل نے تمام لوگوں کو زندگی بخش دی۔ قصاص میں قتل یا فساد فی الارض کو دور کرنے کے لئے کسی کے قتل کے علاوہ قتل اس قدر عظیم جرم ہے جس طرح کوئی تمام انسانوں کو قتل کر دے۔ ہر نفس دوسرے نفس کے برابر ہے۔ زندگی کا حق ہر ایک نفس کو حاصل ہےلہٰذا کسی ایک نفس کا قتل کرنا گویا تمام نفوس سے حق زندگی چھین لینے کے برابر ہے اس لئے حق حیات میں تمام نفوس شریک ہیں۔ اسی طرح قتل سے تحفظ کا حق بھی تمام نفوس کو حاصل ہے اور زندگی کا بچانا سب کے لئے لازمی ہےچاہے حالت زندگی میں دفاع کیا جائے یا مرنے کے بعد قصاص جاری کر کے زندگی کا دفاع کیا جائے تاکہ مجرم دوسرے نفوس پر دست درازی نہ کرے۔ کسی کی ناحق جان لینا نہایت ہی گھناؤنا جرم ہے۔ بے گناہوں کو قتل کرنا اور نہتے لوگوں پر گولی برسانا، اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ایسے ظالموں کو نبی کریم ﷺ اور ان کے دین سے کوئی مطلب نہیں ہے، ایسے لوگ قانون اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے باغی ہیں، کیوں کہ پیغمبر اسلام ﷺ اور قانون اسلام کا حکم یہ ہے کہ جس نے کسی کی زندگی بچا لی، جیسے کسی کو قتل ہونے یا ڈوبنے یا جلنے یا بھوک سے مرنے وغیرہ اَسبابِ ہلاکت سے بچالیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو بچالیا۔ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت مبارکہ اسلام کی اصل تعلیمات کو واضح کرتی ہے کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی کا مذہب ہے اور اس کی نظر میں انسانی جان کی کس قدر اہمیت ہے۔ جو لوگ اسلام کی اصل تعلیمات کو پس پُشت ڈال کر دامنِ اسلام پر قتل و غارت گری کا حامی ہونے کا دھبہ لگاتے ہیں اور خود کو ’ مسلمان‘ کہلا کر بے قصور لوگوں کو گولی مارتے ہیں یا بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے ذریعے موت کی نیند سلا دیتے ہیں انہیں آخرت کی پکڑ سے ڈرنا چاہئے کہ کیونکہ یہ عمل سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
امیر المومنین حضرت عثمانؓ کو جب باغی گھیر لیتے ہیں، تو حضرت ابو ہریرہؓ ان کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں، میں آپ کی طرف داری میں آپ کے مخالفین سے لڑنے کیلئے آیا ہوں، آپ ملاحظہ فرمایئے کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے، یہ سن کر امیرالمومنینؓ نے فرمایا، کیا تم اس بات پر آمادہ ہو کہ سب لوگوں کو قتل کر دو، جن میں ایک میں بھی ہوں۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا نہیں نہیں۔ فرمایا سنو ایک کو قتل کرنا ایسا برا ہے جیسے سب کو قتل کرنا۔ جاؤ واپس لوٹ جاؤ، میری یہی خواہش ہے اللہ تمہیں اجر دے اور گناہ نہ دے۔ یہ سن کر آپؓ واپس چلے گئے اور لڑنے سے باز رہے۔ مطلب یہ ہے کہ قتل کا بدلہ دنیا کی بربادی کا باعث ہے اور اس کی روک لوگوں کی زندگی کا سبب ہے۔
حضرت سعیدؓ بن جبیر فرماتے ہیں ایک مسلمان کا خون حلال کرنے والا تمام لوگوں کا قاتل ہے اور ایک مسلم کے خون کو بچانے والا تمام لوگوں کے خون کو گویا بچا رہا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب نے رسولؐ اللہ سے درخواست کی کہ حضور ﷺ مجھے کوئی ایسی بات بتائیں کہ میری زندگی با آرام گزرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا کسی کو مار ڈالنا تمہیں پسند ہے یا کسی کو بچا لینا تمہیں محبوب ہے؟جناب حمزہ ؓ نے جواب دیا بچا لینا، آپ ﷺ نے فرمایا بس اب اپنی اصلاح میں لگے رہو۔
دنیا میں نوع انسانی کی زندگی کی بقا منحصر ہے اس پر کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسانوں کی جان کا احترام موجود ہو اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کی بقاء و تحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جو شخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے، وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے اور ہمدردی کے جذبہ سے خالی ہےلہٰذا وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے، کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام افراد میں پائی جائے تو نوع انسانی کا خاتمہ ہو جائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتا ہے، وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے، کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کی بقا کا انحصار ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: مظلوم کی مدد تو ٹھیک ہے مگر ظالم کی کیسے مدد کریں ؟ آپؐ نے فرمایا ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (بخاری۔ کتاب المظالم، مسلم۔ کتاب الفتن)
قرآن مجید میں انسان کی جان لینے کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ (سورۃ المائدہ: ۳۲) یہ آیت انسان کی جان کی حرمت اور اس کی قدر و قیمت کو واضح کرتی ہے۔ اسلام میں کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنا انتہائی بڑا گناہ ہے، اور کسی کی جان بچانا انتہائی بڑی نیکی۔