Inquilab Logo Happiest Places to Work

نماز میں کلمات ثناء، ان کی حکمت اور فلسفہ

Updated: March 01, 2024, 4:07 PM IST | Dr. Abul Hasan Al-Azhari | Mumbai

کسی بھی گفتگو کے ابتدائی کلمات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ابتدائی کلمات ہی ساری گفتگو کی حقیقت اور اس کی مرکزیت کو واضح کرتے ہیں۔

Standing, Ruku and Sajdah, these important states of prayer begin with Subhank Allahum, Subhan Rabi al-Azeem and Subhan Rabi al-Ala. Photo: INN
قیام، رکوع اور سجدہ، نماز کی یہ اہم حالتیں سبحنک اللہم، سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ سے شروع ہوتی ہیں۔ تصویر : آئی این این

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’(نعمتوں اور بہاروں کو دیکھ کر) ان (جنتوں ) میں ان کی دعا (یہ) ہوگی ’’اے اللہ! تو پاک ہے‘‘ اور اس میں ان کی آپس میں دعائے خیر (کا کلمہ) ’’سلام‘‘ ہوگا (یا اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی طرف سے ان کے لئے کلمہ استقبال ’’سلام‘‘ ہوگا) اور ان کی دعا (ان کلمات پر) ختم ہوگی کہ ’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ ‘‘(يونس:۱۰)
سُبْحٰـنَکَ اللّٰهُمَّ اہل جنت کا کلمہ ہے
اس آیت کریمہ میں سبحنک اللّٰہم کے کلمات ارشاد فرمائے گئے کہ جنت والوں کی یہ دعا ہوگی اور ان کا یہ کلام ہوگا۔ اللہ کی نعمتوں کو جب وہ دیکھیں گے اور ان نعمتوں سے مستفید ہوں گے اور رب کی ان نعمتوں کے کرشمے دیکھیں گے اور اس کی نعمتوں کے نظاروں میں جوں جوں کھوتے جائیں گے اور اس کی نعمتوں کے مختلف مناظر دیکھیں گے اور ان نعمتوں کی جاذبیت اور کشمکش ان کا حسن ظاہر و باطن، ان کے کمالات صوری و معنوی اور ان نعمتوں کی عجب شان کو دیکھیں گے تو ان کی زبان سے بے ساختہ ہر لمحہ پکار ہوگی: سُبْحٰـنَکَ اللّٰهُمَّ اے اللہ تو پاک ہے۔ اے میرے مولا تو پاک ہے، اے میرے مولا تو پاک ہے۔ جنتیوں کی زبان اور ان کا کلام اور ان کا پہلا کلمہ ہی سُبْحٰـنَکَ اللّٰهُمَّ ہوگا۔ 
اہل جنت کے کلام سے نماز کا آغاز
ان جنتیوں کی زبان کے پہلے کلمے سے ہماری نماز کا آغاز ہورہا ہے۔ باری تعالیٰ اس نماز کے ذریعے جہاں ہمیں اپنی تربیت اور معرفت عطا کرتا ہے وہاں اس عمل نماز کا اجر بندے کو جنت کی نعمت کی صورت میں عطا کرتا ہے۔ ایک نمازی نیت اور تکبیر تحریمہ کے ذریعے نماز میں داخل ہوتا ہے۔ نماز بندے کی رب سے ملاقات ہے۔ نماز بندے کی رب سے گفتگو ہے۔ نماز بندے کی رب سے ہمکلامی کا نام ہے۔ نماز بندے کا رب سے مانگنا ہے۔ نماز بندے کی رب کے حضور دعا و مناجات کا نام ہے۔ نماز جو صلاۃ ہے، صلاۃ کا لغوی معنی ہی دعا ہے، نماز بندے کی دعاؤں کا نام ہے۔ بندہ کبھی حالت قیام میں اپنے رب سے دعا کرتا ہے، کبھی حالت رکوع میں رب سے مانگتا ہے، کبھی حالت سجدہ میں اس سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے۔ بندہ نماز میں داخل ہوتے اور اللہ اکبر کہتے ہی ایک نئے جہاں میں داخل ہوتا ہے۔ بندے کے قیام کا اول کلام ہی سبحنک سے شروع ہوتا ہے۔ اے میرے مولا تو پاک ہے اور پھر قیام میں اور حمدو ثناء کرتے ہوئے حالت رکوع میں داخل ہوتا ہے۔ یہ رب کی نعمتوں کا ایک اور جہاں ہوتا ہے۔ اس میں بھی بندے کا کلام سبحان کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ 
سبحان ربی العظیم یعنی پاک ہے میرا پروردگار، عظمت والا۔ اے میرے عظمت و بزرگی والے رب! تو پاک ہی پاک ہے۔ اے میرے مولا! سب عظمتیں، سب بزرگیاں تیرے ہی لئے ہیں تو شان سبحانیت کا مالک ہے مولا، تو پاک ہی پاک ہے، تو شان قدسیت کا مالک ہے۔ پھر بندہ رکوع سے بھی زیادہ جھکتا ہے حتیٰ کہ اس کی عظمتوں، اس کی بزرگیوں، اس کے کمالات، اس کی قدرتوں کی گواہی دیتے ہوئے جھکتے جھکتے اس کی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس کی شان ربوبیت کو مانتے مانتے اور اس کی شان عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ربنالک الحمد کا نعرہ اپنے من میں لگاتے ہوئے اس کے سامنے عاجزی کی انتہاء کردیتا ہے اور اپنی بندگی کو کمال کو پہنچادیتا ہے۔ 
قیام، رکوع اور سجدہ میں سبحان کی تکرار
دنیا کی کسی بھی چیز اور مخلوق کے سامنے نہ جھکنے والا انسان سجدے کی حد تک فقط رب کے سامنے جھکتا ہے اور اپنے مولا کے سامنے انسان اتنا جھکتا ہے جو جھکنے کی بھی آخری حد ہے، اس سے زیادہ مزید جھکا نہیں جاسکتا۔ انسان قیام سے رکوع میں آتا ہے اور پھر رکوع سے سجدہ میں آتا ہے۔ گویا وہ زمین پر بچھ جاتا ہے مگر کیسے بچھتا ہے؟ اپنے چہرے کو، اپنی پیشانی کو، اپنے سر اور دماغ کو اپنے قلب و دل کو اپنی سوچ و فکر کو، اپنے نظریئے اور تصور کو، اپنے خیال وگمان کو، اپنے فعل و عمل کو، اپنے اعضاء و جوارح کو حتی کہ اپنے پورے وجود کو اس کی تسبیح ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کے ورد پر اپنے رب کی شان علویت اور اپنی شان عجز کا اعتراف کرتے ہوئے خود کو جھکائے ہوئے ہے۔ اس کے سجدے کا کلام قیام و رکوع کی طرح لفظ سبحان کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے، مولا تو پاک ہے، مولا تو پاک ہے، مولا تو پاک ہے۔ سبحان ربی الاعلیٰ مولا تو ایسا پاک ہے تو ہی میرا رب ہے، تو ہی سب سے اعلیٰ ہے، تجھ سے کوئی اعلی نہیں، تجھ سے بڑھ کر کوئی بلند نہیں، تجھ سے بڑھ کر کوئی علو مرتبت نہیں، تیری ہی شان اعلیٰ ہے۔ نماز میں تین ہی یہ بڑی حالتیں ہیں اور تینوں سبحنک اللہم، سبحان ربی العظیم اور سبحان ربی الاعلیٰ سے شروع ہوتی ہیں۔ 
کلام میں تمہیدی کلمات کی اہمیت
اب بندے کی نماز شروع ہوتی ہے۔ کسی بھی گفتگو کے ابتدائی کلمات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ابتدائی کلمات ہی ساری گفتگو کی حقیقت اور اس کی مرکزیت کو واضح کرتے ہیں۔ تمہید اپنے اندر انتہا لئے ہوتی ہے۔ مقدمہ کلام اور مقدمہ کتاب، کلام و کتاب کی ساری خوبیوں کو یکجا کئے ہوتا ہے۔ بعض کلاموں اور کتابوں کا مقدمہ ہی حرف آخر ہوجاتا ہے اور اس موضوع کا حاصل ہوجاتا ہے اور اس عمل کا کمال بن جاتا ہے۔ اس گفتگو کا مرکز و محور بن جاتا ہے۔ وہی مقدمۂ کلام ہی پورا اسلوب کلام بن جاتا ہے۔ وہ ابتداء ہی انتہا بن جاتی ہے اور وہ ابتدائیہ ہی حاصل کلام بن جاتا ہے۔ اس لئے مقدمے پر بہت زیادہ سوچا جاتا ہے۔ تمہیدی کلمات پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ الفاظ اور جملوں کے انتخاب میں بڑی عرق ریزی کی جاتی ہے۔ ایسے اعلیٰ ترین کلمات سے ابتدائی کلمات کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ 
نماز کے پہلے کلمے نے ہی نماز کی ساری حقیقت واضح کردی اور وہ یہ ہے کہ بندہ شہادت دیتے ہوئے، گواہی دیتے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر اعتراف کرتے ہوئے ساری مخلوق کو گواہ بناتے ہوئے ہاتھوں کو واضح انداز میں بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کرتا ہے کہ اے مخلوق خدا، اے جن و انس سن لو، اے ارضی و سماوی مخلوق میرے اس عمل پر گواہ ہوجاؤ۔ میرے ان کلمات پر شاہد ہوجاؤمیری اس سوچ پر مطلع ہوجاؤ، میرے اس عقیدے کو جان لو کہ اللہ اکبر یعنی اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ 
تکبیر تحریمہ کا مفہوم و حقیقت
میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اعتراف کررہا ہوں کہ اللہ ہی اس کائنات میں سب سے بڑا ہے۔ اس کائنات میں کبریائی کی شان فقط اللہ کو حاصل ہے۔ اس کائنات میں سب سے بڑا، سب سے اعلیٰ، سب کو پالنے والا، سب کو پیدا کرنے والا، سب کو رزق دینے والا صرف اور صرف اللہ رب العالمین ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں اس الا اللہ کی شان والے معبود کی عبادت میں اللہ اکبر کے کلمات کے ساتھ داخل ہورہا ہوں۔ 
 اب تم میری زندگی کے ہر قول میں ہر عمل میں اور میری بندگی کے ہر انداز میں اور ہر اسلوب میں اور ہر طریق میں تم اللہ اکبر کے جلوے ہی پاؤ گے اور اللہ اکبر کے نظارے اب قیام میں بھی ظاہر ہوں گے، میرے رکوع میں دکھائی دیں گے میرے سجود و قعود میں بھی اللہ اکبر کا ایک وجد آور منظر ہوگا، میں اسی ’’اللہ اکبر‘‘ کی تلاش میں اس کی جستجو میں، اس کی تڑپ میں، اس کی معرفت طلبی میں اور اس کی قربت کی آرزو میں نماز میں مختلف حالتیں بدلتا ہوا نظر آؤں گا۔ 
 اللہ اکبر کے بعد اب میرا قیام شروع ہوتا ہے اور میرا قیام محض قیام نہیں صرف کھڑا ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے حضور کھڑا ہونا ہے۔ میرے اس قیام میں اور قیاموں میں فرق ہے میرے کھڑے ہونے کا انداز دیکھو، اس کی معیت پر غور کرو، اس حالت قیام پر غور کرو، میں رو بروئے مولا ہوں، میں رب کے حضور میں ہوں، میں اس کی بارگاہ میں شرف حاضری پارہا ہوں، اب مجھے کوئی نہ بلائے، کوئی مجھ سے ہمکلام نہ ہو۔

رب سے ہمکلامی میں یکسوئی: میں اپنے رب سے کلام کررہا ہوں اور وہ کہتا ہے جب تم مجھ سے بات کرو، میرا ذکر کرو اور میری بات کرو تو پھر مجھ ہی سے بات کرو:
’’اور آپ اپنے رب کے نام کا ذِکر کرتے رہیں اور (اپنے قلب و باطن میں ) ہر ایک سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہیں۔ ‘‘(المزمل: ۸)
مولا اب تو ہے اور تیری یاد ہے۔ اب بندہ کامل طور پر یکسو ہوکر مولا کا ذکر کرتا ہے۔ خود کو ذاکر بناتا ہے۔ وادی ذکر میں آتا ہے، عالم تسبیح میں آتا ہے، زبان پر تسبیح کے کلمات لاتا ہے، اس کے سامنے عالم تسبیح کے سارے مناظر ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ کل جہاں اس کی تسبیح میں مصروف عمل ہے:
’’اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ‘‘(الحديد:۱، الحشر:۱، الصف:۱)
ان تینوں سورتوں کا آغاز ہی ان کلمات کے ساتھ ہوتا ہے اور بندہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی ’’صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو‘‘ (آل عمران:۴۱)۔ پر عمل پیرا ہے اور کسی کو دیکھتا ہے کہ وہ اس حکم پر قائم ہے:
’’اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کریں طلوعِ آفتاب سے پہلے (نمازِ فجر میں ) اور اس کے غروب سے قبل (نمازِ عصر میں )، اور رات کی ابتدائی ساعتوں میں (یعنی مغرب اور عشاء میں ) بھی تسبیح کیا کریں اور دن کے کناروں پر بھی (نمازِ ظہر میں جب دن کا نصفِ اوّل ختم اور نصفِ ثانی شروع ہوتا ہے۔ ‘‘ (طٰہٰ : ۱۳۰)
اور کبھی یہ حکم ہوتا ہے:
’’اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوں۔ ‘‘ (الطور:۴۸)
اور کبھی حکم تسبیح یوں ہوتا ہے۔ ربی الاعلیٰ کے الفاظ کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کرو۔ 
’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے۔ (الاعلیٰ:۱)
اب نماز میں تسبیح کی تینوں صورتیں آگئی ہیں۔ حالت قیام میں سبحنک اللہم کی صورت میں بندے کی تسبیح بھی ہے۔ حالت رکوع میں فسبح باسم ربک العظیم کے حکم کے تحت ربی العظیم کی صورت میں اس کی تسبیح بھی ہے اور حالت سجود میں اس کے حکم کے تحت سبح اسم ربک الاعلیٰ کی صورت میں رب الاعلیٰ کی صورت میں بھی تسبیح ہے۔ غرضیکہ بندہ داخل صلاۃ ہوتے ہی عالم تسبیح کی ایک بہت بڑی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے۔ جہاں پر مخلوق اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح و تحمید میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔ 
تسبیح ایک عالم بے خودی ہے:بندہ بھی اس وادی تسبیح میں گم ہوجاتا ہے۔ اس کی عظمتوں کا نظارہ کرتا ہے، اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کی رحمتوں کو دیکھتا ہے، اس کے احسانات کو جانتا ہے، اس کی کرم نوازیوں کو سمجھتا ہے، اس کی شان رحمانیت اور شان رحیمیت کا اس کی سب شانوں پر تفوق دیکھتا ہے۔ اپنی لغزشوں اور خطاؤں پر نگاہ کرتا ہے اور اس کی عطاؤں کے سلسلہ دراز پر جھوم اٹھتا ہے۔ اس کی شان قدوسیت اور شان سبحانیت کے نظاروں اور مشاہدوں میں کھوجاتا ہے۔ بے ساختہ سبحان اللہ کی اس وادی میں اس زبان پر بھی یہ کلمات ثناء جاری ہوجاتے ہیں۔ 
 یا اللہ اور اللہ کی شان قربت: جب بندہ یا اللہ کہتا ہے تو وہ رب اس بندے کو کہتا ہے اے بندے میں تیرے اتنا قریب ہوں کہ میں تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں۔ اس کائنات ارض میں اے بندے تیرا سب سے قریبی، تیرے سب سے زیادہ نزدیک اور تیری قربت میں سب سے پہلا میں ہی ہوں اور وہ رب بندے کو اپنی قربت کا احساس یوں دلاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے:
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ ‘‘(ق:۱۶)
تو بندہ حالت نماز میں اپنی ذات سے سب سے زیادہ اقرب ذات کو پکارتا ہے، اس کی توجہ حاصل کرتا ہے اور اس سے ہمکلام ہوتا ہے۔ بندہ اپنی ہر حالت میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہے اسی کو یاد کرتا ہے تو اس کی یاد کے لئے اور اس کی بارگاہ میں حاضری کے لئے اور اس سے ہمکلام ہونے کے لئے جس لفظ کا انتخاب کرتا ہے وہ لفظ سبحان ہے کہ مولا تو پاک ہی پاک ہے مولا تو ہر عیب، ہر نقص، ہر شرک سے پاک ہے، تو ہی معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو ہی رازق ہے تیرے سوا کوئی رازق نہیں، تو ہی خالق ہے تیرے سوا کوئی خالق نہیں، تو ہی مسجود ہے تیرے سوا کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا، تو ہی مستحق عبادت ہے تیرے سوا کسی کی عبادت کی نہیں جاسکتی اور تو ہی رب ہے تیرے سوا کوئی رب نہیں۔ 
ثناء کے ذریعے بندہ اللہ کی بارگاہ میں پانچ چیزوں کا اعتراف کرتا ہے کہ مولا تو ہی شان سبحانیت کا مالک ہے۔ حمد کا تو ہی مستحق ہے، تیرا نام ہی برکت والا ہے تیری شان ہی سب سے بلند ہے اور تیراکوئی شریک نہیں !

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK