• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

حکمت و بصیرت گفتگو کا اہم اصول اور بنیادی اسلوب ہے

Updated: July 19, 2024, 3:57 PM IST | Maulana Abubakar Sheikhupuri | Mumbai

دور ِ حاضر کا یہ المیہ ہے کہ معاشرہ دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے، جرائم کی شرح خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے، انسانی اوصاف اور اسلامی اقدار سے امت کوسوں دور جاچکی ہے، باہمی رویوں میں شدت اور تلخی کا عالم یہ ہے کہ معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر دیرینہ تعلقات اور رشتہ داری کے تقدس کو پامال کر دیا جاتا ہے اور طویل تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔

The first requirement of wisdom and insight is that there should be sincerity in the intention of the sermon. Photo: INN
حکمت و بصیرت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ واعظ کی نیت میں اخلاص ہو۔ تصویر : آئی این این

دور ِ حاضر کا یہ المیہ ہے کہ معاشرہ دن بدن تنزلی کی طرف جا رہا ہے، جرائم کی شرح خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے، انسانی اوصاف اور اسلامی اقدار سے امت کوسوں دور جاچکی ہے، باہمی رویوں میں شدت اور تلخی کا عالم یہ ہے کہ معمولی باتوں کو بنیاد بنا کر دیرینہ تعلقات اور رشتہ داری کے تقدس کو پامال کر دیا جاتا ہے اور طویل تنازعات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، ایک دوسرے کا احساس کرنے اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کا دست وبازو بننے کی روایتیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ”ہٹو بچو“کے شور اور مادیت کی دوڑ میں بلا تفریق ہر ایک کو ہم روندتے چلے جا رہے ہیں۔ بد زبانی، بدگمانی، جھوٹ، فریب، ظلم و زیادتی، حق تلفی اور عدم ِبرداشت جیسے اخلاق ِ رزیلہ ہمارا شعار بن چکے ہیں۔ 
آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا امت میں واعظین کی کمی ہے؟کیا علم و دانش کی درس گاہیں مقفل ہو گئی ہیں ؟کیامنبر و محراب کے سب وارثین اور مسند نشیں کسی اور جزیرے میں جا کر آباد ہو گئے ہیں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہے، ناصحین کی بھی بہتات ہے، مبلغین بھی بے شمار ہیں، تلقین و ارشاد کی مسندوں پر جلوہ افروز راہبران ِ امت بھی ہر خطے اور ہر طبقے میں موجود ہیں، پھر اصل معمہ کیا ہے؟ معاشرے کی اس گرتی ہوئی ساکھ کا سبب کیا ہے؟ …حقائق کی روشنی میں اور گردو پیش کے ماحول کی معروضی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ وعظ و نصیحت کے جو بنیادی اصول تھے اور سامعین سے گفتگو کی جو اسلامی ہدایات تھیں انہیں نظر انداز کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے گھنٹوں کی تقریریں اور طویل ترین لیکچرز سامعین کو متاثر کرنے میں ناکام ہیں، لہٰذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ گفتگو سے پہلے اس حوالے سے قرآنی ارشادات و نبوی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے۔ 
گفتگو کا سب سے اہم اور بنیادی اصول حکمت و بصیرت ہے۔ قرآن ِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:” (اے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم!) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی طرف بلائیے اوران سے اس طریقے سے بحث کیجئے جو نہایت عمدہ ہے۔ “ (النحل:۱۲۵) 
حکمت و بصیرت کے کیا تقاضے ہیں ؟ آئیے! قرآن و سنت کی روشنی میں ان پر ایک واقعاتی اور مطالعاتی نگاہ ڈالتے چلیں۔ 
اخلاص نیت:
 حکمت و بصیرت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ واعظ کی نیت میں اخلاص ہونا ہو، اس کے پیش ِ نظر صرف یہ بات ہو کہ لوگ راہ ِ راست پر آجائیں اور اعتقادی اور عملی طور پر ان کی اصلاح ہو جائے، اس طرح یہ عمل میرے لئے صدقہ جاریہ بن جائے، خدانخواستہ اگر اس کا ارادہ یہ ہوا کہ لوگ میرے اندازِ گفتگو اور حسنِ بیان کی تعریف کرتے ہوئے واہ واہ کہیں، میرے علم و فضل کی داد دیں ، مَیں شہرت اور ناموری کے بامِ عروج تک پہنچ جاوٴں تو یقین کیجئے کہ آپ کی یہ تقریریں نہ صرف یہ کہ غیر موٴثر، بے کار اور ثواب سے خالی ثابت ہوں گی، بلکہ نیت کی خرابی کی وجہ سے آپ کے لئے وبالِ جان بنیں گی۔ 
موقع کی مناسبت کا لحاظ: 
 حکمت و بصیرت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ گفتگو موقع اور محل کی مناسبت سے ہو۔ جس بات کے کرنے میں واعظ اس بات کا اندیشہ محسوس کرے کہ اس سے لوگوں میں بحث و تمحیص کا ایک غیرضروری سلسلہ شروع ہو جائیگااور وہ تعمیری سوچ رکھنے کے بجائے اس کو تنقیدی نقطہ نظر سے دیکھیں گے تو ایسی چیز بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ 
عزت ِ نفس کا لحاظ:
 حکمت و بصیرت کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اپنے وعظ و بیان میں عمومی اصلاح کی بات کی جائے اور اگر کسی معاشرتی خرابی کی اصلاح مقصود ہو تو متعین طور پر کسی شخص کا ذکر کر کے اس کے گناہ کا تذکرہ نہ کیا جائے، ورنہ آپ کا یہ طرزِ بیان اس سامع کو نصیحت سے بہرہ ور کرنے کے بجائے اس کے دل میں آپ کیخلاف نفرت پیدا کر دے گا اور وہ شخص زندگی بھر آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو گا۔ 
 نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات ِ مبارکہ کے مطالعہ سے بھی یہی درس ملتا ہے کہ اصلاح ِ احوال کے جذبے سے نصیحت تو کی جائے، لیکن کسی کے عیوب کو آشکار کر کے اس کی فضیحت نہ کی جائے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اثنائے وعظ میں بسا اوقات یہ جملہ ارشاد فرماتے ”لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسے ایسے کرنے لگ گئے ہیں…“
ذہنی استعداد کا لحاظ: 
 حکمت و بصیرت کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ مخاطب کی ذہنی استعداد اور عقلی سطح کے مطابق اس سے بات کی جائے، اگر وہ ایسا سادہ لوح آدمی ہے جو فنی اصطلاحات اورعلمی نکات سے واقف نہیں تو اس کے سامنے ایسی چیزوں کا بیان نہ کیا جائے بلکہ سادہ طرزِ تخاطب اور عام اندازِ تکلم سے اس کو سمجھایا جائے۔ آپؐکا ارشاد ہےکہ لوگوں کو ان کے مرتبہ پر رکھ کر ان سے سلوک کرو اور ان کی عقل (کی وسعت ) کے مطابق ان سے کلام کرو۔ “ علاقائی زبان میں رائج محاورات و ضرب الامثال کا استعمال خاصا مفید اور دل پزیر ہو سکتا ہے۔ 
اختلاف کے وقت شائستگی:
  حکمت و بصیرت کا پانچواں تقاضا یہ ہے کہ اپنے نقطہ نظر کو بیان اور دوسرے کے موقف سے اختلاف کرتے وقت تہذیب، شائستگی اور وقار کو ملحوظ رکھا جائے، اختلاف ذات سے نہیں، بات سے اور ذلیل کر کے نہیں، دلیل دے کرکیا جائے۔ یہی نبویؐ طرز اور قرآنی حکم ہے چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے: ”( اے پیغمبر! ) ان (یہودیوں ) سے اچھے طریقے سے بحث کیجئے۔ ‘‘ (النحل ) اندازہ کیجئے ! یہودی جو غیر مسلم ہیں ان سے مناظرہ اور مباحثہ کرنے کیلئے احسن طریقہ اختیار کرنے کا حکم ہے تو ایک مسلمان شخص سے گفتگو میں اچھا رویہ رکھنے کی کس قدر تاکید ہو گی! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK